• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آہ! کیا قوم ہیں ہم۔ اڑھائی سال سے جاری سیاسی، آئینی و معاشی بحران تشویشناک سے عوامی مفادات کے حوالے سے خطرناک تو 16ماہی شہباز حکومت میں ہی ہوگیا تھا، اور اب یہ سرخ بلنکنگ لائٹ کے ساتھ سیٹیاں بجاتا الارمنگ ہوگیا ہے۔ جاری گھمبیر بحران نے عالمی وبا (کوویڈ۔19) کے دوران ہی پی ڈی ایم کی عمران حکومت کو اکھاڑ کر حصولِ اقتدار کی مشترکہ بیتابی سے جنم لیا۔ قابل فہم عالمی سطح کی کسادبازاری سے پاکستان میں بھی ہوتی مہنگائی کی آڑ میں 16جماعتی اتحاد نے وبا سے تحفظ کے ایس اوپیز کو بری طرح روندتے ہوئے جلسے جلوسوں اور لانگ مارچ کا آغاز جبکہ اسکے متوازی عمران حکومت نے کوویڈ مینجمنٹ کے دنیا میں تسلیم کئے بہترین سمارٹ لاک ڈائون اور غربا کو غیر معمولی ریلیف سے گڈگورننس کا قابل تحسین سلسلہ جاری رکھا۔ بلاشبہ کرائسس مینجمنٹ کا یہ مثالی اور دنیا کی رینکنگ میں تیسرے چوتھے بہترین کوویڈ مینجمنٹ ماڈل کے طور سول منتخب حکومت نیک نیتی، غربا کے احساس، کرپشن فری گڈ گورننس اور فوج کے زمانہ امن و بحران میں نتیجہ خیز منظم معاونت کے کردار سے قائم ہوا اور عالمی وبا پر قابو پانے میں پاکستان کی بہترین اہلیت و صلاحیت کا ریکارڈ تاریخ میں محفوظ ہوگیا۔ وائے بدنصیبی ملکی داخلی منفی سیاست دوران وبا ہی اس بڑے پاکستانی امتیاز جس میں بیمار ٹیکسٹائل انڈسٹری جاگ کر ایکسپورٹ میں بڑے فیصد کا سبب بنی اور کنسٹرکشن انڈسٹری کو پابندیوں کے استثنا سے گراس روٹ لیول کی لیبر اور اوپر کی سطح پر سرمایہ کاری میں معاشی سرگرمیاں جاری و ساری رہیں۔ شعبہ زراعت میں کسان کو بڑی ترغیبات سے زرعی سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی سے دوران وبا بھی فوڈ سکیورٹی کا چیلنج پیدا نہیں ہوا اور سپلائی چین کی روانی سے روزی مزدوری کا بڑا حصہ بھی ٹھپ نہیں ہوا، البتہ عالمی سطح پر سمندروں میں بحری ٹریفک (میری ٹائم) کا بڑا حصہ منجمد ہونے سے درآمدات محدود ہوگئیں جس نے پوری دنیا سمیت پاکستان میں بھی اشیائے خورونوش اور روزمرہ کی ضروریات کی مہنگائی میں اضافہ کیا۔ اس پر پی ڈی ایم کا پرامن لیکن پُرخطر احتجاج بھی جاری تھا، پروپیگنڈے اور اپوزیشن کے اتحاد کے نام پر منفی گٹھ جوڑ سے وہ اودھم مچایا گیا کہ کرائسسز مینجمنٹ میں پاکستان کی عظیم کامیابیاں پی ڈی ایم کے سیاسی کھلواڑ میں دب گئیں عمران حکومت کا گراف قابل فہم مہنگائی نے پی ڈی ایم کے مہنگائی پر قابو پانے کے زور دار وعدوں اور دعوئوں پر یقین کیا اور عمران حکومت کی مقبولیت کا گراف تیزی سے گرنے لگا۔ حالانکہ کووڈ۔ 19میں بھی جاری اقتصادی کامیابیوں کا نچوڑ عمران حکومت کے آخری دو سال میں سالانہ ناقابل بحث ترقیاتی اضافہ 5.8اور 6.1کا سائنٹفک ریکارڈ بنا۔

نہ بھولا جائے کہ متذکرہ ملکی داخلی صورتحال کے تناظر میں عالمی سیاست میں امریکہ اور چین کے درمیان ٹریڈوار اور سائوتھ چائنہ سی ایشو سے پیدا ہونیوالے جنگی بادلوں اور چین کے امریکہ مقابل چین کی CONNECTIVITY کی پرامن اکنامک اپروچ پر یورپ اور امریکی اثر کے خلیجی ممالک کے مثبت رسپانس اور اس میں روس کیساتھ باہمی مفادات واضح ہونے، پھر بھارت، چین سرحدی تنازع جاگنے کے تناظر میں پاکستان کی عالمی سیاست کے واضح ہوتے پیراڈائم شفٹ میں بڑھتی اہمیت اور حیثیت، عمران حکومت کی ایف اے ٹی ایف سے چھٹکارہ پانے میں کامیاب ترین کاوشیں، پاکستان کےسنٹرل ایشیا سے جڑنے کی تیزہوتی سرگرمیاں اور سب سے بڑھ کرسی پیک کے واضح ہوتے ثمرات، ایک تابناک پاکستان کا پتہ دے رہے تھے۔ پھر یہ نہیںکہ یہ ڈویلپمنٹس پاکستان کو کوئی امریکن اینگلو بلاک سے دور لے جا رہی تھیں اس بلاک سے پاکستان کے اور اس بلاک کے پاکستان سےتعلقات کی تاریخ اور نوعیت بن ہی ایسی گئی ہے کہ دونوں کبھی ایک دوسرے کے متحارب کی سطح پر آ ہی نہ سکتے۔ مدتوں بعد پاکستانی وزیر اعظم (عمران خان) کو امریکن دورے کی ہائی پروٹوکول کیساتھ دعوت اسکا واضح ثبوت تھا جبکہ یورپی یونین کے پاکستان سے تجارتی تعلقات کے عملی اقدامات اس کا دوسرا ثبوت تھا۔ بنتی عالمی اور علاقائی سیاست کے اس تناظر میں یعنی پیرا ڈائم شفٹ کی ظہور پذیری میں پاکستانی خارجی امور پاکستانی تاریخ میں پہلی مرتبہ عمران حکومت ہارس ٹریڈنگ سے اکھاڑنے سے تین چار ماہ قبل ایک ہمہ گیر Well Documented پالیسی کا اعلان کیا گیا جس میں پہلی مرتبہ پاکستانی خارجہ امور کو اقتصادی ترقی کی اولین ترجیح کیساتھ جوڑ دیا گیا، اس کا دوسرا اہم ترین بیانیہ عمران خان کی ذاتی INTELLECTUAL PROPERTY کا حامل بیانیہ ’’اب پاکستان جنگ نہیں امن کا اتحادی بنے گا‘‘ کی باقاعدہ پالیسی سازی کی گئی۔ اس اپروچ کی تائید و حمایت پی ڈی ایم میں شامل پارلیمانی جماعتیں اس وقت کر چکی تھیں جب یمن، سعودی عرب جنگ میں بھی خلیجی دوستوں کی اس توقع سے باجواز مشترکہ معذرت کی گئی کہ ہم جنگ میں ان کے اتحادی نہیں جبکہ یہ سوال پارلیمان میں زیر بحث آیا۔ اس پر برادر ملکوں کی ناراضی کا عارضی ہونے کا اندازہ بہت درست نکلا۔ متذکرہ داخلی اور خارجی امور میں یہ سب ڈویلپمنٹس عالمی وبا کے دوران کامیاب ترین کرائسسز مینجمنٹ کے دوران اور پھر اسکے مثبت اور وبا کے پاکستان پر پڑنے والے منفی نتائج اور انکی مینجمنٹ کے دوران ہوئی۔ یوں ہم بطور قوم (پاکستان) سپرنگ۔ 20سے تادم 4 سال میں دو بڑے بحرانوں کی لپیٹ میں آئے۔ ایک کی مینجمنٹ مثالی ثابت ہوئی، دوسرا چڑھتا، بڑھتا جاری ہے جو عملی سیاست کے انتہا کے منفی کھلواڑ سے شروع ہو کر پاکستان کیلئے بھی اقتصادی، سیاسی اور انتظامی تباہی کا باعث بن کر اسلامی جمہوریہ کو سرزمین بے آئین بنا چکا ہے۔ موجود گھمبیر اورپُرخطر سے الارمنگ ہوگئی صورتحال یوں ہوئی کہ بحران در بحران پر اعلامیہ اور پورے یقین سے اور مجبوراً (بھی) ہوئے ’’واحد حل‘‘ الیکشن بمطابق آئین (شفاف، آزاد و غیر جانبدار) کے مقابل عوامی رجحانات و میلانات کے خوف سے طرز کہن (اسٹیٹس کو) کا نظام تشکیل دینے والے اسکی بقا کیلئے وہ سیاسی، انتظامی اور غیر آئینی و غیرقانونی کھلواڑ مچا رہے ہیں، جس میں بیمار ریاستی ادارے ان کے مجرمانہ حد تک معاون بن گئے ہیں، حالانکہ عوامی رجحانات خالصتاً اپنے آئینی حق کے تابع اپنے غصب شدہ حقوق کی بازیابی کیلئے ہیں لیکن اب تو قوم کو جیسا تیسا الیکشن اور ایسے ہی بنی نحیف روایتی منتخب حکومت بھی قوم کے نصیب میں نظر نہیں آ رہی۔ ’’واحد حل‘‘ کی راہ بند ہونے کے بعد اب آخری امید، نظام عدل و انصاف جوگل کھلا رہا ہے!۔ یا اللّٰہ خیر۔

تازہ ترین