• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سیاسی جماعت کے بہروپ میں ایک متشدد جتھے نے نو مئی کو ریاستِ پاکستان پر حملہ کیا۔جناح ہاؤس کو آگ لگائی، ریڈیو پاکستان کو شعلوں میں جھونکا اور پورے ملک میں پولیس کی گاڑیوں کو نذرِ آتش کیا۔ شہداء کی یاد گاروں کی بے حرمتی اور جی ایچ کیو پر پتھراؤ کیا۔ اسکول جلایا ، موٹر وے کا ٹول پلازہ بھسم کیا اور میٹرو بس کا اسٹیشن جلا کر پاکستان کی تاریخ میں فسطائیت کا ایک نیا سیاہ باب لکھ دیا۔

دو ہزار بلوائیوں کے جتھے نے تشدد کے ذریعے اقتدار پر قبضہ کرنیکی کوشش کی جو کہ فسطائیت کی عین تعریف ہے۔ عمرانی فسطائیت نے اُس دن ریاست اور جمہوری سیاست کو جو گہرا گھاؤ لگایا اس میں سے آج بھی خون رِس رہا ہے۔ بین الاقوامی میڈیا اور متشدد جتھے کے مقامی ثناء خواں نو مئی پر سیاسی احتجاج کا پردہ ڈالنے کی کوشش کررہے ہیں۔ یہ سوال بہرحال جواب طلب ہے کہ کیا نو مئی کے عمرانی حملے کا مقصد بری فوج میں بغاوت کرانا تھا یا امن و امان کی صورتحال کو اتنا مخدوش کرنا کہ جس کے نتیجے میں پاکستان میں مارشل لا لگ جائے؟ جواب پر بحث ہوسکتی ہے لیکن یہ واضح ہے کہ نو مئی کے حملے کا کوئی جمہوری مقصدنہ تھا ۔

پاکستان کی تاریخ پارٹی سربراہوں کی گرفتاریوں سے بھری پڑی ہے لیکن کسی سیاسی جماعت نے آتشزنی، توڑ پھوڑ اور شہداء کی یادگاروں کی بے توقیری کا راستہ نہیں اپنایا۔ 2023ءمیں سلیکٹڈ سیاسی جماعت کی طرف سے پورے ملک میں دفاعی تنصیبات پر حملے اور سرکاری املاک کو آگ لگانے کا مقصد کیا تھا؟ تباہ کن کارکردگی، نفرت کی بطور ِحکومتی اصول ناکامی اور قومی اسمبلی میں ایک آئینی عمل کے ذریعے اقتدار سے اتارے جانے اور اس کے بعد درجنوں جلسے، لانگ مارچ کرنے کے باوجود موجودہ آرمی چیف کی تعیناتی روکنے میں عمرانی ناکامی نو مئی کی بنیاد بنی۔

تشدد، بے حرمتی اور غلیظ زبان عمرانی فسطائیت کے لئے نئی نہیں۔2023ء میں جی ایچ کیو کا گیٹ مسمار کرنیوالے وہی ہیں جنہوں نے 2014ء میں پارلیمان کا جنگلہ مسمار کیا تھا۔2023ء میں ریڈیو پاکستان پشاور کو آگ لگانیوالے وہی ہیں جنہوں نے 2014ء میں پاکستان ٹیلی ویژن ہیڈ کوارٹر پر ڈنڈوں سے قبضہ کیا تھا۔ ملک کے طول و عرض میں پولیس کے سینکڑوں افسروں اور اہلکاروں پر پٹرول بم پھینکنے والے اورانہیں زدو کوب کرنیوالے وہی ہیں جنہوں نے 2014ء میں اسلام آباد پولیس کے سینکڑوں افسروںاور اہلکاروں پر تشدد کیا تھا۔شہداء کی یادگاروں کی بے حرمتی کرنیوالے وہی ہیں جنہوں نے لغو نعرے لگا کر نعوذباللہ مسجد نبویؐ کی بے حرمتی کی تھی۔

تحریک انصاف کی سوچ فسطائی ہے جو اس جتھے کا خمیر بن چکا ہے۔ لیول پلینگ فیلڈ کے واویلے نے اس فسطائی حقیقت پر ایسی دھند پھیلائی ہے جس میں کچھ جمہور یت پسند بھٹک گئے ہیں۔جو جمہور یت پسند فوج کی سیاست میں مداخلت کی مخالفت میں جتھوں کی پشت پناہی کررہے ہیں وہ فسطائیت کی صفوں میں کھڑے ہیں۔ جمہوریت اور انسانی حقوق کی جدوجہد انتہائی قیمتی ہے۔ اس اصولی اور جرات مند جدوجہد کو جتھوں کی بھینٹ نہیں چڑھانا چاہیے۔ فسطائیت گھاؤ ہے، علاج نہیں۔

عمرانی مہم جوئی سویلین بالادستی کیلئے نہیں بلکہ خالصتاً اقتدار پر تشدد کے ذریعے قبضہ کرنے کیلئے ہے۔ افواج پاکستان کو، غدار اور میر جعفر کہنے سے منتخب اداروں کی بالادستی قائم نہیں ہوگی۔عوامی حاکمیت کی جدوجہد پشاور میں ڈیڑھ سو جانور جلاکر کامیاب نہیں ہوگی۔ عمران خان جتھوں کی بالادستی کی جنگ لڑرہے ہیں جمہور کی بالادستی کی نہیں۔

آئین پاکستان کے پہلے صفحے پر یہ وعدہ کیا گیا ہے کہ اس ریاست کا اقتدار اعلیٰ اللّٰہ تعالیٰ کے بعد عوام کے منتخب نمائندوں کے ہاتھ میں ہوگا۔ جو راستہ اس آئینی، جمہوری حاکمیت کی منزل کو جاتا ہے وہ کٹھن، پیچیدہ اور صبر کا متقاضی ہے۔جمہوریت پسندوں کے سامنے ایک پل صراط ہے جس کے ایک طرف فوجی آمریت کی کھائی ہے اور دوسری طرف فسطائیت کا جہنم۔ فضا میں مظلومیت کے جھوٹے دعوئوں کی اسموگ اور سوشل میڈیا کا تعفن پھیل رہا ہے۔

سیاسی جماعتوں کیلئے چیلنج ہے کہ 8فروری کے انتخابات کے ذریعے 24 کروڑ پاکستانیوں کو اس پل صراط سے گزار کر خوشحال، خوددار اور بہتر روزگار والے پاکستان تک پہنچائیں۔پاکستانی سیاست کے موجودہ منظر نامے میں صرف محمد نوازشریف ہی وہ اسٹیٹس مین ہیں جو قوم کو اس پل صراط سے گزار سکتے ہیں اور شاعر کے اس سوال کا جواب دے سکتے ہیں۔

اب تم ہی کہو کیا کرنا ہے

یہ گھاؤ کیسے بھرنا ہے

تازہ ترین