• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک زمانہ تھا جب مستقبل کی پیش گوئی جوتشی ، دست شناس اور نجومی کیا کرتے تھے ۔اب زمانہ بدل گیا ہے، اب برہمنوں سے پوچھنے کی ضرورت نہیں رہی کہ یہ سال اچھا ہوگا یا برا، یہ کام اب سائنسی بنیادوں پر ہوتا ہے اور مستقبل کی خبر دینے والوں کو پروفیسر کہا جاتا ہے۔یہ وہ پروفیسر نہیں جو طوطے سے فال نکلواتے ہیں بلکہ یہ وہ لوگ ہیں جوشماریات اور اعداد و شمار کی مدد سےبتاتے ہیں کہ مستقبل میں کسی واقعے کے رونما ہونے کے امکانات کس قدر ہیں۔گویا یہ فن برہمنوں کے ہاتھ سے نکل کر اُن لوگوں کے پاس آگیا ہے جو امکانات کی اِس دنیا کو حقائق اور معلومات کی روشنی میں پرکھتے ہیں اور پھر مستقبل کے بارے میں اُس حد تک پیش گوئی کرتے ہیں جہاں تک اُن کا علم اجازت دیتا ہے۔آج کل کی دنیا جس قدر پیچیدہ ہے اسی قدر غیر یقینی بھی ہے ،جدید دور کا انسان اِس غیر یقینی مستقبل کے بارے میں ہمہ وقت فکر مند رہتا ہے اور یہی انجانا خوف اسے چین نہیں لینے دیتا ، نہ جانے کل کیا ہوجائے کی تلوار چوبیس گھنٹے سر پر لٹکتی رہتی ہے جس کی وجہ سے انسان کی خوشیا ں بھی محدود مدت کے لیے ہوگئی ہیں،وہ اِس ڈر سے خوشی نہیں مناتا کہ کہیں زیادہ ہنسنے کے بدلے اتنا ہی رونا نہ پڑے، یہ توہمات مشرقی قدامت پسند ممالک میں تو اور بھی زیادہ ہیں جہاں اندیکھا مستقبل متوسط اور غریب طبقے کو ہمیشہ خوف میں مبتلا کیےرکھتا ہے اور اُسے کھُل کر جینے نہیں دیتا۔اِن حالات میں اوربھی ضروری ہے کہ ہم مستقبل کے بارے میں محض قیاس آرائیاں کرنے یا تیر تُکے لگانے کی بجائے ،غیر یقینی مستقبل کو لمحہ موجود کے یقینی اعداد و شمار کی روشنی میں جانچیں تاکہ غیر یقینی کیفیت کو حتی الامکان کم کیا جا سکے، جب ہم ایسی کیفیت میں پہنچ جائیں گے تو مستقبل کی بے چینی خود بخود کم ہوجائے گی۔مگر یہ آسان کام نہیں ۔

ڈیوڈ سپیگل ہالٹر ،کیمبرج یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں ، 2019 میں انہوں نے ایک کتاب لکھی، نام تھا The Art of Statistics ، اِس کتاب میں انہوں نے برطانیہ کے ایک جنونی قاتل کی مثال دی ہے جس نے ، 1998 میں اپنی گرفتاری سے پہلے، بطور ڈاکٹر بہت سے مریضوں کو قتل کیا۔پروفیسر ڈیوڈ نے تمام واقعات کی تحقیق کی تاکہ اس بات کا تعین کیا جا سکے کہ اِن اموات کا پہلے پتہ چل سکتا تھا یا نہیں۔اعداد و شمار اور ڈیٹا کی پڑتال کے بعد پروفیسر ڈیوڈاِس نتیجے پر پہنچےکہ اگر کوئی شخص اُس علاقے میں ہونے والی اموات کی وجوہات کا ڈیٹاکھنگال رہا ہوتا توجنونی ڈاکٹرکا بہت پہلے پتا چل جاتا اور کئی قیمتی جانیں بچائی جا سکتیں۔ممکن ہے کچھ لوگ کہیں کہ یہ مستقبل شناسی تو نہ ہوئی کیونکہ اُن کے نزدیک مستقبل کی پیش گوئیاں کرنے کا مطلب یہ بتانا ہے کہ شادی کب ہوگی، بچے کب ہوں گے،کاروبار کب شروع ہوگا، الیکشن کون جیتے گا، وغیرہ۔

مستقبل شناسی کا علم دراصل امکانات کی تھیوری کے گرد گھومتا ہے،اِس تھیوری کے مطابق کسی بھی واقعے کے رونما ہونے کا دارومدار ، بہت سے عوامل کے ساتھ ساتھ، اِس بات پر ہوتا ہے کہ وہ واقعہ کن ممکنہ طریقوں سے رونما ہوسکتا ہے۔چلیے انتخابات کی بات ہی کر لیتے ہیں۔پاکستان جیسے ملک میں یہ سوال ہمیشہ سے معمہ رہا ہے کہ انتخابات کب ہوں گےاور کون سی جماعت برسراقتدار آئے گی۔جب لوگ اِس سوال کا جواب دینے کی کوشش کرتے ہیں تو گویا وہ مستقبل کی پیش گوئی کررہے ہوتے ہیں مگر غلطی اُن سے یہ ہوتی ہے کہ وہ سوال کی بھول بھلیوں میں کھو جاتے ہیں ۔اِس سوال کے بارے میں سوچنے سے پہلے کہ کیا انتخابات مقررہ وقت پر ہوں گے ،ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ انتخابات کتنے ممکنہ طریقوں سے ملتوی ہوسکتے ہیں، کتنی جماعتیں ہیں جو انتخابات ملتوی کرنے کے حق میں ہیں، کون ساادارہ ہے جو انتخابات کروانے کا ذمہ دار ہے اور کن کن اداروں نے اُس کی معاونت کی یقین دہانی کروائی ہے ؟اگر اِن تمام سوالوں کا جواب تلاش کر لیا جائے تو اصل سوال کا جواب دینا آسان ہوجائے گا۔جی ہاں،آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ پاکستان ہے ،یہاں کچھ بھی ہوسکتا ہے،اِس ’کچھ بھی‘ کو ہم ایکس فیکٹر کہتے ہیں اور اسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ، خاص طورسے پاکستان جیسے ملک میں،مگر ایکس فیکٹر کو زیادہ سے زیادہ پانچ سے دس فیصد تک وزن دیاجاسکتا ہے ،سو فیصد نہیں ۔یہاں ایک اور بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ مستقبل شناسی کے لیےاعداد و شمار پر اندھا دھند انحصار کرنا دانشمندی نہیں، سیاق و سباق جاننا بھی ضروری ہے۔ پروفیسر ڈیوڈ نے اپنی کتاب میں ایک اور مثال بھی دی کہ 2014 اور 2017 کے درمیان برطانیہ میں جنسی جرائم کی تعداد تقریباً دگنی ہو گئی، تاہم جب جائزہ لیاگیا تو معلوم ہوا کہ اضافے کی اصل وجہ 2014 میں پولیس کے خلاف شائع ہونے والی رپورٹ تھی جس کے بعد پولیس نے جنسی جرائم کو زیادہ سنجیدگی سے ریکارڈ کرنا شروع کیا اور نتیجے میں اعداد و شمار دگنے ہوگئے،لہذا ہمیں کبھی بھی یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ ڈیٹا حقیقت کی مکمل طور پر درست نمائندگی کرتا ہے۔اسی کلیے کو اگر پاکستان پر منطبق کیا جائے تو ایک اور سوال کا جواب بھی مل جائے گاکہ انتخابات کون جیتے گا۔

مستقبل شناسوں کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ وہ اپنے خیالات پر جامد نہیں رہتےبلکہ ہر لحظہ اُن کی پڑتال کرتے رہتے ہیں ،دوسری طرف اگر آپ اپنے دماغ میں ایک ورلڈ ویو بنا لیں اور حقائق کو نظر انداز کرکے ہر صورت اسی ورلڈ ویو کا دفاع کرتے رہیں تو پھر مستقبل کے بارے میں درست اندازہ لگانا ممکن نہیں ہوگا۔جوتشی، نجومی اور دست شناس ہمیں اسی لیے متاثر کرتے ہیں کہ وہ کبھی مستقبل کے متعلق مایوس کُن خبر نہیں دیتے، وہ ہمیشہ اپنے کلائنٹ کی ضرورت اور خواہش کو مدنظر رکھ کر پیش گوئی کرتے ہیں، اگر پیش گوئی درست نکل آئے تو اُن کی واہ واہ ہوجاتی ہے اور اگر درست نہ نکلے تو کلائنٹ پھر دوڑا دوڑا انہی کے پاس آتا ہے اور وہ اسے خوش بختی کی نئی تاریخ دے کر مطمئن کردیتے ہیں۔مستقبل کی اِس غیر یقینی کیفیت نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا، نہ بطور فرد اور نہ بطور قوم، شاید اسی لیے خوشی ہم سے روٹھ گئی ہے!

تازہ ترین