• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وطن عزیز میں پی آئی اے اور پاکستان اسٹیل ملز کی نج کاری کے خلاف کچھ سیاسی جماعتوں کی طرف سے زبردست احتجاجی مظاہرے کئے جارہے ہیں کیونکہ موجودہ حکومت نے 19اگست 2013ء کو آئی ایم ایف کو تحریری طور پر یہ یقین دہانی کرادی تھی کہ (i) حالیہ دنوں میں مشترکہ مفادات کونسل سے ان دونوں اداروں سمیت متعدد کی نج کاری کرنے کی منظوری حاصل کرلی گئی ہے یعنی نج کاری کے موجودہ پروگرام کو چاروں صوبوں کی حمایت حاصل ہے اور (ii) پی آئی اے کی نج کاری کا عمل 30جون 2014ء تک مکمل کرلیا جائے گا۔ حکومت بہرحال خود بھی یہ بات سمجھتی ہے کہ یہ ادارے موجودہ مالی سال میں تو کیا اگلے مالی سال میں بھی نجی شعبے کو منتقل نہیں کئے جاسکیں گے۔ اس بات کے شواہد نظر آرہے ہیں کہ قوم کو ان اداروں کی نج کاری کی بحث میں الجھا کر حکومتی شعبے کے منفعت بخش اداروں کے حصص تیزی سے فروخت کرکے کئی سو ارب روپے حاصل کرلئے جائیں گے تاکہ ٹیکس کی چوری کے نقصانات کو ایک حد تک پورا کیا جاسکے جو کہ قومی المیہ ہوگا۔ واضح رہے کہ منفعت بخش اداروں کی نج کاری مسلم لیگ کے انتخابی منشور میں سرے سے شامل ہی نہیں تھی کیونکہ منشور میں وعدہ کیا گیا تھا کہ ہر قسم کی آمدنی پر ٹیکس عائد کیا جائے گا مگر طاقتور طبقوں کے دبائو کی وجہ سے 2013-14ء میں وفاق اور صوبہ پنجاب سمیت تمام صوبوں میں یہ ٹیکس نافذ ہی نہیں کیا گیا چنانچہ بجٹ خسارے کو کم کرنے کے لئے حکومتی شعبے کے منافع بخش اداروں بشمول ماضی میں نجی شعبے کو منتقل کئے گئے اداروں کے جو حصص ابھی تک حکومت کے پاس ہیں انہیں ہنگامی طور پر فروخت کرنے کی حکمت عملی وضع کی گئی جو کہ سونے کا انڈا دینے والی مرغی کو ذبح کرنے کے مترادف ہے کیونکہ ان حصص سے حکومت کو پہلے ہی معقول منافع مل رہا ہے۔ اگر اس فیصلے کو واپس نہیں لیا گیا تو قومی سلامتی و مفادات کو نقصان پہنچے گا۔ پاکستان میں سب سے پہلے ہم نے کہا تھا کہ حکومت پاکستان نے وزیرخزانہ اسحاق ڈار اور گورنر اسٹیٹ بینک کے دستخطوں سے آئی ایم ایف کو جو یہ یقین دہانی کرائی ہے کہ نج کاری پالیسی کے عمل کی مشترکہ مفادات کونسل سے حالیہ دنوں میں منظوری حاصل کرلی گئی ہے وہ حقائق پر مبنی نہیں کیونکہ موجودہ حکومت کے دور میں مشترکہ مفادات کونسل نے ایسی کوئی منظوری دی ہی نہیں چنانچہ حکومت اور نج کاری کمیشن کے اداروں کو فروخت کرنے کے فیصلے غیرآئینی ہیں۔
اس ضمن میں پیپلزپارٹی کی جانب سے پیش کی گئی تحریک استحقاق کے جواب میں مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر راجہ ظفر الحق نے 15جنوری 2014ء کو یقین دلایا تھا کہ وہ اس معاملے پر غور کے لئے 10دن کے اندر سینیٹ کا اجلاس بلائیں گے مگر یہ اجلاس تاخیر سے آئی ایم ایف سے مذاکرات مکمل ہونے کے بعد بلایا گیا۔ وزیراعلیٰ سندھ نے بجلی کی تقسیم کرنے والی کمپنیوں اور پی آئی اے جیسے اداروں کی نج کاری پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا جبکہ وزیراعظم نوازشریف نے نقصان میں چلنے والے حکومتی شعبے کے اداروں کی نج کاری کو مسئلہ کا واحد حل قرار دیا۔ یہ بات حیران کن ہے کیونکہ مسلم لیگ (ن) کے منشور میں واضح طور کہا گیا ہے کہ پی آئی اے کو خطے کا ممتاز اور منافع بخش ادارہ بنایا جائے گا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ دو برس سے کم عرصے میں پی آئی اے کو منفعت بخش بنانا ممکن ہے لیکن خطے کا ممتاز ادارہ بنانے کے لئے کئی برس کا عرصہ درکار ہوگا چنانچہ مسلم لیگ (ن) کے منشور کے مطابق موجودہ حکومت کے دور میں اس ادارے کی نج کاری کا سوچا بھی نہیں جانا چاہئے۔
نج کاری کے نام پر قومی اثاثوں کو غیرملکیوں کے ہاتھ فروخت کرنے سے پہلے دو خدشات بھی ذہن میں رکھنا چاہئیں اول، بیشتر ادارے منافع ملکی کرنسی میں کماتے ہیں جبکہ غیرملکی خریدار ان اداروں سے حاصل ہونے والے منافع کو سال بہ سال زرمبادلہ کی شکل میں باہر منتقل کرتے رہیں گے جس سے زرمبادلہ کے ذخائر پر دبائو پڑے گا اور دوم، جو اہم قومی ادارے ہم غیرملکیوں کو فروخت کرچکے ہیں یا اب فروخت کرنے کی تگ و دو کررہے ہیں وہ ادارے (علاوہ بینکوں کے) آنے والے برسوں میں ایک مربوط حکمت عملی یا سازش کے تحت ہمارے دشمن ملکوں کے سرمایہ کار ان غیر ملکیوں سے خرید سکتے ہیں جو کہ نو آبادیاتی نظام کی ایک نئی شکل میں واپسی کے مترادف ہوگا۔ پی آئی اے اور پاکستان اسٹیل ملز جیسے اہم اداروں کی نج کاری کے معاملے پر حکومت کو سخت مزاحمت کا سامنا ہے چنانچہ فی الوقت حکومت ان اداروں کی نجکاری کے فیصلے سے پیچھے ہٹتی نظر آرہی ہے۔ اگر نج کاری کا عمل سست پڑتا ہے تو بجٹ خسارہ بڑھ کر ناقابل برداشت ہوجائے گا۔ چنانچہ مسئلے کا واحد حل یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے منشور کے مطابق ہر قسم کی آمدنی پر ٹیکس موثر طور پر نافذ اور وصول کیا جائے اور کالے دھن کو سفید کرنے اور لوٹی ہوئی دولت کو قانونی تحفظ دینے کے عمل کو روکا جائے جن کے لئے پارلیمینٹ اور چاروں صوبے آمادہ نظر نہیں آرہے۔ ہمیں خدشہ یہ ہے کہ ان اصلاحی اقدامات سے بچنے کے لئے اہم سیاسی پارٹیاں آگے چل کر ان اداروں کی نج کاری پر اسی طرح تیار ہوجائیں گی جس طرح زرعی و جائیداد کے شعبوں اور حصص کے کاروبار پر ٹیکس موثر طور پر عائد اور وصول نہ کرنے، اونچی شرح سے جنرل سیلز ٹیکس وصول کرنے اور بجلی، پیٹرولیم کی مصنوعات اور گیس کے نرخ بڑھاتے چلے جانے پر عملاً متفق ہیں۔ اگر ایسا ہوا تو یہ ایک قومی المیہ ہوگا۔
پاکستان میں نج کاری کا عمل بحیثیت مجموعی متنازع، غیرشفاف، کرپشن و اقربا پروری کا ذریعہ اور خسارے کا سودا رہا ہے ۔ ہماری تجویز ہے کہ مختلف شعبوں کے ماہرین پر مشتمل ایک کمیشن قائم کیا جائے جو گزشتہ 24برسوں میں نجی شعبے کو منتقل کئے گئے صرف اہم اداروں کی نج کاری کے عمل اور اس کے بعد ان اداروں کی کارکردگی کی تفصیلی رپورٹ تین ماہ کے اندر پیش کرے۔ اس رپورٹ کی روشنی میں نج کاری کی نئی پالیسی کابینہ اور مشترکہ مفادات کونسل کی مشاورت سے مرتب کی جائے۔ اس بات کی بھی تحقیقات ہونا چاہئے کہ آئی ایم ایف کو تحریری طور پر یہ غلط یقین دہانی کیوں کرائی گئی کہ پی آئی اے وغیرہ کی نجکاری کے ضمن میں حالیہ مدت میں مشترکہ مفادات کونسل کی منظوری حاصل کرلی گئی ہے اور اس کے بعد سب کچھ جانتے بوجھتے ہوئے کابینہ اور نج کاری کمیشن نے غیر آئینی فیصلے کیوں کئے۔ ان معاملات کا تعلق معیشت اور سلامتی سے ہے اور اس کے تانے بانے 26ستمبر 2008 کو فرینڈز آف پاکستان کی تشکیل جسے ہم نے جال قرار دیا تھا (جنگ 30ستمبر 2008)میں آئی ایم ایف سے قرضہ لینے سے جا ملتے ہیں۔ ہم نے یہ بھی تنبیہ کی تھی کہ اگر موجودہ حکومت نے آئی ایم ایف سے نیا قرضہ لیا تو یہ 26ستمبر 2008 کے سودے اور سازش کے اگلے مرحلے کے امریکی مقاصد میں معاونت کے مترادف ہوگا (جنگ 6جون 2013) اللہ حکمرانوں اور ممبران پارلیمینٹ کو بصیرت دے۔
تازہ ترین