• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

احمد سعید کے بارے میں آج یہ جملے قلم بند کرنے بیٹھا تو یاد آیا کہ وہ آج سے ٹھیک دو برس پہلے ہم سے جدا ہوگئے۔ یہی مہینہ تھا تاریخ بھی شاید یہی تھی۔ جاڑے کی شدت بھی ایسی ہی تھی۔ کون احمد سعید؟ یہ سوال شاید بہت سے پڑھنے والوں کے ذہن میں ہوگا۔ کچھ تو شاید احمد سعید سے مانوس ہوں گے اور کچھ کیلئے وہ قطعی غیر مانوس۔ یہی تو وہ دکھ ہے جس کا کوئی مداوا نہیں۔ ایک ایسا شخص جس نے ساری زندگی قلم کی مزدوری کی اور ایک درویشانہ لگن کے ساتھ اپنے شب و روز تاریخ کے گم شدہ ابواب کی کھوج میں صرف کئے۔ درجنوں کتابیں تحریر کیں۔ تحریک پاکستان ان کا خاص عشق تھا اور شاید اس سے بھی بڑا عشق تھا لاہور۔ اس عشق کا عملی نمونہ وہ کتاب ہے جو ان کی وفات کے بعد شائع ہوئی۔ کتاب کیا ہے ایک عاشق کا اپنے محبوب کے نام خط ہے۔

لاہور کے نام ایک عشقیہ خط۔ جس میں لکھنے والے نے محبوب کے تمام اوصاف بیان کئے ہیں۔ کون سا پہلو ہے جس پر احمد سعید نے تاریخی مواد کی روشنی میں لاہور کی سیاسی، تہذیبی، سماجی اور مذہبی رنگا رنگی پر تبصرہ نہ کیا ہو، اور یہ مواد کہاں سے جمع کیا گیا؟ کم و بیش دس برس تک احمد سعید سخت گرمی اور سردی کی پرواکئے بغیر لاہور کی مختلف لائبریریوں میں پرانے اخبارت کی فائلز کھنگالتے رہے۔ انقلاب، زمیندار، پیسہ اخبار، وہ اخبارات جنہوں نے بیسیویں صدی کے اوائل میں پنجاب اور برصغیر کی سیاست کا رخ متعین کیا۔ کم و بیش پچاس سال کے فائلز احمد سعید نے کنسلٹ کئے۔

ہر ایک اہم خبر یا اشتہار جس سے لاہور کی تاریخ کے کسی پہلو پر روشنی پڑتی تھی اس کے نوٹس بنائے۔ وہ یہ اخبارات پڑھتے گئے اور نوٹس بناتے گئے۔ یہاں تک کہ کم و بیش 1000 صفحات کی کتاب کا مسودہ تیار ہوگیا۔ آخری عمر میں وہ اس کتاب کی اشاعت کے حوالے سے فکر مند تھے، چاہتے تھے کہ طباعت کا معیار مواد سے انصاف کرسکے۔ سینے سے لگا کر رکھتے تھے مسودہ کو ،کیونکہ یہ ان کی نظر میں ان کا بہترین کام تھا اور یقیناً ایسا تھا بھی۔کون سا ایسا پہلو ہے بیسیویں صدی کے لاہور کا جس کا احمد سعید نے کتاب میں تذکرہ نہیں کیا۔ اگر آپ یہ جاننے میں دلچسپی رکھتے ہیں ۔ باقی باتیں چھوڑیں وہ کالم میں ہضم نہیں ہوسکتیں ، صرف کھانے پینے کی باتیں سن لیں۔

لاہور کے لوگ کون سے مشروبات پیتے تھے۔ سعید لکھتے ہیں کہ کیسرہ بازار میں گوبندرام کاہن چند کی دکان مفرح اور لذیز ’’شربت بنانے‘‘ میں اپنا جواب نہیں رکھتی تھی۔ وہ ’’خالص سودیشی کھانڈ‘‘ سے شربت فالسہ، صندل، کیوڑہ وغیرہ تیار کرتے تھے۔

لاہوری جوتا کہاں سے خریدتے تھے؟ انار کلی میں بھلے کی دکان مشہور تھی۔ وہی بھلہ جس کے نام سے ملتان روڈ پر بھلہ اسٹاپ بھی ہے۔ وجہ تسمیہ اس کی یہ ہے کہ وہاں بھلے کی عظیم الشان کوٹھی تھی۔ جہاں ایک بار ٹیگور نے بھی قیام کیا تھا۔ بہرحال بات ہو رہی تھی جوتوں کی۔ ایک دفعہ ظفر علی خان بھلے کی دکان پر گئے تو بھلے نے فرمائش کی کہ ایک شعر اس کی دکان کے حوالے سے بھی موزوں کریں۔ جس پر ظفر علی خان نے فی ا لبدیہہ یہ شعر کہا ؎

وچ بازار انارکلی دے اُچی ہٹی بھلے دی

باہمن ہو کے جُتیاں ویچے مت ماری گئی جھلے دی

اب شاعری کی بات چل نکلی ہے تو یہ بھی سن لیں کہ لاہور میں فارسی مشاعرے ہوا کرتے تھے۔ یہاں تک کہ کالج کے طلبا بھی روانی سے فارسی میں اشعار کہا کرتے تھے۔ احمد سعید نے اسلامیہ کالج لاہور کے کسی طاہر نامی طالب علم کی دو فارسی نظمیں بھی نمونے کے طور پر پیش کی ہیں۔؎

ساغر وحدت بنوش و در جہاں مستانہ باش

منکرِ رحمت مشو، زاہد بیا رندانہ باش

میری فارسی کی حد بھی یہاں ختم ہو جاتی ہے اور میری علالت بھی مزید کچھ لکھنے کی اجازت نہیں دیتی حالانکہ کہنے کو اور بہت کچھ ہے۔ کتاب کے بارے میں بھی اور صاحبِ کتاب کے بارے میں بھی جو برسوں میرے ساتھ ایم اے او کالج میں پڑھاتے رہے، وہ پھر کسی دن۔

بہرحال پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ تاریخ کا شکریہ جنہوں نے احمد سعید کے انتقال کے بعد یہ کتاب دو جلدوں میں شائع کی اور یوں لاہور کی تاریخ کا ایک قیمتی ذخیرہ محفوظ ہوگیا۔

تازہ ترین