• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاک سیاست کے کئی رنگ ہیں۔ کیا اسے سیاسی کہکشاں کہیں یا گرگٹ کے رنگ؟ وہ دایاں بازو اور بایاں بازو کے سیاسی رنگ غائب، سیاست کا مُلا اور مسٹر بھی ہائبرڈ ہو چکا !

مولوی پھیکے ہوچکے سوائے مولانا فضل الرحمٰن کے،جماعت اسلامی اسلامی جمعیت طلبہ کے رنگ کے بغیر بے رنگ ہو چکی کہ پریشر گروپ بھی نہیں رہی۔ مولانانورانی اور مولانا عبدالستار نیازی کے بعد جمعیت علمائے پاکستان کا وجود تقریباً ختم۔جمعیت علمائے اسلام کا مولانا سمیع الحق کا دھڑا بھی زیرو ہو چکا۔ نئی پود مولانا غلام غوث ہزاروی کے سنگ درخواستی و غیر درخواستی نقطہ نظر سے بھی ناآشنا ۔ چاہنے والوں کے ہاں بھی محمود حسن دیوبندی یا حسین احمد مدنی کی چاہت نہیں ملتی؟ عمر بھر مطالعہ پاکستان سے پڑھ کر بھی کیوں شاہ ولی اللہ، عبیداللہ سندھی اور شبیر احمد عثمانی دل میں گھر نہ کر سکے؟ پھر عطاء اللہ شاہ بخاری کے خدمات اور سحر بیانی کی اہمیت بھی کیوں غیب ہے؟ جمعیت اہلحدیث اینڈ کمپنی کے سیاسی کاموں سے میں ہی آشنا نہیں تو اور کون ہوگا؟ اب کہیں مولانا محمد گوندلوی کا نام ہے نہ مولانا اسماعیل سلفی و مولانا محمد عبداللہ کا۔ چار دن علامہ احسان الٰہی ظہیر کی تقاریر کی بازگشت اور ضیائی مخالفت کا چرچا رہا کہ وہ آمریت مخالف تھے، شہادت سے قبل اور بم کا نشانہ بننے سے ذرا پہلے وہ ضیاء سے سوال کر رہے تھے کہ سیاچین کا بڑا حصہ آپ کے دور میں انڈیا نے ہڑپ کیا، اس پر ضیائی موقف تھا کہ وہاں تو گھاس بھی نہیں اُگتی، پس علامہ کا کہنا تھا’’ گھاس تو تمہارے سر پر بھی نہیں اُگتی‘‘۔

خیر، ایسا نہیں کہ وہ کتابیں یا دل نہیں رہے کہ جن میں متذکرہ آباد نہیں۔ آباد تو ہیں لیکن شہر خموشاں طرز پر حالانکہ یہ سب عمائد اور کرم فرما زندہ حقیقتیں ہیں۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ سب سیاسی و نظریاتی حقائق ہیں تو کیا کسی سیاسی و نظریاتی ارتقاء نے جنم لیا ہے؟ سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ دایاں بازو اور بایاں بازو نظریات بھی کسی ارتقاء کے نذر ہوگئے؟ سیاست میں ان سب کے علاوہ آمروں کے حوالے سے بھی دیکھیں تو جنرل ایوب خان اور جنرل ضیاء الحق بھی مختلف نظریاتی کردار تھے، جنرل مشرف کا تیسرا نقظہ نظر تھا۔ وقت نے تینوں کی انفرادیت اورسیاست کو غلط قرار دیا حتیٰ کہ عدالتوں کے فیصلے بھی بشمول جنرل یحییٰ خان، سبھی کے خلاف گئے۔یہ تو تھے مذہبی اور آمرانہ تصورات اور سیاست۔ اس میں جو سیاسی مذہبی جماعتیں تھیں ان میں سوائے مولانا فضل الرحمٰن کی پارٹی کے اور کسی کے نتیجہ خیز اثرات نہیں ملتے جبکہ آمرانہ اقدامات اور تصورات پر زیادہ بحث و تمحیص ہے ہی نہیں۔

اگر پیپلزپارٹی ، مسلم لیگ نواز ، تحریک انصاف،ایم کیو ایم، عوامی نیشنل پارٹی یا بلوچستان کی سیاسی پارٹیوں کو ڈسکس کریں تو ابھرتی پارٹی تحریکِ انصاف ہے جس نے پچھلے ایک عشرے میں پچھلی ڈیڑھ دہائی کی مسلسل ناکامی کے بعد سر نکالا ۔ کم و بیش چار دہائیوں سے مسلم لیگ نواز و ہم پلہ مسلم لیگیں چلی آرہی ہیں جس میں مسلم لیگ نواز اور مسلم لیگ قائد اعظم نے بقا پائی تاہم مسلم لیگ نواز کامیاب و کامران مسلم لیگ ہے اور سیاسی پارٹی بھی۔ پیپلزپارٹی پنجاب اور کے پی کے میں مسلسل زوال کا شکار ہے اور ذوالفقار علی بھٹو و بےنظیر بھٹو کی شہادتوں کے بعد آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری ان دونوں صوبوں میں پیپلزپارٹی کو واپس کامیاب اور مقبول پوزیشن میں لانے میں ناکام ہیں تاہم یہ درست ہے کہ میثاق جمہوریت کے بعد سے یا بی بی کی شہادت کے بعد سے تا حال سندھ میں پیپلزپارٹی کا کوئی بھی جم کر مقابلہ نہیں کر سکا۔

درج بالا سب حقائق کو بدلتے حالات اور سیاسی معاملات کے تناظر میں لیں تو جب اسٹیبلشمنٹ نے 2010 کے بعد تحریک انصاف پر دست شفقت رکھا تو 1۔ نواز شریف مخالف لوگ اس کی طرف بڑھے۔ 2۔ جماعت اسلامی اور تنظیم اساتذہ پاکستان کی کثیر تعداد تحریک انصاف کی طرف مائل ہوئی حالانکہ اس کا سابق نظریہ کہیں بھی عمرانی فکر سے میل نہیں کھا رہا تھا۔ 3۔ عمران خان پختون نہیں لیکن تمام صوبوں کے پٹھانوں کی کثرت نے عمرانی سیاست کو پسندیدگی بخشی۔ 4۔ نوجوانوں نے ٹی وی پر آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف کی بےتحاشا کردار کشی اور عمرانی بیانوں میں دیگر کو کرپٹ کی تکرار دیکھ کر نوجوان قریب آئے یہ سوچے بغیر کہ پوسٹ ٹرُتھ اور گیس لائٹنگ کو بکثرت استعمال میں لایا جا رہا ہے، پھر یونیورسٹیوں اور کالجوں میں نوجوانوں کی کوئی سیاسی و تاریخی فہم و فراست نہ بڑھائی گئی پس اسٹیبلشمنٹ کا پروپیگنڈہ عمران خان کیلئے راستے ہموار کرتا چلا گیا اور یہی راستے پیپلزپارٹی جیسی وفا کی علامت پارٹی کیلئے دشوار گزار ہوتے چلئے گئے تاہم مسلم لیگ نواز کا تعلق کھٹا میٹھا رہا جیسے 1988 ، 1990, 1997 کے انتخابات میں بہت میٹھا، 2002 اور 2008 میں کھٹا، 2013 میں بہت شیریں پھر 2018 میں کھٹا و کڑوا جبکہ آج پھر الیکشن 2024 میں شہد بھرا ہے۔ پیپلزپارٹی دہائیوں سے مار کھاتی چلی آرہی اور داد دینی پڑے گی آصف زرداری کو اس نے ناانصافیوں کے باوجود پارٹی کو زندہ رکھا۔

سندھ کی سیاسی و انتخابی چابیاں مزاحمت اور مفاہمت کی بدولت الیکشن 2024 میں بھی پیپلزپارٹی کے پاس ہی ہیں تاہم پنجاب میں چابیاں اسٹیبلشمنٹ کے سابق کھلواڑ اور زرداری و بلاول کے کوئی نیا بیانیہ نہ دینے کی پاداش میں تحریکِ انصاف سے واپس مسلم لیگ نواز کی طرف آتی دکھائی دے رہی ہیں۔ مذہبی جماعتیں کسی ایک آدھ حلقہ میں پریشر گروپ تو ہو سکتی ہیں مگر پُراثر پارٹی نہیں۔ یہی ایک آدھا ادھورا ارتقاء ہے۔ بلوچستان کے رنگ باقی صوبوں سے مختلف ہیں ۔

ہاں، مذہبی جماعتوں کو اپنے سیاسی رنگ کی بقا کا سوچنا ہوگا، بندے مرتے رہتے ہیں مگر نظریات نہیں مرتے! بہرحال خان کو مفاہمت سیکھنی ہوگی، پیپلزپارٹی کو وفاقی بیانیہ بنانا ہوگا ، فی الحال مسلم لیگ نواز کے رنگ’’ لگے رہو منا بھائی ‘‘ والے ہیں۔ کہکشاں کے رنگ لانے کیلئے پارٹیوں کو انسٹیٹیوٹ بننا ہوگا ورنہ رنگ رہیں گے گرگٹ کے اور چابیوں کا گچھا مقتدرہ کا کہ جس طرف چاہیں اچھال دیں!

تازہ ترین