• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کل تک مُلک کا سب سے بڑا مسئلہ معیشت بتایا جا رہا تھا، جو آج بھی اُسی طرح موجود ہے، خواہ کوئی کتنی ہی آنکھیں کیوں نہ چُرائے۔آج مُلک کو آزادی حاصل ہے اور آبادی بھی نوجوانوں پر مشتمل ہے، لیکن پھر بھی ترقّی کوسوں دُور ہے۔ منہگائی، بجلی، گیس کی بڑھتی قیمتیں، روزگار کے گھٹتے مواقع، افراطِ زر کے چڑھتے اعداد وشمار، قرضوں کا ناقابلِ برداشت بوجھ، روپے کی بے قدری، برآمدات کا گھٹنا، غربت کی لکیر سے نیچے جاتے لاکھوں افراد کی کہانیاں سب کے سامنے ہیں۔

میڈیا، خاص طور پر سوشل میڈیا اور عام افراد کی گفتگو کا یہی موضوع ہے۔ لگتا ہے، ہم دہائیوں سے ایک ہی مقام پر کھڑے ہیں۔معیشت نہ صرف شدید دبائو میں ہے، بلکہ اس کی بحالی کا کوئی آسان شارٹ کٹ بھی موجود نہیں۔ کچھ عرصہ قبل میڈیا، ماہرین، اہلِ دانش، سیاست دانوں اور نوجوانوں کی پسندیدہ مثال سری لنکاکا دیوالیہ ہونا تھا۔بتایا جاتا تھا کہ پاکستان بھی اِسی صُورتِ حال تک پہنچ چُکا ہے۔آئی ایم ایف قرضہ دینے کو تیار نہیں، وزیرِ اعظم اور وزیرِ خزانہ اس کی منّتیں کرنے پر مجبور ہیں۔ اِس پر حُکم رانوں کا مذاق اُڑایا جاتا، اُن کی نااہلی کی داستانیں سُنائی جاتیں، ایف اے ٹی ایف کی تلوار بھی سر پر لٹک رہی تھی۔

گویا مُلکی منظرنامہ سیاہ بادلوں میں چُھپ گیا تھا یا چُھپا دیا گیا تھا۔ ہر طرف مایوسی تھی، ایک شور تھا کہ مُلک ڈوب گیا یا ڈوبنے والا ہے۔حکومت کو جو کچھ سُننا پڑ رہا تھا، اس کے لیے گالی تو بہت معمولی سا لفظ ہے۔اوپر سے سیاسی عدم استحکام کا حال یہ تھا کہ اسمبلیاں توڑی جارہی تھیں۔ مُلک کے62فی صد آبادی کے حامل، سب سے خوش حال صوبے میں ڈیڑھ سال تک کوئی حکومت ہی نہیں تھی اور اس سے پہلے جو ساڑھے تین سال حکومت رہی، اس کا ذکر خود وہ پارٹی کرنے سے شرماتی ہے، جو اُن دنوں پنجاب کی حُکم ران تھی۔عدم اعتماد کی آئینی تحریک سے حکومت تبدیل ہوئی، تو اسے سازش قرار دے دیا گیا۔ 

وزیرِ اعظم پر اعتماد کے اظہار کے لیے رات کی سیاہی میں چُھپ کے فون کالز کروانا عین آئینی تھا، لیکن کُھلی عدم اعتماد کی تحریک سازش اور گناہ قرار پائی۔لانگ مارچ ہو رہے تھے، تو دوسری طرف، اعلیٰ عدلیہ کے انتہائی متنازع فیصلے تھے، جو ہم خیال بینچز سے آتے رہے۔9مئی کو تو ہر حد ہی پار کر لی گئی۔قومی سلامتی کو دائو پر لگا دیا گیا۔

پی ٹی آئی کے کارکنان ان دو دنوں میں دشمنوں کی طرح ہر شئے پر چڑھ دوڑے، قومی تنصیبات جلا دی گئیں یا تباہ کردی گئیں۔ کس کا غصّہ تھا اور کس پر نکالا گیا۔میر جعفر اور میر صادق چلتے پِھرتے کردار بن گئے، روز ان کے قصّے اِس طرح سُنائے جاتے، جیسے عوام، ایسٹ انڈیا کمپنی سے جنگ کرنے جا رہے ہیں۔ پھر یہ بتایا گیا یہ نوجوانوں کا غصّہ ہے، نکل جانے دو۔ کوئی بات نہیں، اگر مُلکی خارجہ پالیسی کو شدید جھٹکا لگا اور پاکستان کی ساکھ تباہ ہوئی۔

الیکشن کا مطالبہ ڈیڑھ سال سے دہرایا جا رہا ہے، حالاں کہ اگر پی ٹی آئی چاہتی، تو عدم اعتماد کی تحریک آنے سے قبل ہی مِڈٹرم الیکشن ہوسکتے تھے، اُس وقت کہا گیا کہ نہیں، پانچ سال پورے نہ کروانا، ناقابلِ معافی جرم ہوگا۔اگست میں پی ڈی ایم حکومت جانے کے بعد الیکشن کا سلسلہ شروع ہوا۔پھر شور اُٹھا، الیکشن نہیں ہوگا۔ الیکشن کمیشن کو وہ وہ سنائی گئیں کہ اُسی کا حوصلہ ہے، جو ڈٹا رہا۔آخر الیکشن کا پراسس شروع ہوا۔ 

نئے چیف جسٹس، قاضی فائز عیسیٰ نے اس پر مُہر ثبت کردی کہ انتخابات تو لازمی ہوں گے۔پھر شور مچ گیا کہ اُمیدواروں کو کاغذاتِ نام زدگی جمع نہیں کروانے دئیے جا رہے یا کاغذات بلاوجہ مسترد ہو رہے ہیں۔ ایک پارٹی کے انتخابی نشان کو قوم کا سب بڑا مسئلہ بتایا گیا، حالاں کہ ماضی میں مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کے نئے نشانات پر انتخابات لڑنے کی مثالیں موجود ہیں۔ بہرحال، اِن تمام مسائل کے باوجود اب عام انتخابات کے انعقاد میں چند ہفتوں کا وقت ہے۔ہر پارٹی کسی نہ کسی حیثیت میں میدان میں موجود ہے اور اپنی بات بھی کہہ رہی ہے۔

جو غصّے میں ہیں، وہ اس کا کُھلے عام جلسوں یا میڈیا پر اظہار کر رہے ہیں۔یہ کہا جاسکتا ہے کہ مُلک میں جمہوریت کی آئیڈیل قسم تو نہیں، اس میں اب بھی بہت سی خامیاں ہیں اور بہت کچھ کرنا باقی ہے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ مُلک دیوالیہ ہے اور نہ ہی ڈوب رہا ہے۔ یہاں آزادی ہے اور لوگ ووٹ بھی ڈالیں گے۔ جمہوری عمل چلے گا، چاہے سُست ہی کیوں نہ ہو۔پاکستان کے عوام اپنی تمام کم زوریوں کے باوجود اس منزل پر ڈٹے ہوئے ہیں۔یہ اُن کی بڑی کام یابی ہے اور مایوسی کے ماحول میں اُمید کا خوش گوار جھونکا بھی۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ وہ بڑے بڑے تجزیہ کار، جو پہلے یہ بھاشن دیتے تھے کہ جمہوریت کے قیام اور تمام مُلکی مسائل کا حل صرف انتخابات ہیں، اب اپنے ’’دانش ورانہ تجزیات‘‘ میں یہ ثابت کرنے میں لگے ہیں کہ الیکشن کے بعد کیا ہوگا۔وہ طرح طرح کے خدشات کا اظہار کر کے قوم کو خوف زَدہ کر رہے ہیں یا پھر مایوس۔ اب اُن کا اصرار ہے کہ انتخابات کا کوئی فائدہ نہیں، کیوں کہ الیکشن مسائل کا حل نہیں۔ ماضی کے قصّے کہانیوں کی بنیاد پر یہ بتایا جا رہا ہے کہ انتخابات ایک فضول عمل ہے۔

تاہم، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا قوم پر احسان ہے کہ اُنھوں نے نازک حالات میں اعلیٰ عدلیہ میں مقدمات کی سماعتیں لائیو دِکھا کر اس مایوسی کی دھند کو صاف کیا اور عوام کو اُن ماہرینِ قانون کی حقیقت بھی دِکھا دی، جو عدالت کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کے ماہر ہیں۔ اب کہا جا رہا ہے کہ صاف وشفّاف انتخابات ہونے چاہئیں، بالکل ہونے چاہئیں، کون یہ چاہے گا کہ اُس کا ووٹ ضائع ہوجائے، لیکن یہ تو تب ہی ممکن ہے، جب قوم انتخابات کے عمل سے گزرے۔

ماضی ہمارے سامنے ہے اور انتخابات میں ہیر پھیر کے نتائج بھی سب کو معلوم ہیں۔اگر ماضی کو دُہرایا گیا، تو اس کے کیا نتائج ہوں گے، یہ جاننے کے لیے کسی ارسطو کی ضرورت نہیں۔بلاشبہ ماضی میں پولیٹیکل انجینئرنگ ہوتی رہی، آر ٹی ایس بھی بیٹھے، ہارس ٹریڈنگ کا رواج رہا، سیاسی جماعتیں توڑی گئیں اور رہنماؤں کو جیل بھیج کر اپنے پسندیدہ افراد کو حُکم رانی دی گئی۔ نظریۂ ضرورت، کلٹ کی سیاست، عدلیہ کی فعالیت، متنازع فیصلوں سے منتخب حکومتوں کی اُکھاڑ پچھاڑ، رہنماؤں کی جلا وطنی، اِس طرح کے معاملات سب کے حافظے میں محفوظ ہیں، لیکن اس سب کچھ کے باوجود، حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ جیسی بھی ہو، جمہوریت بہرحال چل تو رہی ہے۔لوگ اب بھی کسی انقلاب کی بجائے بیلٹ باکس پر یقین رکھتے ہیں۔گزشتہ پندرہ برسوں کے دو انقلابات ہی پر غور کرلیں، تو بہت سے معاملات واضح ہوجائیں گے۔

ایک تو’’ عرب اسپرنگ‘‘ ہے، جس سے متعلق کہا جاتا تھا کہ یہ مشرقِ وسطیٰ، خاص طور پر مصر کو بدل دے گی، بادشاہتوں کا خاتمہ ہوگا، غصّے میں بَھرے نوجوانوں کا راج ہوگا، جو سوشل میڈیا کے ذریعے تحریر اسکوائر پر لائے گئے تھے۔ ہُوا بھی یہی، بڑے بڑے طاقت ور آمر، جو بیس بیس، تیس تیس سالوں سے تخت نشین تھے، دِنوں میں زمیں بوس ہوگئے۔تختوں پر تختے اُلٹ گئے۔اُس زمانے میں ہمارے مُلک میں میڈیا، تجزیہ کاروں اور سیاست دانوں کا یہ پسندیدہ موضوع تھا۔ اسے انقلابِ فرانس سے بڑے انقلاب کی سند دی گئی۔مگر پھر کیا ہوا؟ اس انقلاب نے ہر طرف تباہی مچا دی۔ صرف شام میں عرب اسپرنگ نے پانچ لاکھ افراد کی جان لی اور کروڑوں کو بے گھر کیا۔ 

لیبیا، مصر، شام، لبنان، یمن، مراکش، تیونس اور کئی دوسرے ممالک آج تک سنبھل نہیں پائے۔ویسی ہی باشاہتیں اور آمریتیں قائم ہوگئیں۔البتہ اِس تبدیلی کا ایک مثبت پہلو یہ ہے کہ عوام کو یہ بات اچھی طرح ازبر ہوگئی کہ معاشی استحکام کا کوئی نعم البدل نہیں۔عوام کی خوش حالی سب پر مقدّم ہے اور یہی دنیا میں عزّت و وقار کی ضمانت ہے۔مشرقِ وسطیٰ کی آبادی بھی ہماری طرح نوجوانوں پر مشتمل ہے اور عرب اسپرنگ کے وقت یہ نوجوان بھی غصّے میں بَھرے ہوئے تھے۔پھر سری لنکا کو دیکھیں، جہاں عوام نے بڑے پیمانے پر احتجاج کیا اور توڑ پھوڑ کے بعد حُکم رانوں کو اُٹھا کر باہر پھینک دیا۔

جب سب کچھ لُٹا کر ہوش میں آئے، تو خود کو آئی ایم ایف سے قرضوں کی بھیک مانگنے پر مجبور پایا، لیکن وہاں کے عوام کو جلد ہی عقل آگئی۔آج وہ بحالی کے راستے پر ہیں۔ اور یاد رہے، وہاں کی آبادی کا بھی بڑا حصّہ نوجوانوں ہی پر مشتمل ہے۔گزشتہ سالوں کے احمقانہ اور ظالمانہ تجربوں کے باوجود ہمارے مُلک میں ایک حوصلہ افزا بات یہ ہوئی کہ عوام میں پہلی بار معیشت اور ترقّی کی اہمیت کا احساس پیدا ہوا۔چاہے کرپشن کا بیانیہ ہو، سیاسی عدم استحکام ہو یا اداروں سے ناراضی، عوام کو اِس بات کا ادراک ضرور ہوا کہ ہم دنیا میں کہاں کھڑے ہیں۔ پہلے سیاسی جماعتوں، حُکم رانوں یا اداروں پر الزامات لگا کر جان چُھڑا لی جاتی تھی کہ عوام تو دودھ کے دُھلے ہیں۔لیکن جب قرضوں کی بھیک کے لیے حُکم ران دَر دَر کی ٹھوکریں کھاتے نظر آئے، تو سب کی آنکھیں کُھلیں کہ یہ تو کسی ایک کی نہیں، بلکہ پوری قوم کی مجموعی ناکامی ہے۔ یوں سحر انگیز شخصیتوں کے سحر ٹوٹنے لگے۔پتا چلا کہ اصل مسیحا تو اپنی محنت ہے۔

عام انتخابات سر پر ہیں، سیاسی جماعتیں اپنے اپنے منشوروں کے ساتھ میدان میں ہیں، لیکن اِس بات کا بھی دھڑکا ہے کہ کہیں معیشت اور ترقّی کی منزل پِھر سے آنکھوں سے اوجھل نہ ہوجائے۔ کسی شارٹ کٹ کی باتیں کی جا رہی ہیں۔لایعنی معاملات سامنے لاکر قوم کو پھر ایک مرتبہ پھر گم راہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ معاشی ترقّی کا ہدف اِتنا اہم نہیں، جتنے انفرادی یا جماعتوں کے معاملات ہیں۔ آزادی اور جمہوریت صرف اور صرف عوام کی طاقت سے حاصل ہوتی ہے، ایسی طاقت، جس میں اُنھیں خوش حالی حاصل ہو اور جو حکومت عوام کو یہ نہ دے سکے، وہ کیسی حکومت ہو گی، شاید یہ بتانے کی ضرورت نہیں۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ سیاست میں اداروں کی دخل اندازی نے بھی بہت گُل کِھلائے۔سب سے بڑا نقصان تو یہ ہوا کہ عوام کی توجّہ قومی ترقّی سے ہٹ کر شخصیات پر مرکوز ہوگئی۔دنیا بَھر میں ہونے والے گزشتہ ایک سال کے انتخابات پر نظر ڈالیں، تو اُن ممالک کے عوام نے اپنے مسائل کے حل کے لیے ووٹ دیئے۔تُرکیہ کی معیشت گزشتہ کئی سالوں سے دگرگوں ہے، اِس پس منظر میں صدر اردوان کی پوری الیکشن مہم صرف اور صرف ترقّیاتی منشور کے گرد گھومتی رہی۔ اُنھوں نے بتایا کہ وہ پہلے کیسے تُرکیہ کو ترقّی یافتہ بنا چُکے ہیں اور یہ کہ وہ اسے مزید ترقّی یافتہ بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔لوگوں کو اُن کی کارکردگی پر اعتماد تھا، اِسی لیے وہ جیتے۔ 2024ء دنیا میں انتخابات کا سال ہے۔

امریکا، بھارت، روس، جنوبی افریقا اور دیگر ممالک کی جماعتیں معیشت ہی کے استحکام کی بات کر رہی ہیں۔گزشتہ برسوں میں پاکستان کے چاروں اطراف ترقّی کی لہر چھائی رہی، لیکن ہم اپنے ہی مسائل میں اُلجھے رہے اور پھر اِس امر پر بھی افسوس کرتے رہے کہ دنیا میں سب سے پیچھے رہ گئے۔اِس وقت ضرورت اِس امر کی ہے کہ عوام اپنی منزل کا تعیّن کریں۔یہ نہیں ہوسکتا کہ صرف رونے پیٹنے یا تنقید کرتے رہنے سے مسائل حل ہوجائیں۔منزل کا پتا نہ ہو اور بس خلا میں ہاتھ پیر مارتے رہیں، تو اس دلدل سے کبھی بھی نہیں نکل پائیں گے۔ 

عام انتخابات میں جہاں معیشت کی بحالی سب سے اہم ایشو ہے، وہیں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ آیا سیاسی جماعتوں کے پاس ایسی ٹیم بھی موجود ہے، جو اُن کے منشور کے مطابق حکومت چلا سکے؟اِسی طرح، ہر اُس شخص کو،جو گزشتہ سالوں میں منہگائی، بے روزگاری، افراطِ زر، بڑھتے قرضوں اور سہولتوں کے فقدان کا رونا روتا رہا، یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ کیا وہ واقعی اِن سب مسائل کا حل چاہتا ہے، وہ تمام تعصّبات سے بلند ہوکر اپنے ووٹ کی صُورت اپنا فیصلہ دے گا اور پھر منتخب حکومت کے اقدمات کا ساتھ بھی دے گا۔ اس کے ساتھ وہ یہ بھی یقینی بنائے کہ اس کے منتخب کردہ حُکم رانوں کو کسی بھی حیلے بہانے یا دخل اندازی سے ترقّی کی راہ سے نہ ہٹایا جاسکے۔ ہوسکتا ہے، کوئی پارٹی یا اُمیدوار جلدی میں ہو، لیکن عوام کے پاس بہت وقت ہے۔مُلک کے مسائل کسی گولڈن ٹچ سے حل نہیں ہوں گے۔

انتخابات کوئی جادو نہیں کہ صُور پُھونکا اور سب کچھ بدل گیا۔آگے بڑھنا اور مُلک و قوم کو دنیا میں اعلیٰ مقام دِلوانا ہے، تو پھر وہی طریقے اپنائیں، جو دوسری اقوام نے اپنائے اور دنیا کے لیے مثال بنیں۔اِس مقصد کے لیے ایک نسل کافی نہیں، کئی نسلوں کو کام کرنا ہوگا اور بار بار ترقّی کو ووٹ دینا ہوگا۔