• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وہ انتہائی غریب اور محنتی لیکن حددرجہ امانت دار بھی ہے۔ وقت کی پابندی میں کوتاہی کو خیانت تصور کرتا ہے۔ بیمار ہو یا صحت مند، غمی ہو یا خوشی، ہمہ وقت اس کے دماغ کے نہاں خانوں میں کام، کام اور بس کام ہی گردش کررہا ہوتا ہے۔ اس کی زندگی کا وہ دن قیامتِ صغریٰ سے کم نہ تھا جس دن وہ حسبِ معمول کام میں مصروف تھا۔ فون کی گھنٹی بجی، ریسیور اُٹھایا تو دوسری طرف سے گھگھی بندھی آواز نے اسے چونکادیا: ’’جلدی گھر آئیں، اباجان کو کچھ ہوگیا ہے۔‘‘ اور ساتھ ہی فون بند ہوگیا۔ وہ برہنہ پا گھر کی طرف دوڑا۔ جلدی سے اپنے اباجان کو نزدیکی پرائیویٹ ہسپتال لے گیا۔ ’’مسیحا‘‘ نے یہ کہہ کر چیک اَپ سے انکار کردیا کہ مجھے ایک تقریب میں جانا ہے، اسے کہیں اور لے جائیں۔ دوسری جگہ ایک ہسپتال میں دکھایا تو معلوم ہوا دل کا ایک والو بند ہوگیا ہے لہٰذا ایک ہفتے کے اندر آپریشن کروالیا جائے ورنہ کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ وہ معمول کی ڈیوٹی کے ساتھ ساتھ شہر بھر کے بڑے ہسپتالوں کا چکر لگاتا رہا اور اللہ سے دُعائیں بھی کرتا رہا: ’’اے دنیا ومافیہا کے خالق ومالک! تو میرے والد کو بغیر اسباب کے ہی شفا دیدے۔‘‘ چار دن تک اس کے والد کی حالت ویسی ہی رہی، جیسی تھی۔ پانچویں دن اس نے اپنے دوستوں سے والد کے آپریشن کا ذکر کیا اور کہا کہ آپریشن کے لیے رقم درکار ہے۔ اچھے دوست بڑی نعمت ہوتے ہیں اور غمخوار بھی ہوں تو سونے پہ سہاگہ۔ دوستوں نے اسے تسلی دی اور رقم کا انتظام کیا… تیسرے دن اس کے والد کا آپریشن ہوگیا۔ ان کی جان بچ گئی اور اس کے دوست قرآن کی اس آیت کے مصداق ہوگئے: ’’جس نے ایک شخص کی جان بچائی گویا اس نے پوری انسانیت کی جان بچائی۔‘‘ میں سوچتا ہوں آج کے معاشرے کی حقیقی تصویر پیش کرنے کے لیے یہ ایک حقیقی واقعہ ہی کافی ہے۔اس ملک میں ایسے لوگ بھی رہتے ہیں جو دو وقت کا کھانا بھی پیٹ بھر کر نہیں کھاسکتے۔ وہ پورا دن کام کرتے ہیں لیکن شام کو ان کو معاوضہ اتنا ملتا ہے کہ اس سے وہ اپنے گھر والوں کے دوا دارو کا انتظام بھی نہیں کرسکتے۔ کچھ عرصہ پہلے کی خبر ہے کہ حیدر آباد میں ایک پل کی مرمت کرنے والے مزدوروں کو 18 گھنٹے مسلسل کام کرنے کے صرف 500روپے ملتے تھے۔ جبکہ ہماری بیوروکریسی میں ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں جو پچاس پچاس ہزار صرف ایک لنچ اور ڈنر پر خرچ کردیتے ہیں… لیکن ناداروں، بے کسوں، معذوروں، یتیموں اور مسکینوں کی فلاح وبہبود کے لیے چونی بھر خرچ نہیں کرتے۔ وہ ہر سال لاکھوں روپے طرح طرح کی عیاشیوں پر خرچ کرتے ہیں لیکن موت کی دہلیز پر کھڑے کسی غریب کے بوڑھے والد کے آپریشن کے لیے سو دوسو روپے تک نہیں دیتے۔ کسی کینسر کی مریضہ اور فالج زدہ بچے کے علاج میں مدد نہیں کرتے۔افسوس کی بات تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مالداروں کے مال میں سے جو حصہ غریبوں، یتیموں اور مسکینوں کے لیے مقرر کیا ہے، وہ بھی ہڑپ کرجاتے ہیں۔ شاید انہیں کے بارے میں قرآن کہتا ہے کہ ’’وہ غریبوں کا مال ہڑپ کرکے اپنے پیٹوں میں دوزخ کی آگ بھررہے ہیں۔‘‘ جہنمیوں سے جب پوچھا جائے گا کہ تمہیں کس پاداش میں یہاں ڈالا گیا تو وہ کہیں گے: ’’ہم غریبوں کا خیال نہیں رکھتے تھے، ان کی مدد نہیں کرتے، ہم ان کا حق ان کو نہیں دیتے تھے۔‘‘ ہمارا دعویٰ ہے کہ اگر اس ملک کے وہ سارے افراد جن پر زکوٰۃ فرض ہے وہ پوری پوری ادا کردیں تو یہاں کوئی غریب نہیں رہے گا۔ ہمارے سامنے اسلام کے سنہری دور کی مثال موجود ہے جب کوئی زکوٰۃ وصول کرنے والا نہیں ہوتا تھا۔زکوٰۃ کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ قرآن میں متعدد جگہ نماز کے ساتھ زکوٰۃ کی ادائیگی کا حکم ہے اور زکوٰۃ نہ دینے پر سخت وعیدیں ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد جب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں چند قبائل نے زکوٰۃ ادا کرنے سے انکار کیا تو آپ نے ان کے خلاف اعلانِ جنگ فرمایا… لیکن آج کے دور میں زکوٰۃ ادا کرنے میں لوگ انتہائی غفلت وکوتاہی اور طرح طرح حیلے بہانے تلاش کر تے ہیں ۔ حکومتی سطح پر جو زکوٰۃ حاصل کی جاتی ہے۔ ان کا حال یہ ہے کہ پہلے اس پر متعلقہ چیئرمین اور دیگر عملے کے لوگ ہاتھ صاف کرتے ہیں۔ اس حوالے سے وفاقی وزیر برائے پارلیمانی اُمور کا یہ بیان ریکارڈ پر موجود ہے کہ ’’اگر تحقیقات کی جائیں تو زکوٰۃ کی تقسیم میں کروڑوں نہیں اربوں روپے کے گھپلے نکلیں گے۔‘‘ جو بھی حکومت آتی ہے وہ پرانی زکوٰۃ کمیٹیاں توڑ کر اپنے پسندیدہ افراد نئی کمیٹیوں میں لے آتی ہے اور زکوٰۃ کا سیاسی مقاصد کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ لہٰذا محکمۂ زکوٰۃ کی امدادی سرگرمیوں کی بھی کڑی نگرانی کی ضرورت ہے ورنہ غریبوں اور یتیموں کا مال یہ ’’مگرمچھ‘‘ ہڑپ کرتے ہی رہیں گے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ مالدار لوگ ایمان داری سے پوری پوری زکوٰۃ ادا کریں اور سرکاری سطح پر جمع کی جانے والی زکوٰۃ صرف مستحقین کو ہی دی جائے تاکہ ان کی مشکلات اور دکھوں کا مداوا ہوسکے۔دوسری بات یہ ہے کہ زکوٰۃ خود مستحقین تک پہنچائی جائے اور ان کو ان کی ضرورت کے مطابق دی جائے، اسی میں زیادہ ثواب ہے۔ اگر آپ خود نہیں دے سکتے تو ان رفاہی اداروں کو دیں جن پر آپ کو اعتماد ہے۔ قرآن پاک میں ہے: ’’اے ایمان والو! دین میں پورے پورے داخل ہوجائو۔‘‘اس کا تقاضا بھی یہی ہے کہ ہم زکوٰۃ جیسے اہم فریضے کو احسن اور اکمل طریقے سے ادا کرکے دارین میں سرخرو ہوجائیں۔ کسی غریب کو اس کا حصہ دے کر کامیاب ہوجائیں۔

تازہ ترین