• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

‎الحمدللہ تمام تر تنازعات اور الجھنوں کے باوجود ہمارا قومی قبلہ درست ہے پاکستانی قوم مختلف النو ع شکایات رکھتے ہوئے جمہوری سفر پر گامزن ہے 8 فروری کے انتخابات میں بال برابر شک و شبہ نہیں یہ پتھر پر لکیر ہیں لوگ سینٹ کی جن قراردادوں کا ریفرنس دے رہے تھے وہ انتہائی کمزور نچلے درجے کے ویسٹڈ انٹرسٹ کے سوا کچھ نہ تھیں اور جو لوگ بے پر کی اڑاتے ہوئے ہانک رہے ہیں کہ خدانخواستہ یہ نہ ہوا یا وہ نہ ہوا تو یہاں مارشل لا لگ جائے گا قطعی فضول ہوائیاں ہیں،یہ درویش اپنی وزڈم سے 100فیصد تیقن کے ساتھ تحریر کیے دے رہا ہے کہ اس نوع کے مبہم شبہات کا کہیں ایک فیصد بھی امکان نہ اب ہے اور اگر تدبر سے کام لیا گیا تو نہ انتخابی نتائج کے بعد ہے۔‎ ہمارے یہاں بلاشبہ یہ ریت چلی آرہی ہے کہ ہارنے والے جیتنے والے کو مبارکباد دینے کی بجائے دھاندلی کے الزامات عائد کرتے ہوئے ایجی ٹیشن یا دھرنوں کی راہ اپناتے ہیں، آج کا خوبصورت منظر نامہ یہ ہے کہ الیکشن 2024ءکے بعد بھی ایسی کوئی اسکیم یا سازش وقوع پذیر ہوتی نہیں دکھتی ، وجہ اس کی یہ ہے کہ ایسی اسکیمیں غیبی اشاروں سے تشکیل پاتی رہی ہیں اور ماورائی اشارے مفاداتی ہوتے ہیں جبکہ اس وقت خوشگوار نئی تبدیلی کے ساتھ سیاست، عدالت اور طاقت سبھی کا مفاد سیاسی وجمہوری ایکتاو استحکام میں ہے اگر کسی کو ہمارے اس دعوے کے اصابت میں تحفظات و شبہات ہیں وہ لبیک والوں کا منظر نامہ نظروں کے سامنے لے آئے جو ایک وقت میں پولیس والوں کو مار کر بھی جہادی دکھتے تھے لیکن جب خلائی یا خدائی اشارے بند ہوئے تو ہر چیز جھاگ کی طرح بیٹھ گئی ۔سابق کھلاڑی نے بھی ایک وقت میں پورا زور لگا کر دیکھ لیا لیکن الٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دہشت و جنوں نے کام کیا بلکہ الٹا پڑ گیا۔

‎ منفی ذہنیت والے لوگ اکثر اس حقیقت کا ادراک نہیں کر پاتے کہ یہ مکافات عمل کیا چیز ثابت ہو سکتی ہے؟یہ کوئی روحانی و ماورائی واردات نہیں ہوتی،اس کی جڑیں زمینی طور پر انسانی اخلاقیات میں ہی پیوست ہوتی ہیں اسی لیے سیانے کہتے ہیں ” کربھلا سو ہوئے بھلا“ آپ کو اگر کسی وجہ، حالات یا چالاکی سے طاقت ہاتھ آجاتی ہے یا عروج ملتا ہے تو حوصلے اور اعتماد سے اسے ہضم یا جذب کرنے کی صلاحیت بھی پیدا کریں ورنہ اس کے مکا فات سے آپ کو جان کے لالے بھی پڑ سکتے ہیں۔‎ آج ہمارے پی ٹی آئی والے دوست دکھی اور رنجیدہ ہی نہیں ناراضی کے ساتھ غصے میں ہیں یہ کہ وقت کا دھارا ان کے خلاف کیوں چل رہا ہے؟ انہیں سمجھ نہیں آرہی کہ وہ سپریم جوڈیشری جو کبھی ان کی بلائیں لیتی تھی اپنے آئینی وقار کو مٹی میں ملاتے ہوئے ان کے آگے پیچھے بچھ رہی ہوتی تھی آج وہ ان کو بھری بزم میں آئینی و قانونی تقاضے پورے استدلال کے ساتھ سمجھا رہی ہوتی ہے تیس مارخاں کے وہ عبقری قانون دان جو ثاقب سے بندیال تک اےکے بروہی بنے ہوئے تھے آج بچوں کی طرح الٹی سیدھی ہانکتے پائے جاتے ہیں اور کبھی بے وقوفوں کی طرح سر چڑھنے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ عوام کے سامنے مظلومیت کے لبادے اوڑھنے لگتے ہیں۔

درویش نے برسوں قبل اپنی ابتدائی ملاقاتوں میں اصلیت سمجھ لی اور لکھا کہ یہ شخص کرکٹ کا پاپولر کھلاڑی ضرور ہے مگر سیاست کا اناڑی ہے لوگ سیلیبرٹی سمجھ کر اس کی طرف ضرورآئیں گے مگر منہ کی کھائیں گے کیونکہ سیاست کیلئے تحمل، حوصلے، برداشت اور میچورٹی کا جو ہلکا سا معیار ہوتا ہے وہ بیچارہ تو اس سے بھی تہی دامن ہے، جذباتیت و جنونیت سے اکھاڑ پچھاڑ یا دھینگا مستی تو کی جا سکتی ہے کوئی تعمیری کامر انی حاصل کرنا ناممکن ہوتا ہے۔

اس وقت اگرچہ ہمارے سوشل میڈیا پر حاوی لوگ بہت زور لگا رہے ہیں حافظ صاحب تو رہے ایک طرف قاضی فائز عیسیٰ جیسے غیر معمولی چیف جسٹس کے خلاف بھی طوفان بدتمیزی اٹھا ناچاہ رہے ہیں لیکن جس طرح انکے بظاہر افلاطون دکھائی دینے والے فاضل وکلاء فارغ ہوئے ہیں چند ایام میں شروع ہونیوالی بھرپور انتخابی کمپین میں جناح تھرڈ کی سینہ بہ سینہ بھیجی گئی ہدایات اور مسلط کی گئی اناڑی قیادت کی کوتاہیاں انہیں عوام میں مزید عیاںکر دیں گی ان کے لفظی گولے اور احتجاجی ڈنڈے باہمی طور پر استعمال ہونگے اسکے بالمقابل نواز شریف اپنے بڑے جلسوں کے ذریعے عوام کو اپنا واضح ٹھوس تعمیری بیانیہ ذہن نشین کرنے میں کامیاب ٹھہریں گے اگر وہ اپنے ٹکٹ ہولڈرز اور پارٹی قیادت کو غرور وتکبر اور اکڑ کی بیماری یا آلائش سے بچ کر عوامی عظمت کے سامنے سرنگوں ہو کر چلا پائے تو۔

تازہ ترین