پاکستان اور ایران دو ایسے پڑوسی ممالک ہیں جن کے تعلقات قیام پاکستان کے وقت سے مثالی ہیں جبکہ اقوام متحدہ سمیت تمام بین الاقوامی فورموں پر دونوں ایک دوسرے کے موقف کی حمایت کرتے رہے ہیں۔ اس مثالی صورت حال میں ایران کی طرف سے بلوچستان کے دیہی علاقے پر ڈرون حملہ ایسا واقعہ تھا جس نے سب کو چونکا کر رکھ دیا جبکہ پاکستانی عوام کے لئے یہ بالکل ناقابل فہم ہے۔ حملے والے دن (منگل کو) وزیراعظم انوار الحق کاکڑ ڈیووس فورم کے موقع پر ڈیووس میں موجود تھے اور ان کی ایرانی وزیر خارجہ امیر عبداللہیان نے ملاقات بھی ہوئی مگر انہوں نے اپنے ملک کے منصوبے کے حوالے سے کوئی اشارہ نہیں دیا۔ حملے میں دو بچیوں کے جاں بحق ہونے اور چار افراد کے زخمی ہونے کے واقعہ کے بعد پاکستان نے ایرانی ناظم الامور کو دفتر خارجہ میں طلب کرکے اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا اور واضح کیا کہ پاکستان جواب دینے کا حق رکھتا ہے۔ بعد میں اسلام آباد نے تہران میں تعینات اپنے سفیر کو نہ صرف واپس بلا لیا بلکہ پاکستان میں تعینات ایرانی سفیر (جو فی الوقت تہران میں ہی ہیں) کا واپس استقبال کرنے سے بھی انکار کردیا۔ یہی وہ وقت تھا جب ایران نے اپنی خاموشی ختم کی اور ذمہ داری قبول کی۔ ایرانی وزیر خارجہ نے اعتراف کیا کہ حملہ پاکستان کے اندر کیا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ حملے کا ہدف دہشت گرد گروپ جیش العدل تھا۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ یہ تنظیم اسرائیل سے تعلق رکھتی ہے۔ القاعدہ سے تعلق رکھنے والی ایک اور تنظیم جند اللہ اسی جیش العدل کی سربراہ جماعت ہے پاکستان کی طرف سے بدھ کے روز سفارتی تعلقات میں معطلی کی جو صورت سامنے آئی، وہ احتجاج کی ایسی شدید صورت ہے جو ایک امن پسند مہذب ملک اپنے ردّعمل کے اظہار کے لئے اختیار کرسکتا ہے۔ اسلام آباد تہران تعلقات کے حوالے سے یہ ردّعمل اس اعتبار سے انتہائی غیر معمولی ہے کہ ان دونوں ملکوں کے تعلقات کی پون صدی میں یہ صورتحال پہلی بار پیش آئی ہے۔ مبصرین کے خیال میں ایران میں پاسداران انقلاب کے غلبے کی وجہ سے یہ کیفیت سامنے آئی ہے کہ دوسرے ملکوں کی جغرافیائی سرحدوں کے احترام پر توجہ نہیں دی گئی۔ جو ملک کسی بھی عنوان سے دوسرے ممالک کی سرحدوں کا تقدس نہیں محسوس کرتا وہ یہ اعلان کرتا ہے کہ اس کی اپنی سرحدوں کا بھی کوئی تقدس نہیں۔ ایران جیسے علم و ادب کے صدیوں سے تسلیم گہوارے میں ایسی صورت نظر آنا کسی کے لئے بھی خوشگوار نہیں۔ جمعرات کے روز پاکستانی دفتر خارجہ کے بیان کی صورت میں آنے والی خبر کے مطابق 18جنوری کی صبح پاکستان نے ایران کے صوبے سیستان میں دہشت گردوں کی مخصوص پناہ گاہوں کو نشانہ بنایا جن میں متعدد دہشت گرد مارے گئے۔ بیان کے مطابق دہشت گرد ایران کی حکومتی عملداری سے محروم علاقوں میں مقیم تھے۔ انٹلیجنس معلومات پر کئے گئے اس آپریشن کا نام ’’مرگ بر، سر مچار‘‘ رکھا گیا۔ بیان میں مزید بتایا گیا کہ سنگین خدشات پر عمل نہ ہونے کی وجہ سے نام نہاد ’’سرمچار‘‘ بے گناہ پاکستانیوں کا خون بہاتے رہے ہیں۔ کارروائی پاکستان کے تمام خطرات کے خلاف قومی سلامتی کے تحفظ اور دفاع کا غیر متزلزل عزم ہے، ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق دہشت گردوں کی موجودگی اور سرگرمیوں کے ٹھوس شواہد والے ڈوزیئر ایران کے ساتھ شیئر کئے گئے۔ انتہائی پیچیدہ کامیاب آپریشن پاکستانی افواج کے پیشہ ورانہ مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہے، پاکستان اپنے عوام کے تحفظ اور سلامتی کے لئے تمام ضروری اقدامات کرتا رہے گا۔ کیا ہی اچھا ہو کہ اسلام آباد اور تہران چین کی ثالثی کی پیشکش قبول کرتے ہوئے مل کر دہشت گردوں کے خلاف کارروائیاں کریں اور پورے خطے کو امن کا گہوارہ بنانے کی کوششوں کو کامیابی سے ہمکنار کریں۔