• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایران نے پاکستانی حدود میں داخل ہوکر کسی دہشت گرد تنظیم کیخلاف کارروائی کی ۔ ایسی ہی کارروائی کچھ عرصہ پہلے انڈیا نے کرنے کی کوشش کی تھی اس کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ پوری دنیا نے دیکھا، بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ انڈیا کسی کو منہ دکھانے کےقابل نہیں رہا حالانکہ اس کی فوجی طاقت ایران سے کہیں زیادہ ہے مگر پاکستان نے ایرانی فوجی کارروائی کے جواب میں فوری طور پرسفارتی احتجاج کیا۔ میں افواج پاکستان کے اس حوصلے اور برداشت پر انہیں سیلوٹ کرتا ہوںکہ انہوں نے وہ کچھ نہیں کیا جو انڈیا کے ساتھ کیا تھا، میں اُس وقت افواج پاکستان کو یہ مشورہ دینا چاہتا تھاکہ ہم سب جانتے ہیں کہ بلوچستان میں ہونیوالی دہشت گردی کی بے شمار کارروائیوں میں ملوث لوگ ایران میں بیٹھے ہیں اوربلوچستان میں ہونے والی دہشت گردی کو وہیں سےکنٹرول کیا جا رہا ہے۔ پاکستان بے شمارمرتبہ اس کے خلاف کارروائی کےلئے ایرانی حکومت کو سفارتی سطح پر کہہ چکا ہے مگر ایران نے کوئی کارروائی نہیں کی۔ اب پاکستان کو چاہئے کہ ایران میں دہشت گردوں کے جتنے اڈے ہیں انہیں تباہ کردے۔ کیونکہ ایران پاکستان سے یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ آپ نے ایرانی فضائی حدود کی خلاف ورزی کی ہے ۔یہ کام وہ خود کرچکا ہے۔ یعنی ایران نے پاکستان کو دہشت گردوں کے خاتمہ کا ایک موقع فراہم کر دیا ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ بی ایل اے اور بی ایل ایف کے ایران کے اندر کیمپ ہیں- کلبھوشن یادیو بھی ایران کی سرزمین سے پاکستان میں دہشت گردی کر ارہا تھا۔ الحمدللہ میرے مشورے سے پہلے افواج پاکستان نےیہی کچھ کیا اور ایران نے بھی تسلیم کیا کہ اس حملےمیں مرنےوالے دہشت گردوں میں کوئی ایرانی نہیں تھا۔

ایرانی وزیر خارجہ نے سوئٹزر لینڈ کے شہر ڈیووس میں ورلڈ اکنامک فورم کے موقع پر کہا کہ ’’پاکستا ن کے کسی بھی شہری کو ایرانی میزائلوں اور ڈرونز نے نشانہ نہیں بنایا۔ پاکستان کی سرزمین پر حملہ جنوب مشرقی صوبے سیستان بلوچستان میں ایرانی شہر راسک پر گروپ کے حالیہ حملوں کے جواب میں کیا گیا ہے۔ اس گروپ نے پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے کچھ حصوں میں پناہ لے رکھی ہے۔ ہم نے اس معاملے پر کئی بار پاکستانی حکام سے بات کی ہے۔ ایران پاکستان کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کا احترام کرتا ہے لیکن وہ ملک کی قومی سلامتی سے سمجھوتہ کرنے یا اس کے ساتھ کھیلنے کی اجازت نہیں دے گا‘‘۔

اس بیان کے تناظر میں پاکستان کا حملہ بھی ایرانی شہریوں پر نہیں ہوا۔ نہ اسکی خود مختاری پر نہ اسکی سالمیت پر۔ وہ حملہ تو ان پاکستانی مفروروں پر ہوا جو ایران میں چھپے ہوئے تھے۔ یعنی پاکستانی فورسز کا حملہ ایران میں موجود دہشتگردوں کے سات کیمپوں پر ہوا۔ یہ بلوچ لبریشن فرنٹ کے سات ٹھکانے تھے۔ اس آپریشن کا کوڈ نیم "مرگ برر سرمچار" رکھا گیا یعنی (سرمچاروں کیلئے موت)، اسکے نتیجے میں دہشت گردوں کی ایک بڑی تعداد’’ماری گئی۔‘‘ پچھلے کئی سالوں میں کئی بار، پاکستان نے مستقل طور پر ایران کے اندر غیر حکومتی جگہوں پر خود کو 'سرمچار کہنے والے پاکستانی نژاد دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہوں کے بارے میں اپنے سنگین خدشات کا اظہار کیا ہے۔ دہشت گردوں کی موجودگی اور سرگرمیوں کے ٹھوس شواہد کیساتھ متعدد ڈوزیئرز بھی ایران کے ساتھ شیئر کیے تھےمگر سنگین تحفظات پر عمل نہ ہونے کے سبب، یہ نام نہاد سرمچار بے گناہ پاکستانیوں کا خون بہاتے رہے۔

ایران کے سرکاری میڈیا کا کہنا ہے کہ جمعرات کی صبح ہونے والے حملے میں کم از کم سات افراد ہلاک ہوئے۔ ایران کی وزارت خارجہ نے تہران میں سب سے سینئر پاکستانی سفارت کار کو ان حملوں کی "وضاحت" دینے کے لیے طلب کیا۔یقینا جو کچھ ایرانی وزیر خارجہ نے کہا تھا ہمارے سفارت کار بھی وہی جواب دیں گے بلکہ ایران نے تسلیم کیا ہے کہ پاکستان کےحملوں میں مرنے والوں میں کوئی بھی ایرانی نہیں تھا۔ اس واقعے کو جواز فراہم کرنے کے لیے جیش العدل نامی تنظیم کی طرف سے ایک جعلی پریس ریلیز بھی جاری کی گئی کہ یہ راکٹ غلطی سے سرحد پار کر گئے اور اصل میں ہدف ایران کے شہر سیستان میں واقع جیش العدل کا کیمپ تھا۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ حملے کے متعلق وضاحتیں ایک دہشت گرد ایرانی تنظیم دے رہی ہے۔کیاجیش العدل سے منسوب اکاؤنٹس خود آئی آر جی سی اور ایرانی انٹیلی جنس آپریٹ کر رہے ہیں۔ان وضاحتوں سے یہی محسوس ہوتا ہے کہ ایران کو اپنی غلطی کا احساس ہواکہ اس نے جو کچھ کیا ہے اس سے کئی نئے درکھل سکتے ہیں ۔میری ذاتی رائے میں یہ دونوں حملے ایران اور پاکستان کو ایک دوسرے کے قریب بھی لا سکتے ہیں ۔

ایک اطلاع کے مطابق ایران میں کچھ حلقے موجود ہیں جو چین اور سعودی عرب کے ساتھ ایران کے بڑھتے ہوئے مراسم پر خاصے پریشان اور برہم ہیں ۔ایرانی انٹیلی جنس کے سربراہ کے متعلق بھی ایسی ہی خبریں سنائی دے رہی ہیں کہ اس پر انڈین اثرو رسوخ بہت اثر انداز ہے۔سو اس نے یہ کارروائی اس لئے کرائی کہ کہیں سعودی عرب اور چین کے ساتھ دوستی کے بعد اگر یہ سلسلہ پاکستان کے ساتھ بھی اسی سطح پر پھیل گیا تو یہ انڈین اور امریکہ کےلئے قطعاًخوشگوار نہیں ہوگا مگر پاکستان کے ایران میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں پرحملے کے بعد ان کی ساری پلاننگ دھری کی دھری رہ گئی ۔میرے خیال میں ایران اور پاکستان کو میز پر بیٹھ کر دہشت گردوں کے معاملہ پر سوچ بچار کرنا ہوگی ۔یہ دونوں ملکوں کے مستقبل کےلئے بہتر ہوگا وگرنہ دونوں ممالک کے مخالف اس صورتحال سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں ۔

تازہ ترین