ٹی وی چینلز پر حافظ آباد میں مسلم لیگ کا جلسہ دیکھا خاصا بارعب تھا نواز شریف نے مختصر خطاب کیا لیکن وہ گزشتہ ادھورے ادوار میں پاکستان اور اس کے عوام کے لئے جو کچھ کر چکے ہیں وہ سب تقریروں پر بھاری ہے ۔مریم نواز کا خطاب بہت بامعنی اور متاثر کن تھا خصوصاً ان کے اس ایک جملے میں بہت کچھ کہہ دیا گیا تھا کہ الیکشن میں مقابلہ 9مئی اور 28مئی والوں کے درمیان ہے یعنی 9مئی کو پی ٹی آئی نے ریاست کے دفاعی اداروں پر دشمن کی طرح حملے کئے جبکہ 28مئی کو نواز شریف نے دفاعی اداروں کو مضبوط اور پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔بجائے لمبی تمہید کے میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ میں نے پاکستان کے تمام سیاسی اور فوجی حکمرانوںکے ادوار دیکھے ہیں اس وقت سے جب میری کوئی نظریاتی وابستگی کسی سے نہیں تھی ان میں سے کچھ نے بہت اچھے کام بھی کئے لیکن بہت سے کام بگاڑنے میں بھی اہم کردار ادا کیا ۔ان میں سے سرفہرست ایوب خان کا دور ہے جس میں جمہوریت کے تمام دروازے بند کرنے کا اہتمام کیا گیا اس دور میں بلاشبہ ملک صنعتی ترقی کی دوڑ میں شریک ہوا مگر ملک کی اکثریتی آبادی جو مشرقی پاکستان میں رہائش پذیر تھی بہت شدت سے اس آمر کی نظروں میں کھٹکنے لگی اسے معیشت پر بوجھ سمجھا گیا اور اس کے ساتھ نہ صرف یہ کہ سوتیلی اولاد ایسا سلوک کیا گیا بلکہ اسے پاکستان سے الگ کرنے کی شعوری سوچ بھی سامنے آئی ۔اس سال ملک کے ساتھ فٹ بال ایسا سلوک کرنے کے بعد ذوالفقار علی بھٹو سامنے آئے جو ایوب خان کو اپنا ڈیڈی کہتے تھے بعد میں ان کے خلاف تحریک چلائی اور تفصیلات میں جائے بغیر اتنا کہنا کافی ہے کہ وزیر اعظم بنے اور اس وقت کے آرمی چیف نے ان کی خوشامد کی حد کر دی ۔بہرحال انہوں نے بہت سے اچھے اقدامات کئے ایٹمی پروگرام کی حفاظت کی پاکستان میں مسلم امہ کے بڑے رہنمائوں کو مدعو کیا اور یوں ساری دنیا میں پاکستان کی ایک نئے رخ سے پہچان گئی خارجہ پالیسی بہت محدود تھی سب سے بڑا کام یہ کہ پاکستان کو آئین دیایہ اور اس طرح کے دوسرے کام اپنی جگہ لیکن فوج کے متوازی ایف ایس ایف قائم کی جس کا مقصد اپنے سیاسی مخالفوں کو کیفر کردارتک پہنچانا تھا پاکستان کی ابھرتی ہوئی معیشت کو نیشنلائز کرکے معیشت کو لنگڑا لولا بنا دیا اور سب سے بڑھ کر مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنانے میں وہ کردار ادا کیا جس کی امید اس بالغ النظر سیاست دان سے نہیں کی گئی۔ ضیاءالحق نے پاکستان میں اسلام کے نام پر دہشت گردوں کی ایک ایسی جماعت تیار کی جسے ہم آج تک بھگت رہے ہیں ملک میں ملا ئیت کو فروغ دیا پاکستان کی موجودہ پس ماندہ سوچ انہی دس سالہ ’’کاوشوں‘‘ کا نتیجہ ہے باقی رہے جنرل پرویز مشرف باقی رہے نام اللہ کا ۔اب آ جاتے ہیں نواز شریف کی طرف وہ بھی ضیاءالحق کے کاندھوں پر بیٹھ کر پاکستانی سیاست میں آئے اور وزیر اعلیٰ پنجاب بنے مگر مجھے ان کے اس دور سے کچھ نہیں لینا دینا کہ میری اس زمانے کی تحریریں موجودہ تحریروں سے مختلف تھیں وہ تین دفعہ پاکستان کے وزیر اعظم بنے اور انہیں وزارت عظمیٰ کی ایک بھی مدت پوری نہیں کرنے دی گئی کہ وہ ریاست کے تمام ارکان کو وکٹ کے اندر کھیلتے دیکھنا چاہتے تھے اس کے باوجود پاکستان نے ان ادوار میں ہر ممکن ترقی کی آج ہمیں پورے ملک میں جوموٹر ویز نظر آتی ہیں وہ سب نواز شریف کے اس وژن کا عکس ہیں کہ ملک ایک دوسرے سے مربوط ہو گاتو ترقی کے دروازے بھی کھلیں گے عوام ایک دوسرے کو زیادہ بہتر طور پر جان سکیں گے انہیں مغربی ممالک کی طرح سفر کی سہولتیں ملیں گی پھر یہ سلسلہ میٹرو بس تک اور اس کے بعد اورنج ٹرین تک پہنچا یہ سب سہولتیں پورے پاکستان کو ملنا تھیں اگر انہیں وزارت عظمیٰ کی مدت پوری کرنے دی جاتی نواز شریف نے لوڈشیڈنگ کا خاتمہ کیا ڈالر کو اس کی اوقات میں رکھا مہنگائی ممکن حد تک کم کر دی عوام کو پہلے سے زیادہ روزگار ملنا شروع ہوا،غریبوں کے لئے گھربنوائے، قصبات میں اعلیٰ درجے کے اسکولوں کی بنیاد رکھی اور یہ سب کچھ اور اس کے علاوہ اور بہت کچھ نواز شریف نے قیدوبند اور جلاوطنی کی صعوبتوں کے درمیان کرکے دکھایا اور ان ہمسایوں سے اچھے تعلقات رکھنے کی پالیسی اپنائی جس کے نتیجے میں واجپائی بس پر بیٹھ کر مینار پاکستان آئے اور پاکستان کے وجود کو بطور حقیقت تسلیم کیا ۔یہ نواز شریف کا مختصر سیاسی موازنہ ہے مگر اخلاقی طور پر بھی نواز شریف کا موازنہ بہت اچھے لفظوں میں کیا جا سکتا ہے میں اس خاندان کو گزشتہ نصف صدی سے زیادہ جانتا ہوں اس کے سربراہ میاں محمد شریف مرحوم ومغفور نے لاہور میں چھوٹے پیمانے پر فائونڈری بنائی اور پھر شب وروز محنت اور ایک بڑے زاویہ نظر کی بدولت یہ ایک امپائربن گئی نواز شریف کے سیاست میں آنے سے پہلے یہ خاندان ارب پتی بن چکا تھا پھر یوں ہوا کہ بھٹو مرحوم نے تمام صنعتوں کو قومیا لیا جس کے نتیجے میں ہماری صنعتی ترقی زیرو پر پہنچ گئی اور مصنوعات تیار ہونے کی بجائے وہاں الو بولنے لگے مگر جب نواز شریف پاکستان کے وزیر اعظم بنے تو تینوں دفعہ ان کے راستے میں روڑے اٹکائے اور وسیع پیمانے پر ہر دور میں کرپشن کرپشن کے آوازے کسے گئے مگر ’’کرپشن‘‘ پر سزا ایک دفعہ پانامہ کی بجائے اقامہ اور ایک دفعہ اپنے بیٹے سے تنخواہ نہ لینے کے جرم میں سنائی گئی اس الزام سے بیہودہ الزام اور کوئی نہیں ہوسکتا۔ شاہد خاقان عباسی اور چودھری نثار علی خاں ، نواز شریف کے عمر بھر ساتھی رہے ہیں ان دنوں کچھ اختلافات کی وجہ سے الگ ہو گئے ہیں مگر دونوں نواز شریف کو آج بھی ایک ایماندار سیاست دان سمجھتے ہیں اور ان پر کرپشن کے الزام کو بیہودہ سمجھتے ہیں اس طرح فواد حسن فواد جو نواز شریف کے پرنسپل سیکرٹری رہے اور جس سے کوئی چیز مخفی نہیں رہ سکتی انہوں نے پابند سلاسل ہونے کے باوجود نواز شریف کو سخت سزائوں اور اچھی پیشکشوں کے باوجود یہ ماننے سے انکارکر دیا کہ وہ کبھی کرپشن میں ملوث رہے ہوں۔اور آخر میں نواز شریف بطور انسان ....میں نے انہیں بطور انسان بہت قریب سے دیکھا ہے چلیں عبادات تو انفرادی فعل ہیں مگر ایک وزیر اعظم اپنے وزارت عظمیٰ کے دور میں بھی اتنا منکسرالمزاج ہو کہ دوسرا خواہ مخواہ شرمندگی محسوس کرنے لگے تو ایسا بہت کم کم ہوتا ہے میں اس مشکل مرحلے سے کئی بار گزرا ہوں انکے والد مرحوم و مغفور میاں محمد شریف کی تربیت کا نتیجہ ہے۔
سو میرے نزدیک سب سیاستدان کسی نہ کسی حوالے سے قابل تعریف ہیں حکمران بھی اس ذیل میں آتے ہیں مگر یاد رکھیں دوسرا نواز شریف کوئی نہیں!