گذشتہ چار برس کے دوران روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر میں بے تحاشا اضافے سے پاکستانی تجارت کو شدید دھچکا لگا جو درآمدی خام مال میں کمی اورپیداواری لاگت میں اضافے کا سبب بنااوربرآمدی صنعت تباہی کے دہانےپر پہنچ گئی۔ زرمبادلہ کے حصول کا دارومدار زیادہ تر چاول،کینو،آم اورکھالوں تک محدود ہوکر رہ گیا۔2022میں پاکستان اور چین نے تجارتی لین دین بڑی حد تک مقامی کرنسی میں کرنے کی طرف قدم اٹھایاجس کے حوصلہ افزا نتائج آنا شروع ہوئے ہیں۔ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق 2023کے دوران چینی کرنسی میں باہمی تجارتی حجم 2018کے دوفیصد کے مقابلے میں 14فیصد سے زیادہ رہا جس سے امریکی ڈالر کو سخت چیلنج کا سامنا کرنا پڑا۔روس کے ساتھ ایندھن کی تجارت بھی چینی کرنسی میں کی جارہی ہے ،معاشی تجزیہ کاروں کے مطابق اس وقت یوآن عالمی سطح پر سب سے زیادہ استعمال ہونے والی کرنسیوں میں چوتھے نمبر پر ہے ۔جنوری 2022کے بعد پہلی بار نومبر 2023میں بین الاقوامی ادائیگیوں کیلئے چین کی کرنسی جاپان سے زیادہ استعمال کی گئی۔واضح ہو کہ ایشیا دوسرے خطوں کیلئے صنعت و تجارت کی سب سے بڑی منڈی ہےتاہم کرنسی کی مغربی اجارہ داری اس پر اثراندازہوتی آئی ہے۔ حالیہ برسوں میں چین کے اٹھائے گئے اقدامات بارآور ثابت ہورہے ہیں جو پاکستان کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے ، دونوں ملکوں کا موجودہ تجارتی حجم 26ارب ڈالر سے زیادہ ہےجسمیں بڑے اضافے کی گنجائش ہے اور سی پیک کی بدولت مستقبل قریب میں اس میں تیزی سے اضافے کی امید ہے۔8فروری کے بعد آنے والی منتخب حکومت پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ترجیحی بنیادوں پرصنعت و تجارت کی بحالی میں حائل رکاوٹیں دور کرنے کی سعی کرےجس کا اولین مطمع نظر ملک میں روزگار کے لاتعداد مواقع پیدا کرنا ہو۔