سپریم کورٹ کے واضح فیصلے کے باوجود سینیٹ میں بار بارعام انتخابات کے التوا کی قرار داد کو منظور کرنا افسوس کا مقام ہے۔ محسوس یہ ہوتا ہے کہ کچھ عناصر پاکستان میں جمہوری عمل کو پروان چڑھتانہیں دیکھ سکتے اس لیے وہ ان مذموم حرکات سے باز نہیں آ رہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر ترکی میں خوفناک زلزلے کے باوجود الیکشن کا پر امن انعقاد ہو سکتا ہے تو پاکستان میں کیوں نہیں ہو سکتا۔ الیکشن سے فرار کی راہیں تلاش کرنے والے درحقیت عوام کا سامنا کرنے سے ڈرتے ہیں۔بر وقت انتخابات سے ملک میں جمہوریت کو تقویت ملے گی اور منتخب حکومت عوام کو درپیش مسائل کے حل کے لئے اپنے ایجنڈے کے مطابق کام کر سکے گی۔انتخابات کے التوا کی کوششیں درحقیقت توہین عدالت اورملک وجمہوریت کے خلاف سازش ہے۔ان حالات میں الیکشن کمیشن شفاف وغیرجانبدارانتخابات کیلئے تمام جماعتوں کو سیاست وانتخابی مہم چلانے کے برابرمواقع دینے کویقینی بنانے کیلئے اقدامات کرے۔الیکشن میں تاخیر کی باتوں سے غیر جمہوری قوتیں مستحکم ہوں گی۔ بدقسمتی سے یہ دکھائی دے رہا ہے کہ ایک مخصوص جماعت کے لئے اقتدار کی راہ ہموار کی جا ر ہے۔شفاف اور منصفانہ انتخابات کے لئے ضروری ہے کہ الیکشن کمیشن اپنی آئینی و قانونی ذمہ داریہ ادا کرے۔جب تک ملک میںمنتخب حکومت بر سر اقتدار نہیں آئے گی اس وقت تک اضطراب اور افراتفری کی صورتحال پر قابو نہیں پایا جا سکتا، مگر اس کے لئے ضروری ہے کہ الیکشن کمیشن صاف شفاف انتخابی عمل کو یقینی بنائے۔ انشااللہ آٹھ فروری، قوم کے حقیقی نمائندوں کی کامیابی کا دن ہو گا۔ قوم نے سب کو آزما لیا، کسی نے روٹی کپڑا اور مکان کے نام پر بے وقوف بنایا، کسی نے پاکستان کے عوام کو ایشین ٹائیگر بنانے کا خواب دکھایا اور کسی نے ریاست مدینہ کا نعرہ لگاکر قوم کو دھوکہ دیا، سب کی حقیقت اب آشکار ہو چکی ہے۔
ملک و قوم آج جن مسائل کی زد میں ہیں جن میں مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کا برابر کا حصہ ہے۔تینوں نے بر سر اقتدار آکر آئی ایم ایف غلامی کو قبول اور ظالمانہ ٹیکس لگا کر مہنگائی میں اضافہ کیا۔قو م کے پاس ان لوگوں سے نجات حاصل کرنے کا اب بہترین موقع ہے۔دیانتدار، باکردار اور صاف ستھری قیادت ہی وطن عزیز کو ترقی کی شاہراہ پر ڈال سکتی ہے۔ ماضی میں بھی مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی باریاں لے کر اقتدار حاصل کرتی رہیں۔پھرپی ٹی آئی، پی ڈی ایم کے بعد اب نگراں حکومت نے عوام کے جذبات کو بری طرح مجروع کیا ہے۔ گزشتہ ادوار میں کوئی ایک وعدہ بھی ایسا نہیں ہے جس کو انھوں نے پورا کیا ہو۔ماضی میں بر سراقتدار آنے والی جماعتوں نے عوام کا معیار زندگی بہتر نہیں ہونے دیاجس کی وجہ سے پریشان حال عوام ان پارٹیوں سے مایوس ہوچکے ہیں اور پاکستان کیلئے کسی مسیحا کے منتظر ہیں۔ اب پاکستانی قوم ملک میں حقیقی تبدیلی چاہتی ہے۔ ایک ایسی تبدیلی جس میں ملک کے ہر شہری کو عزت کے ساتھ روزگار ملے۔ تعلیم،صحت اور بنیادی سہولتیں ان کوحاصل ہوں۔ ہرفرد کو انصاف ملے۔ کوئی طاقتور کسی کمزور کا حق غصب نہ کر سکے۔ ایسی حقیقی تبدیلی جواب جماعت اسلامی ہی لاسکتی ہے اس نے کراچی، گوادر، خیبرپختونخواہ،پنجاب سمیت ملک بھر میں ہمیشہ مشکل وقت میں ڈیلیور کیا ہے۔ہمارے ہاں جب تک اسمبلیوں کو کرپٹ افراد سے پاک نہیں کر لیا جاتا اس وقت تک حالات بہتر نہیں ہو سکتے۔پوری قوم گزشتہ حکومتوں کی غلط معاشی پالیسیوں کا خمیازہ اب تک بھگت رہی ہے۔طرفا تماشا یہ ہے کہ بجلی کی فی یونٹ قیمت اب 56روپے تک پہنچ چکی ہے جبکہ قوم کو اسمیں مزید اضافے کی نوید سنائی جا رہی ہے۔بجلی فی یونٹ 5 روپے 62 پیسے مذیدمہنگی ہونے کا امکان ہے جس کی منظوری کی صورت میں صارفین پر 49ارب سے زائد کا بوجھ پڑے گا۔ایک طرف حکومت پٹرول کی قیمت میں کمی کرتی ہے تو دوسری جانب کسی اور چیز کی قیمت میں اضافہ کرکے عوام کی خوشی کو غارت کر دیا جاتا ہے۔لگتا ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے عوام کو ریلیف نہ دینے کا حلف اٹھا رکھا ہے۔ہماری اشرافیہ نے بیرونی قرضوں کا 90فیصد خود استعمال کیا ہے اس کانتیجہ یہ ہے کہ ہر پاکستانی ڈھائی لاکھ کا مقروض ہے۔ستم ظریفی یہ ہے کہ غریب کیلئے ہسپتالوں میں علاج نہیں ہے تعلیمی اداروں کے دروازے غریب کے بچے کیلئے بند ہیں، ملک پراس وقت 80ہزار ارب کا قرضہ ہے۔ پاکستانی عوام انشا ء اللہ ووٹ کی طاقت سے اہل ودیانتدار لوگوں کو کامیاب کرکے ملک واپنی نسلوں کے مستقبل کو محفوظ بنائیں گے۔ آئندہ عام انتخابات کے بعد آنے والی حکومت کوملک و قوم کی ترقی و خوشحالی کے لئے مالی بدعنوانی،ٹیکس چوری، حوالہ ہندی، اسمگلنگ میں ملوث افراد کا جڑ سے خاتمہ کرنا ہو گا۔ بجلی، گیس، پٹرولیم مصنوعات، چینی، آٹا سب کچھ عوام کی پہنچ سے باہر ہو چکا ہے۔ قرضہ ہڑپ کرنے والوں اور کرپٹ افراد کی جائدادیں نیلام کر کے قومی خزانہ میں جمع کرائی جانی چاہئیں۔ 76برسوں سے ملک میں تجربات کئے جا رہے ہیں۔ 13جماعتوں کے اتحاد پی ڈی ایم نے بھی اپنے سولہ ماہ کے دوران بدترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس وقت نوجوان رشوت اور سفارش کے بغیر نوکری نہیں حاصل کر سکتے۔ نوجوانوں کو ملازمت اور روزگار الاؤنس دیا جانا چاہیے۔اگر دنیا کے کئی ممالک یہ سہولتیں دے سکتے ہیں تو پاکستان میں کیوں نہیں ہوسکتا؟ خوشحال مستقبل کیلئے سیاسی و معاشی استحکام ناگزیر ہو چکا ہے۔