• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہمارے ایک دوست ہیں، درمیانہ درجہ کے صنعتکار اورچاولوں کی ایکسپورٹ کا کام بھی کرتے ہیں ارب پتی تو ضرور ہوں گے، کیونکہ آجکل مملکت خداداد میں دھن کی وہ ریل پیل ہے کہ بقول شخصے اٹ پٹو تو دس ارب پتی نکل آتے ہیں۔یہ الگ بات ہے کہ سرکار کے کاغذوں میں نہ ہوں اسلام آباد سمیت ملک کے تین بڑے شہروں میں ذاتی مکانات کے علاوہ دو عدد فارم ہائوسز اور مہنگی گاڑیوں کا فلیٹ بھی موجود ہے۔ پچھلی حکومت میں پانچ کروڑ بریف کیس میں لئے پھرتے رہے کہ کوئی سینیٹر بنوا دے ۔حامی بھی بھر لی گئی تھی۔ مگر شاید پیسے کم تھے یا واسطہ کمزور، کہ کام نہ بن سکا ۔ پھر سوچا کہ چلو اور نہیں تو اسلام آباد کلب کی ممبرشپ ہی لے لیتے ہیں اور دو ملین کے خرچ سے کلب کا کارڈ حاصل کر کے پھولے نہیں سما رہے تھے۔ باقی بھائی بندوں کی طرح ٹیکس ان کے لئے بھی کوئی مسئلہ نہیں رہا ۔سمجھدار وکلا اور ٹیکس افسران مل ملا کر خود ہی سنبھال لیتے ہیں۔انہی کے کہنے پر سو ایکڑ زرعی زمین بھی خرید رکھی ہے اور ڈیکلیرڈ آمدن کا80%انہی زمینوں سے آتا ہے۔ جس پر ٹیکس کی معافی ہے۔ پھر بھی ان کا بڑا پن ہے کہ ٹیکس کے نام پر دس بیس ہزار کی ٹپ حکومت کو بھی دے دیتے ہیں۔ اسلام آباد تشریف لائیں تو کبھی کبھار بندہ ناچیز کو بھی شرف ملاقات بخش جاتے ہیں، کوئی دو برس پہلے آئے تو ایک اعلیٰ پایہ کے خیراتی اقامتی اسکول کا بلیو پرنٹ ہمراہ لائے تھے۔ جو مرحوم والدین کی یاد میں قائم کرنے جا رہے تھے۔پھر دیکھتے ہی دیکھتے ایک بڑے شہر کے نواحی علاقے میں اسکول اور ہاسٹل کھل گیا۔ بہترین عملہ ،بہترین تعلیم و تربیت اور بہترین ماحول جو بھی دیکھتا ،موصوف کے جذبہ ایثار اور غریب پروری کی تعریف کرتا تھا ۔ پھر پتہ چلا کہ مکمل طور پر خیراتی نہیں، غرباء کا داخلہ محض 40%ہے۔ اور اس بار جو داخلہ ہوا تو فری کھاتہ صرف5%تھا ۔موصوف کا کہنا تھا کہ والدین خیراتی اداروں کو سیریس نہیں لیتے۔ بالاخر عقدہ کھلا کہ خیرات کے اس چکر کے تانے بانے بھی ٹیکس ریلیف سے جا ملتے ہیں۔ اور یہ پٹی ان کے کسی ’’محسن‘‘ نے پڑھائی تھی۔ یہ الگ بات کہ سرکاری کھاتوں میں ادارہ اب بھی مکمل خیراتی ہے۔اسے کہتے ہیں ایک پتھر سے دو شکار ٹیکس میں چھوٹ بھی مل گئی اور کامیاب سکول کی شکل میں ایک کمائو فیکٹری اور لگ گئی۔ یہ تو کچھ بھی نہیں۔ اس سے کہیں سنگین کہانیاں ہمارے گردو پیش بکھری پڑی ہیں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ اس ملک میں99% کرپشن نام نہاد ایلیٹ کرتی ہے جس کی تعداد ایک فیصد بھی نہیں اور 19کروڑ غریب غرباء کی کرپشن مجموعی طور پر ایک فیصد سے بھی کم ہے۔ گندے پیسے کے انبار لگانے کے بعد ہم خیرات کا دھندا شروع کردیتے ہیں۔جو اکثر کیسز میں اللہ کی خوشنودی کی بجائے اپنا نفس موٹا کرنے کیلئے ہوتی ہے کہ لوگ کہیں، دیکھو کتنا سخی اور خدا ترس ہے۔
مغرب سے مثال دیتا ہوں تو اکثر دوستوں کو اچھا نہیں لگتا مگر کیا کیا جائے۔ انسانی بہبود کے حوالے سے ان کے عمل میں کوئی کنیفوژن نہیں جبکہ ہم دودھ میں مینگنیاں ڈال دیتے ہیں۔ سرالیگزینڈر فلیمنگ کا نام تو آپ نے سن رکھا ہو گابرطانیہ کے اس شہرہ آفاق سائنس دان کی ایجادوں اور دریافتوں کی فہرست طویل ہے مگر جس دریافت نے انہیں امر کر دیا وہ پنسلین ہے۔ دنیا کی پہلی موثر بیکٹریا کش اینٹی بائیوٹک دوا۔ سرالیگزینڈر فلیمنگ کوالیفائیڈ ،ایم بی بی ایس ڈاکٹر تھے۔ پہلی عالمی جنگ کے دوران رائل آرمی میڈیکل کور میں بطور کیپٹن بھرتی ہو گئے اور جنگ کی تباہ کاریوں اور انسانیت کی بے بسی کو بہت قریب سے دیکھا۔ کٹے پھٹے اور جلے ہوئے جسموں سے ہسپتال بھرے ہوئے تھے۔ مگر علاج کسی کے پاس نہ تھا۔ فقط اینٹی سیپٹک دوائیں تھیں جو سطحی زخموں پر تو کسی حد تک کارگر تھیں، مگر گہرے زخموں میں پلنے والے بیکٹیریا پر قطعی غیر موثر ،1919میں جنگ ختم ہو گئی۔ سر فلیمنگ بھی فوج کی نوکری چھوڑ کر برطانیہ واپس آ گئے مگر گلے سڑے ،کٹے پھٹے زخموں اور بیکٹریا کی تباہ کاریوں کے مناظر نے ان کا سکھ چین غارت کر دیا تھا۔ انہیں راتوں کو ننید نہیں آتی تھی اور ہمہ وقت اسی فکر میں رہتے کہ نوع انسان کو اس اذیت سے کیونکر نجات ملے۔ نت نئی تحقیق نت نئے تجربات ، نت نئی پرکھ پرچول، اور ایسے بھی ہوا کہ ہفتوں گھر کی شکل نہ دیکھی اور تجربہ گاہ میں مصروف کار رہے۔
صحت خراب ہونے لگی تو گھر والوں کے اصرار پر سب کچھ جوں کا توں چھوڑا اور پورے ایک مہینے کی چھٹی لے لی۔ 3ستمبر1928کو چھٹی گزار کر لوٹے تو یہ دیکھ کر حیرت کی انتہا نہ رہی کہ کلچر کے جو نمونے وہ مختلف ٹیسٹوں پر لگا گئے تھے۔ ان میں سے ایک پر سفید سی کوئی چیز نمایاں ہو چکی تھی اور جس نے ارد گرد کے تمام بیکٹریا کو تباہ کر دیا تھا۔ پنسلین کی دریافت کے حوالے سے یہ ایک بڑی پیشرفت تھی مگر کام ابھی ختم نہیں ہوا تھا۔ اور پھر مزید سترہ برس تک ٹیسٹ اور تجربات جاری رہے، اور تجارتی پیمانے پر دوا کی پیداوار اور تقسیم کا آغاز 1945میں ہوا۔ یوں وہ خواب جو سر الیگزینڈر فلیمنگ نے پہلی عالمی جنگ کے آغاز میں دیکھا تھا، اس کی تعبیر تین دہائیوں بعد دوسری عالمی جنگ کے اختتام پر سامنے آئی اور اس کارنامہ پر موصوف کو 1945 میں میڈیسن کے شعبہ میں نوبل انعام سے بھی نوازا گیا۔
اس وقت تک دنیا بھر میں اس معجزاتی دوا کی دھوم مچ چکی تھی اور تمام نامی گرامی میڈیسن کمپنیاں اسکے حقوق کے حصول کیلئے دیوانی ہو رہی تھیں۔ ہر کوئی بڑھ چڑھ کر رائلٹی کی پیشکش کر رہا تھا۔ سیدھے سادے سائنس دان کیلئے یہ ایک انوکھا تجربہ تھا۔ لیبارٹری کے تجربات سے یکسر مختلف۔اسے ایک نئے کلچر سے پالا پڑا تھا۔ کارپوریٹ کلچر جس سے نمٹنے کا اسے کوئی تجربہ نہ تھا۔ چنانچہ وکیل کی خدمات حاصل کرلیں۔ جو ایک سہ پہر ایک پارٹی لیکر آیا جس نے دس فیصد رائلٹی کی پیشکش کی تھی۔ سر فلیمنگ کو بہت برا لگا کہ یہ کیا بات ہوئی ؟ تحقیق میری، محنت میری، دریافت میری ،زندگی میں نے لگا دی، اور یہ سیٹھ مجھے محض 10%پر ٹرخا رہا ہے اور 90%اپنی جیب میں ڈال رہا ہے، فقط پیسے کے زور پر ۔سیٹھ کو چلتا کیا تو وکیل نے رازداری سے کہا کہ جناب یہ 10%بھی کچھ کم نہیں، اس سے بھی اتنی دولت آ جائے گی کہ سنبھالے نہیں سنبھلے گی۔ لاکھوں، کروڑوں پائونڈ ہر ہفتے، ہر مہینے، یہ سن کر سر فلیمنگ ٹھٹھکے اور بولے کیاواقعی ؟ مگر میں اتنے پیسوں کیا کروں گا ؟ چلو بلائو سیٹھ کو، اور سیٹھ بھاگا آیا ۔سر فلیمنگ بولے، مجھے تمہاری 10%والی پیشکش منظور نہیں ،سیٹھ لجاجت سے بولا، کوئی نہیں جناب، 15%کر لیتے ہیں ۔سر فلیمنگ نے ٹوکا ہرگز نہیں۔ سیٹھ دبک گیا،بولا چلیں پھر جو آپ کا حکم ہو گا ہمیں منظور ہو گا ۔ فلیمنگ بولے میری رائلٹی صرف ایک فیصد ہو گی مگر معاہدہ کی شرائط میں خود لکھوں گا ۔ سیٹھ کا تو اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے۔ اسے کانوں پر یقین نہیں آ رہا تھا۔ زبان بھی گویا گنگ ہو گئی۔پھر ہمت جمع کر کے منمنایا ،
جی سر ، جی سر، جو آپ فرمائیں گے وہی ہو گا ، ہمیں آپکی ہر شرط منظور ہے، اس شب سر الیگزینڈر فلیمنگ نے معاہدہ کے کئی ڈرافٹ رکھے اور پھاڑے، مگر کسی پر بھی دل نہیں جما۔ فجر ہونے کو تھی کہ راہ مل گئی، لکھا’’ یہ دریافت میری ملکیت نہیں، اللہ کی دین ہے۔ اس کا عطیہ ہے۔ میں تو محض وسیلہ بن گیا۔ جب میں مالک ہی نہیں تو معاوضہ کیسا؟ لہٰذا اللہ کی عطا اسکی مخلوق کے مفاد میں اوپن کرتا ہوں۔ دنیا کی کوئی بھی میڈیسن کمپنی، پینسلین کو درج ذیل فارمولہ کے تحت تیار کر سکتی ہے۔ جو مالی مفاد آپ مجھے دینا چاہتے ہیں وہ خلق خدا کو منتقل کر دیں ، سر فلیمنگ کی داستان ختم ہوئی، شاید اپنے اپنے گریبان میں جھانکنے کے لئے کافی ہو۔
تازہ ترین