• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جب سے نگراں حکومت اقتدار میں آئی ہے، آئینی اختیارات سےتجاوز کرکے ایسے اقدامات کررہی ہے جو نہ فقط آئین کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔ وہ صوبوں کے مخصوص حقوق کو سرعام پامال کررہی ہے‘ اس قسم کے اقدامات سے خاص طور پر سندھ کے دانشوروں اور وکلا تنظیموں میں شدید ردعمل پایاجارہا ہے‘ ان حلقوں کا تاثر یہ ہے کہ اس نگراں حکومت نےکئی ایسے اقدامات کئے ہیں جو آئین سے صرفِ نظرکرنے کے ساتھ صوبوں کو انکے مخصوص حقوق سے محروم کرنے کے مترادف دکھائی دے رہے ہیں ‘ کچھ عرصہ قبل سندھ کی مختلف قوم پرست پارٹیاں سندھ کے مختلف شہروں میں احتجاجی جلوس بھی نکالتی رہی ہیںاور مختلف مقامات پر بڑے بڑے جلسے بھی منعقد کرتی رہی ہیں‘ جبکہ سندھ کی اکثر بار ایسوسی ایشنز الگ اجلاس کرکے نگراں حکومت کے اس قسم کے اقدامات کے خلاف سخت قراردادیں بھی منظور کررہی ہیں اور سخت بیان بھی جاری کئے جارہے ہیں‘ قانونی اور آئینی ماہرین کا کہنا ہے کہ سندھ کی قوم پرست تنظیموں‘ اکابرین اور قانونی و آئینی ماہرین کا سب سے بڑااعتراض یہ ہے کہ موجودہ نگراں حکومت سندھ کی ہزاروں ایکڑ زمین کچھ نام نہاد کمپنیوں کے حوالے کررہی ہے۔ قانونی اور آئینی ماہرین کا موقف ہے کہ نگراں حکومت فقط ملک میں انتخابات کرانے کی ذمہ دار ہے‘ وہ دیگر معاملات کو چھیڑ بھی نہیں سکتی‘ سندھ کے قانونی اور آئینی ماہرین کے نزدیک نگراں حکومت کی یہ ’’Move ‘‘ آئین کی کھلم کھلا خلاف ورزی اور سندھ صوبے کے حقوق ہضم کرنے کی کارروائی آئین کے آرٹیکل 142(C) کی خلاف ورزی ہے‘ میں یہاں آئین کا یہ آرٹیکل یہاں اصل شکل میں پیش کررہا ہوں تاکہ ملک بھر کے عوام اس کا جائزہ لے سکیں۔

Article (c) : Subject to paragraph (b), a Provincial Assembly shall, and Majlis-e-Shoora (Parliament) shall not, have power to make laws with respect to any matter not enumerated in the Federal Legislative List.”.

اس آرٹیکل میں کہا گیا ہے کہ : ’’اس آرٹیکل کے پیراگراف (بی) کے تحت کوئی بھی معاملہ جو قانون سازی کی وفاقی لسٹ میں شامل نہیں ہے اس کے بارے میں صوبائی اسمبلی تو قانون سازی کرسکتی ہے جبکہ مجلس شوریٰ پارلیمنٹ کو یہ اختیار نہیں ہے۔‘‘ اس سلسلے میں مجھے دادو ضلع کی بار ایسوسی ایشن کی طرف سے اس سلسلے میں پاس کی گئی قرارداد موصول ہوئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ سندھ کی نگراں حکومت کی طرف سے کارپوریٹ فارمنگ کے لئے جو 520713ایکڑ زمین کارپوریٹ سیکٹر کو الاٹ کی گئی ہے وہ غیر قانونی ہے‘ اسی دوران 15دسمبر کو سندھ کی ایک ممتاز پارٹی عوامی تحریک کی طرف سے حیدرآباد میں سندھ کی مختلف قوم پرست پارٹیوں اور دانشوروں کی ایک مشترکہ کانفرنس منعقد کی گئی جس میں اس ایشو پر ایک مشترکہ بیان جاری کیا گیا جس کے مطابق سندھ کی زمینیں ’’کارپوریٹ فارمنگ‘‘ اور ’’زرعی انقلاب‘‘ کے تحت وفاقی حکومت (نگراں حکومت) کے حوالے کی گئی ہے وہ نگراں حکومت کی طرف سے سندھ کی سا لمیت پر ایک حملہ ہے‘ اس مشترکہ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ یہ موو شروع کرنے کا مقصد سندھ کی زمینوں اور وسائل پرغیر آئینی اور غیر قانونی طریقے سےقبضہ کرنا ہے‘ سندھ کی قوم پرست پارٹیوں کے اس مشترکہ اجلاس میں پاس کی گئی اس مشترکہ قرارداد کے ذریعے اب تک اس طرح جو زمینیں نام نہاد کمپنیوں کے حوالے کی گئی ہیں یا کی جارہی ہیں ان کے کافی اعداد و شمار دیئے گئے ہیں‘ ان اعداد و شمار کے مطابق اب تک سندھ کی 103 ملین ایکڑ زمین ان نام نہاد کمپنیوں کو الاٹ کی گئی ہے اس کا بریک اپ یہ ہے کہ ٹنڈو محمد خان ضلع کی 1290 ایکڑ‘ دادو کے کچے کے علاقے کی 67651 ایکڑ‘ جوہی کی 44651 ایکڑ‘ سجاول کی 13700 ایکڑ‘ جاتی کی 6900 ایکڑ‘ شاہ بندر کی 6800 ایکڑ‘ بدین کی 528 ایکڑ‘ گولارچی کی 2941 ایکڑ‘ ماتلی کی 299 ایکڑ‘ ٹنڈو باگو کی 224 ایکڑ‘ تلہار کی 67 ایکڑ‘ تھر پارکر کی 10000 ایکڑ، یہ ساری زمینیں حیدرآباد ڈویژن میں ہیں جبکہ 0.3ملین ایکڑ زمین بے نظیر آباد‘ سانگھڑ‘ خیرپور‘ اچھڑو‘ تھر‘ سکھر اور سندھ کے دیگر علاقوں سے ان کمپنیوں کے حوالے کی گئی ہے یا کی جارہی ہے‘ اس مشترکہ بیان میں مزید انکشاف کیا گیا ہے کہ ابتدائی طور پر 52713ایکڑ سندھ کی اور دیگر صوبوں کی ہزاروں ایکڑ زمین پرائیوٹ کمپنیوں اور کچھ دیگر فرموں کے حوالے کی گئی ہے۔ اس مرحلے پر عوامی تحریک کے سربراہ لال جروار نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ اس سے پہلے بھی سندھ کی زمینوں پر قبضہ کیا گیا ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ یہ زمینیں واپس متاثرین کے حوالے کی جائیں اور اس قسم کے قبضوں کے ذمہ دار انصاف کے سامنے لائےجائیں۔

اس مرحلے پر سندھ کے دانشور جامی چانڈیو نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ سندھ کی یہ زمینیںغیرملکی کمپنیوں کے حوالے کی جاتی ہوئی نظر آرہی ہیں۔ سابق طالب علم رہنما اور دانشور مسعود نورانی نے کہا کہ جب تک سندھ میں جاگیر داری نظام ہے ان حرکتوں کو روکا نہیں جاسکتا۔ دریں اثناء اس سلسلے میں کچھ مزید حقائق بھی سامنے آئے ہیں‘ ایک اہم انکشاف یہ ہے کہ 2007 ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی طرف سے زمین پر مقامی باشندوں کے حقوق کو بنیادی انسانی حق تسلیم کیا ہے اور اس حق کو انسانی حقوق کی قراردار میں شامل کیا گیا تھا۔ اسکےمالک اس علاقے کے باشندے ہیں اور ان کا ثقافتی حق بھی ہے‘ سندھ کے کچھ دانشوروں نے نگراں حکومت کے ان اقدامات کو ا فسوسناک قرار دیا ہے۔

تازہ ترین