• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بھارت ’’بدمعاش ہاتھی‘‘ ہے، سب کو سُونڈیں مارتا ہے

بات چیت: منور راجپوت

ڈاکٹر جنید احمد معاشی امور کے ماہر ہونے کے ساتھ ،عالمی معاملات پر بھی گہری نظر رکھتے ہیں۔ وسیع المطالعہ ہیں، پھر مشاہدے اور تجزئیے کی صلاحیت سے بھی مالا مال ہیں۔ سرکاری اور نجی شعبے کو کنسلٹنسی فراہم کرتے ہیں، تو لکھنے لکھانے کا بھی سلسلہ جاری ہے۔اُن کی اب تک 9کتابیں شایع ہوچُکی ہیں اور سب ہی کو بہت پذیرائی ملی۔گزشتہ دنوں اُن کے ساتھ ایک خصوصی نشست ہوئی، جس کا احوال جنگ،’’ سنڈے میگزین‘‘ کے قارئین کی نذر ہے۔

س: سب سے پہلے تو اپنی تعلیم، کیرئیر وغیرہ سے متعلق کچھ بتائیے؟

ج: مَیں نے بی کام گورنمنٹ کالج آف کامرس اینڈ اکنامکس، کراچی سے کیا۔ پھر کینیڈا چلا گیا۔ بی کام اور ایم بی اے Concordia یونی ورسٹی سے، جب کہ ایم اے اکنامکس McGillیونی ورسٹی سے کیا اور اسی سے فنانس اینڈ پالیسی میں ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کی۔ 

بعدازاں، کینیڈا میں صنعتی ماہر کے طور پر کئی اہم عُہدوں پر خدمات سرانجام دیں۔ 1986ء میں’’نیشنل مینجمنٹ کنسلٹنٹس، پرائیویٹ لمیٹڈ‘‘ قائم کی اور یوں گزشتہ36 برسوں سے اس ادارے کا چیئرمین ہوں۔اب تک1400سے زاید کنسلٹنگ اسائمنٹس کر چُکا ہوں، جب کہ سرکاری اور پرائیویٹ سیکٹر کو 200سے زاید پراجیکٹس میں معاونت بھی فراہم کی۔

س: اب تک کتنی کتب لکھ چُکے ہیں اور ان کا کن موضوعات سے تعلق ہے؟

ج: میری9 کتابیں شایع ہوچُکی ہیں۔اولیول کے طلبہ کے لیے’’ Text book on commerce‘‘ لکھی، جسے آکسفورڈ یونی ورسٹی پریس نے شایع کیا۔عوام کی مذہبی رہنمائی کے لیے ’’موضوعاتِ قرآن‘‘ کے نام سے ایک کتاب ترتیب دی۔ پھر’’ Creation of Bangladesh Myths Exploded‘‘ کے عنوان سے کتاب لکھی، جس کا’’ بنگلا دیش کی تخلیق کا سانحہ اور حقائق‘‘ کے نام سے اردو میں ترجمہ ہوا۔’’India an apartheid state‘‘ لکھی، جس کا ’’بھارت، جہاں نہ کوئی سَر اُٹھا کے چلے‘‘ کے عنوان سے اردو میں ترجمہ ہوا۔نیز، اس کے چینی، عربی اور روسی زبان میں بھی تراجم ہوئے۔

اگلی کتاب’’ Ganga to Pulwama ,Indias false flag operations‘‘ تحریر کی، جس میں بھارت کی اُن کارروائیوں کا ذکر ہے، جنھیں وہ پاکستان کے سر تھوپتا رہا ہے۔ جیسے جنوری 1971ء میں گنگا جہاز کے اغوا کا واقعہ ہوا، جس کی آڑ میں بھارت نے پاکستان کے لیے اپنی فضائی حدود بند کردی اور پاکستان اپنے مشرقی حصّے سے کٹ گیا۔اس کتاب میں تمام حوالہ جات بھارت ہی سے لیے گئے ہیں۔تازہ کتاب ’’China leads‘‘کے نام سے ہے، جس میں چین کی کام یابیوں کا جائزہ لیا گیا ہے۔

نمایندہ جنگ سے بات چیت کرتے ہوئے عکّاسی: شعیب احمد
نمایندہ جنگ سے بات چیت کرتے ہوئے عکّاسی: شعیب احمد

س: آپ کی تحقیق کے مطابق سقوطِ ڈھاکا کا ذمّے دار کون ہے؟

ج: یہ بات درست ہے کہ شیخ مجیب الرحمان اور ذوالفقار علی بھٹّو سیاسی محاذ پر سرگرم تھے، مگر سوال یہ ہے کہ فیصلے کون کر رہا تھا؟سب کو علم ہے کہ فیصلے جنرل یحییٰ خان کر رہا تھا، تو پھر ذمّے داری بھی اُن ہی پر عاید ہوتی ہے۔ پاک فوج وہاں بہت اچھا لڑی، صرف تین ڈویژن فوج نے بھارت کی20ڈویژن فوج کو سرحدوں پر روکے رکھا، مگر بعد میں فوجیوں کو ایک سازش کے ذریعے ہتھیار پھینکے پر مجبور کیا گیا۔نیز، بھارتی مداخلت بھی مشرقی پاکستان کی علیٰحدگی کا ایک بڑا سبب بنی۔

س: ایک رائے یہ ہے کہ دونوں حصّوں کا اتحاد ہی غیر فطری تھا، دونوں کے درمیان سیکڑوں کلومیٹر کا فاصلہ تھا اور درمیان میں ایک دشمن مُلک تھا، ایسے میں چاہتے ہوئے بھی دونوں ایک ساتھ نہ رہ پاتے؟

ج: نہیں، یہ درست رائے نہیں ہے۔ وہ اکثریت یعنی56 فی صد تھے۔ کبھی دنیا میں ایسا ہوا کہ کسی مُلک سے اکثریتی قوم ہی کو باہر نکال دیا جائے۔قیامِ پاکستان میں بھی سب سے اہم کردار بنگال ہی کا تھا، اس کے مقابلے میں موجودہ پاکستان میں شامل علاقوں کا کردار تو بہت ہی معمولی سا تھا۔

پاکستان کے موجودہ صوبوں میں تو پہلے بھی مسلمانوں ہی کی اکثریت تھی، اِسی لیے اُنھیں اُس طرح کے مسائل کا سامنا نہیں تھا، جو ہندوستان کے باقی علاقوں کے اقلیتی مسلمانوں کو درپیش تھے۔انگریزوں نے بنگال کے ساتھ بہت زیادتیاں کی تھیں، اِس لیے وہاں اُن کے خلاف ردّ ِعمل بھی زیادہ تھا۔اگر ہمارے ہاں درست فیصلے کیے جاتے، تو کوئی وجہ نہیں تھی کہ مُلک کے دونوں حصّے ایک ساتھ نہ رہ پاتے۔

س: آپ نے اپنی کتاب میں کِن بنیادوں پر یہ رائے قائم کی کہ بھارت ایک انتہا پسند ریاست ہے؟

ج: بہت سادہ سی وجہ ہے۔ وہاں80فی صد لوگوں کو تو زندہ رہنے تک کا حق حاصل نہیں۔مسلمانوں، سِکھوں، عیسائیوں اور نچلی ذات کے ہندوؤں کو روزانہ ظلم و تشدّد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔اُن کے خلاف یہ کارروائیاں 1947ء سے جاری ہیں۔ بھارت کا نظریہ وہی ہے، جو اسرائیل کا ہے۔ بی جے پی، جو کئی برسوں سے اقتدار میں ہے، اِسی نظرئیے کے تحت قائم کی گئی ۔

س: مگر اِس کے باوجود بھارت ترقّی بھی کر رہا ہے؟
ج:
یہ بات یہاں تک تو درست ہے کہ وہ پچھلے پانچ چھے سالوں سے سات کے گروتھ ریٹ کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے، مگر تصویر کا دوسرا رُخ بھی نظروں میں رہنا ضروری ہے۔اور وہ یہ کہ وہاں اب بھی400 ملین سے زاید لوگ غربت کی لکیر سے نیچے ہیں، ساٹھ فی صد عوام کو صاف پانی تک میسّر نہیں،275 ملین لوگ اپنے گھروں سے محروم ہیں، ایسے میں بھارت کا یہ دعویٰ کہ وہ ترقّی میں چین کی ہم سَری کر رہا ہے، حقائق کے سراسر منافی ہے۔ اُس نے کچھ سڑکیں اور پورٹس ضرور بنالی ہیں، مگر غربت کا کیا، کیا؟کسی مُلک کے لیے سب سے اہم بات یہ ہوتی ہے کہ وہاں امیر اور غریب میں کتنا فرق ہے، جب کہ بھارت کا سب سے بڑا رونا یہی فرق ہے، جو بہت زیادہ ہے۔

س: بھارت سے متعلق آپ کی دوسری کتاب کے مطالعے سے یہ تاثر قائم ہوتا ہے کہ وہ اپنے پڑوسیوں کے ساتھ پُرامن طور پر نہیں رہنا چاہتا، آخر اُس نے یہ رویّہ کیوں اختیار کر رکھا ہے؟

ج: اِس سوچ کے پیچھے’’ اکھنڈ بھارت‘‘ کا تصوّر ہے، جس کے مطابق پڑوسی ممالک کو قائم رہنے کا کوئی حق حاصل نہیں۔اِسی لیے بھارت نے بھوٹان پر تسلّط قائم کیا، نیپال کو مسلسل تنگ کرتا چلا آ رہا ہے۔ سری لنکا میں 25 برسوں تک تامل ٹائیگرز کے ذریعے خانہ جنگی کروائی، پاکستان کو توڑا۔بھارت دراصل’’ rogue elephant‘‘(بدمعاش ہاتھی) ہے، اِسی لیے یہ سب کو سونڈیں مارتا ہے۔

س: تو پھر خطّے میں امن کیسے ہوسکتا ہے؟

ج: بھارت کو سمجھ لینا چاہیے کہ دوسرے ممالک کو بھی رہنے کا حق ہے۔کلبھوشن جیسے دہشت گردوں کی پرورش یا بلوچستان جیسی مداخلتیں جاری رہیں، تو خطّے میں امن نہیں ہوسکے گا۔وہ چین کا تو کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ چین نے اُس سے کئی علاقے لے لیے، مگر وہ اس کے سامنے چوں بھی نہیں کرسکتا۔ البتہ باقی ممالک میں مداخلت سے باز نہیں آتا۔

س: چین سے متعلق نئی کتاب میں کن پہلوؤں کا احاطہ کیا ہے؟

ج: مَیں نے چین کی چند چیزوں سے متاثر ہو کر یہ کتاب لکھی ہے۔ایک تو یہ کہ چینی سِولائزیشن ساڑھے پانچ ہزار سال پرانی ہے،جو اب تک قائم و دوائم ہے، حالاں کہ باقی قدیم تہذیبیں، جیسے انڈس ویلی یا بابل وغیرہ کی تہذیب، اب موجود نہیں ہیں۔اِسی طرح باقی قدیم تہذیبوں کی زبانیں معدوم ہوچُکی ہیں، جب کہ چینی زبان اب تک موجود ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ چینی تہذیب میں ساڑھے پانچ ہزار سال کی حکمت اور علم و تجربات موجود ہیں۔ 

ان پانچ ہزار برسوں میں چین نے کبھی کسی مُلک پر حملہ نہیں کیا۔اس کے برعکس، چین پر منگولوں، منچورین، انگریزوں، فرانسیسیوں، جاپانیوں، امریکیوں، جرمنوں سمیت بہت سے ممالک نے حملے کیے۔پھر یہ کہ چین میں کبھی غلامی نہیں رہی۔ اِس ساری عقل و حکمت کا نچوڑ یہ ہے کہ ایک دوسرے کو فوائد پہنچانے کے لیے باہمی روابط قائم کیے جائیں۔

چین نے اِسی سوچ کے تحت دس برس قبل بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کا آغاز کیا اور اس عرصے میں150 ممالک میں1.3 ٹریلین ڈالرز کی سرمایہ کاری کی۔ان ممالک میں سے صرف ایک مُلک ایسا ہے، جہاں چینی سرمایہ کاری کے وہ ثمرات سامنے نہ آسکے، جس کی توقّع کی جارہی تھی اور وہ مُلک ہے، پاکستان۔دراصل یہاں کی حکومتیں اپنی ذمّے داریاں نبھانے میں بُری طرح ناکام رہیں۔ دوسری طرف امریکا اور اُس کے حامی 1946ء سے لے کر 2022ء تک دنیا میں محض100 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کرسکے۔

س: کیا اِس پس منظر میں پاکستان، چین سے کچھ سیکھ سکتا ہے؟

ج: پاکستان کے سیکھنے کی بات یہ ہے کہ چین نے1.2 بلین لوگوں میں سے اپنے80کروڑ لوگوں کو غربت سے کیسے نکالا۔ 15برسوں میں شرحِ خواندگی 100 فی صد تک کیسے پہنچائی۔ 1998ء تک شنگھائی اور بیجنگ اپنے گوجرانوالہ کی طرح تھے، اب کہاں سے کہاں پہنچ گئے۔ مَیں 1986ء میں پہلی بار بیجنگ گیا، تو وہاں ٹیکسی کا گھنٹوں انتظار کرنا پڑتا۔

کوئی فائیو اسٹار ہوٹل نہیں تھا۔ایسے ہوٹلز میں ٹھہرنا پڑتا،جہاں کمروں کے ساتھ ٹوائلٹس تک نہیں ہوتے تھے۔ پاکستان کو چین سے یہ سیکھنے کی ضرورت ہے کہ حکومت کیسے کی جاتی ہے، بدعنوانیوں پر کیسے قابو پایا جاسکتا ہے اور یہ کیسے یقینی بنایا جاسکتا ہے کہ آپ کی توجّہ ترقّی ہی پر مرکوز رہے۔

س: چین کی ترقّی کا بنیادی راز کیا ہے؟

ج: اپنے مُلک سے وفاداری اور دیانت دار قیادت۔جب ماؤزے تنگ نے 1949ء میں چین کو سنبھالا، اُس وقت وہ پاکستان سے بہت پیچھے تھا۔اُسے پچھلے ڈیڑھ سو سال میں تباہ کردیا گیا تھا، آٹھ، دس ممالک نے مل کر اُسے لُوٹا تھا۔اس کی بندرگاہیں مختلف ممالک کے پاس گروی تھیں،یہاں تک کہ ہانگ کانگ بھی ایک سو سال کے لیے برطانیہ نے لے لیا تھا، ہر طرف غربت تھی۔ مَیں نے بیجنگ کی سڑکوں کو اس حال میں دیکھا، جیسے اندرونِ سندھ ہوتی ہیں، یعنی انتہائی خستہ۔ایک فیکٹری دیکھنے کے لیے جانا پڑا، جو محض ایک سو کلومیٹر دُور تھی، مگر وہاں تک پہنچنے میں18گھنٹے لگ گئے۔

مگر دوسری طرف اسی چین نے 1964ء میں کسی کی مدد کے بغیر ایٹم بم بنالیا۔2022ء میں چین میں اسٹیل کی پیداوار 1100ملین ٹن رہی، دوسرے نمبر پر بھارت رہا، جس نے محض100 ملین ٹن اسٹیل پروڈیوس کیا،یعنی پورے ایک ہزار ملین ٹن کا فرق۔جب کہ امریکا سمیت پوری دنیا نے مل کر550 ملین ٹن اسٹیل بنایا۔معاشی سرگرمیوں میں اسٹیل کی پیداوار کی کیا اہمیت ہے، اس سے سب ہی واقف ہیں۔

چین نے کووِڈ کے دَوران 1040پانی کے جہاز بنائے،جب کہ دنیا 340 جہاز بنا سکی۔ دنیا کے 80 فی صد موبائل فونز بھی وہیں بن رہے ہیں۔آٹو موبائل انڈسٹری اور وائٹ گُڈز میں بھی وہ سب سے آگے ہے۔چین کا روڈ نیٹ ورک دنیا میں سب سے بڑا ہے۔ شنگھائی اور بیجنگ کے درمیان چلنے والی بُلٹ ٹرین 40 ہزار کلو میٹر کا فاصلہ طے کرتی ہے، جس میں کارگو کی بھی سہولت ہے۔

س: وہاں جمہوریت ہے، نہ عوامی آزادی، جب کہ چین کے مقابلے میں مغرب میں معیارِ زندگی اب بھی بلند ہے۔ نیز، تعلیم میں بھی امریکا اور یورپ ہی آگے ہیں؟

ج: یہ سب امریکا کا پروپیگنڈا ہے۔چین میں باقی دنیا سے الگ جمہوریت کا ماڈل ہے، جو میرے خیال میں بہترین ہے۔ وہاں پہلے گاؤں کی سطح پر الیکشن لڑنا پڑتا ہے، پھر شہر، ضلعے اور صوبے میں کام یابی حاصل کرنی پڑتی ہے، پھر کہیں جاکر نیشنل پولٹ بیورو میں جگہ بنتی ہے اور ان تمام پوزیشنز پر سخت مقابلے ہوتے ہیں۔

گاؤں سے اِس اعلیٰ ترین فورم تک پہنچنے میں25 سے30 سال لگ جاتے ہیں۔جہاں تک عوام کے معیارِ زندگی کی بات ہے، تو چین میں عوام کو یورپ سے زیادہ سہولتیں حاصل ہیں۔یونی ورسٹیز کی رینکنگ مغربی ممالک کے ادارے کرتے ہیں، تو وہ خود ہی کو آگے رکھیں گے۔سوال یہ ہے کہ اگر وہ اِتنے ہی عقل مند تھے، تو ہر میدان میں چین سے پیچھے کیوں رہ گئے۔

س: مگر ہر شخص امریکا اور یورپ ہی منتقل ہونا چاہتا ہے، چین جانے کے خواہش مند تو بہت ہی کم ہیں؟

ج: چین کی آبادی سوا ارب سے زاید ہے، اِس لیے اُس نے خود کو زیادہ نہیں کھولا۔ نیز، اُس کا ڈومیسٹک ٹورازم ہی اِتنا ہے کہ اُسے باقی دنیا کی ضرورت ہی نہیں۔

س: چین اپنی ترقّی میں باقی ممالک کو بھی شامل کرتا ہے، پاکستان اس کا حصّہ کیوں نہیں بن پا رہا؟

ج: یہاں ایسے بے مقصد منصوبے لگوانے کو ترجیح دی جاتی ہے، جن کے نتیجے میں ہمیں زیادہ سے زیادہ مال سمیٹنے کا موقع مل سکے۔ہمارے ہاں امریکی مفادات کا بھی زیادہ خیال رکھا جاتا ہے۔ سو، ہمیں بہرحال امریکی کیمپ سے نکلنا ہوگا۔