پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں خوراک، صحت اور تعلیم جیسے بنیادی شعبے بے بسی کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔اگر تعلیم کی بات کی جائے تو بہت سے ملکوں کے مقابلے میں جہاں اس کی شرح میں اضافہ دیکھا گیا ہے ،وطن عزیز میں بدقسمتی سے صورتحال اس کے برعکس ہے۔چار سال قبل کے اعدادوشمار کے مطابق ملک میں اسکول جانے سے محروم بچوں کی تعداد ڈیڑھ کروڑ کے لگ بھگ تھی، وفاقی وزارت تعلیم کے ذیلی ادارے پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ایجوکیشن کی یونیسکو کے تعاون سے تیار کی گئی حالیہ رپورٹ میں یہ تعداد دوکروڑ 62لاکھ بتائی گئی ہے ۔رپورٹ کے مطابق پنجاب میں ایک کروڑ 11لاکھ ،سندھ 76لاکھ ،خیبرپختونخوا36لاکھ ،بلوچستان 31لاکھ جبکہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں 80ہزار بچے اسکول جانے سے محروم ہیں۔یہ صورتحال وفاقی و صوبائی حکومتوں ،بالخصوص ان سیاسی جماعتوں کیلئے لمحہ فکریہ ہے جو تعلیم عام کرنے کا نعرہ لگاتی ہیں اور بعض ماضی میں قوم کے غریب نونہالوں کو بے فیض چھوڑ کر رخصت ہوئیں۔بھاری بھرکم بجٹ مختص کرکے مفت تعلیم دینے کے منصوبے بھی شروع کیے گئے جن کانتیجہ بعد میں بھوت اسکولوںکے سوا کچھ سامنے نہ آیا۔دوسری طرف 1980ءکی دہائی سے لے کر آج تک ملک کر کونے کونے میں لاکھوں نجی اسکول قائم ہوچکے ہیں جنھیں وفاقی و صوبائی حکومتوں کی طرف سے 10فیصد غریب بچوں کو مفت تعلیم دینے کی ہدایات ہیں۔ تعلیم کیلئے مطلوبہ بجٹ مختص نہ کرسکنا ماضی میں ہر حکومت کی مجبوری چلی آئی ہے تاہم ایسے بہت سے متبادل اقدامات اٹھائے جاسکتے ہیں جن پر خلوص نیت سے عمل درآمد کراتے ہوئے غریب بچوں کیلئے مفت تعلیم کا اہتمام ہوسکتا ہے۔8فروری کے بعد بننے والی حکومت کوصورتحال کا ادراک کرتے ہوئے یہ ذمہ داری بہ احسن و خوبی پوری کرنی چاہئے۔
اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998