• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ملک میں الیکشن کی سرگرمیاں جاری تھیں کہ 15جنوری کو بلوچستان لبریشن آرمی (BLA) اور بلوچستان لبریشن فرنٹ (BLF) نے ایران کے صوبہ سیستان بلوچستان سے پاکستان کے سرحدی علاقے پر میزائل حملہ کیا جس پر پاکستان نے سخت احتجاج کرتے ہوئے ایرانی سفیر کو پاکستان آنے سے روک دیا اور ایران سے اپنا سفیر واپس بلالیا۔دو دن بعد پاک فوج نے ایران میں دہشت گردوں کے خفیہ ٹھکانوں پر ڈرون، میزائل، جنگی طیاروں اور دیگر جدید ہتھیاروں سے نہایت ماہرانہ طریقے سے نپے تلے انداز میں جوابی کارروائی کی اور BLA اور BLF کے مطلوب دہشت گردوں دوستا عرف چیئرمین، بجار عرف سوغات، ساحل عرف شفیق، اصغر عرف بشام اور وزیر عرف وازی کو کیفر کردار تک پہنچایا جس پر میں پاک افواج کی اعلیٰ قیادت اور خفیہ ایجنسیوں کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ فوج کے جوابی حملے کو پورے پاکستان میں سراہا گیا جس نے خطے میں ایک واضح پیغام دیا کہ ملکی سلامتی اور خود مختاری پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا اور پاکستان کی مسلح افواج دہشت گردوں سے نمٹنے کی پیشہ وارانہ صلاحیت رکھتی ہیں۔ پاکستان کے جوابی حملے میں صرف دہشت گرد مارے گئے جبکہ عام شہری محفوظ رہے جس کا اعتراف خود ایرانی حکومت نے کیا کہ حملے میں مارے جانے والے تمام افراد غیر ملکی تھے جس کے بعد دونوں ممالک نے حالات کو دوبارہ نارمل کرنے کیلئے سفیروں کو واپس بلالیا جبکہ کشیدگی میں بھی کمی آئی ہے اور پاک ایران بین الاقوامی فلائٹس اپنے روٹس پر دوبارہ بحال ہوگئی ہیں جو ایک خوش آئند قدم اور دونوں ممالک کے سربراہان مملکت کی سیاسی اور سفارتی پختگی کو ظاہر کرتا ہے۔ اس موقع پر میں چین اور ترکی کے مصالحتی کردار کو بھی سراہتا ہوں۔

ایران ہمارا ہمسایہ ملک ہے اور ایران پاکستان کے درمیان 900کلومیٹر طویل سرحد ہے جس کے دونوں طرف بلوچ قبائل آباد ہیں۔ ایران کی سرحد سے ملحقہ بلوچستان کا ضلع پنجگور صوبائی دارالحکومت کوئٹہ سے صرف 520 کلومیٹر دور واقع ہے جس کی مجموعی آبادی 5 لاکھ نفوس پر مشتمل ہے ، پنجگور کے 90 فیصد لوگوں کا بڑا ذریعہ معاش پاکستان اور ایران کے درمیان غیر رسمی تجارت ،اسمگلنگ پر ہے ۔ یہاں کے لوگ ایرانی پیٹرول اور ڈیزل خفیہ راستوں سے بلوچستان لاتے ہیں جہاں سے اسے ملک بھر میں سپلائی کیا جاتا ہے۔ پاکستان اور ایران کے درمیان رسمی تجارت پنجگور، مند، واشک اور گوادر کے زمینی راستوں کے ذریعے ہوتی ہے۔ پاکستان اور ایران کی باہمی تجارت تقریباً ایک ارب ڈالر ہے جس میں پاکستان کی ایران کو ایکسپورٹ 22ملین ڈالرز اور ایران کی پاکستان کو ایکسپورٹ 837 ملین ڈالر ہے۔ گزشتہ سال اگست میں اسلام آباد میں اس وقت کے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے ایرانی ہم منصب حسین امیر کے ساتھ آزاد تجارتی معاہدے (FTA) کو حتمی شکل دینے کیلئے 5 سالہ2023-28تجارتی تعاون منصوبہ تیار کیا تھا جس کی رو سے دونوں ممالک کے مابین تجارتی ہدف 5ارب ڈالر رکھا گیا ہے۔ اس موقع پر ایرانی وزیر خارجہ نے پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے کی تکمیل پر زور دیتے ہوئے کہا تھا کہ یہ منصوبہ دونوں ممالک کے مفاد میں ہے۔ پاکستان نے 13جون 2010 کو ایران کے ساتھ 25سال کیلئے GSPA معاہدہ کیا تھا جس کی رو سے دسمبر 2014 تک ایرانی سرحد سے نوابشاہ تک گیس پائپ لائن بچھانا تھی ۔ ایران نے 2011میں اپنی جنوبی گیس فیلڈ سے گیس سپلائی کیلئے 960 کلومیٹر گیس پائپ لائن بچھا دی ہے اور اب پاکستان کو اپنے حصے کی صرف 300کلومیٹر پائپ لائن بچھانا ہے جس سے پاکستان کو یومیہ 750ملین کیوبک فٹ گیس ملے گی لیکن ایران پر امریکہ اور اقوام متحدہ کی اقتصادی پابندیوں کے باعث یہ منصوبہ مکمل نہ کیا جاسکا۔ معاہدے کی رو سے منصوبہ مکمل نہ ہونے کی صورت میں جنوری 2015سے پاکستان کو یومیہ ایک ملین ڈالر جرمانہ ادا کرنا تھا جو 2023تک 18ارب ڈالر بنتے ہیں۔ پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے میں تاخیر پر ایران نے پاکستان کو ثالثی عدالت لے جانے کا نوٹس بھیجا تھا لیکن ستمبر 2019میں پاکستان نے نیشنل ایرانی گیس کمپنی کے ساتھ ایک نظرثانی معاہدے کے تحت دونوں ممالک نے اس بات پر اتفاق کیا کہ مارچ 2024 تک کوئی فریق جرمانے کیلئے عالمی عدالت نہیں جائے گا۔ قومی اسمبلی کی خارجہ کمیٹی نے ہدایت دی تھی کہ وہ جرمانے سے بچنے کیلئے امریکی سفیر سے پاک ایران گیس منصوبے پر نظرثانی کی بات کریں کیونکہ یہ معاہدہ امریکہ کی ایران پر اقتصادی پابندیوں سے پہلے کیا گیا تھا۔

پاکستان اور ایران میں تجارت کا بڑا مسئلہ دونوں ممالک میں بینکنگ چینل کا نہ ہونا ہے۔ آفیشل ٹریڈ کے فروغ کیلئے دونوں ممالک میں جلد از جلد بینکنگ چینل قائم کرنا ضروری ہے۔ پاکستان، ایران، افغانستان اور روس کرنسی لین دین کے بجائے اشیاء کی لین دین یعنی بارٹر تجارت پر متفق ہوئے ہیں۔ ایران، پاکستان کو آئرن، اسٹیل، کیمیکل اور پیٹرولیم مصنوعات جبکہ پاکستان، ایران کو باسمتی چاول، ٹیکسٹائل اور دیگر مصنوعات کی مال کے بدلے مال تجارت کرسکتا ہے۔ پاکستان، ایران سے 104میگاواٹ بجلی بھی خرید رہا ہے جبکہ گوادر کیلئے 100میگاواٹ بجلی کا ایک نیا معاہدہ کیا گیا ہے۔ ایران ہمارا پڑوسی اسلامی ملک ہے جس سے تجارت بڑھانے کے بے پناہ مواقع موجود ہیں۔ دونوں ممالک کو چاہئے کہ وہ اپنے ملک سے دہشت گردوں کی سرحد پار تخریبی کارروائیاں روکیں۔ اس کے علاوہ ہمیں اپنے معاشی مفادات کے تحفظ کیلئے پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے کو جلد از جلد پایہ تکمیل تک پہنچا کر دونوں پڑوسی ممالک کے مابین اعتماد کی فضا بحال کرنا ہوگی۔

تازہ ترین