• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کڑاکے کی سردی اور گہری دھند کے عمیق اندھیر میں دو ہفتوں کی انتخابی مہم ٹھٹھر کر رہ گئی ہے۔جاڑے کے مارے لوگ گھروں میں دبکے اُپلے جلا کر سیاست سے بیزاری کا اظہار کررہے ہیں۔عوام کے جو حالات میں نے دیکھے ہیں وہ بہت ہی رونگٹے کھڑے کردینے والے ہیں۔ پینے کا صاف پانی ہے، نہ نکاسی آب، روزگار ہے نہ خوشحالی، تقریباً ساٹھ فیصد لوگ خط غربت تلے زندگی گزار رہے ہیں۔ انہیں دلچسپی ہے تو صرف اپنے اپنے مسئلوں سے جو میونسپل حکومتوں کے دائرہ کار میں آتے ہیں جنہیں پنپنے ہی نہیں دیا گیا۔ جو غربت و افلاس میں نے دیکھی ہے وہ ناقابل بیان ہے۔ قومی سیاست کی تقسیم کا مقامی طور پر بس اتنا اثر ہے کہ پارٹیوں کے نامزد اُمیدوار پارٹیوں کے حلقہ اثر سے مستفید ہونے کے باوجود مقامی گروہ بندیوں کی بنیاد پر پارٹیوں سے ماورا مقامی اتحاد بنا رہے ہیں۔

سب سے زیادہ کھچائو پارٹیوں کے قومی و صوبائی اسمبلیوں کے بے میل امیدواروں میں ہے۔ اب ایک ہفتہ بچا ہے، سوائے پیپلز پارٹی کے کسی کی زور دار انتخابی مہم ابھی بس شروع ہوا چاہتی ہے۔ بلاول بھٹو نے تو اپنا دس نکاتی عوامی ایجنڈا دے دیا ہے، جبکہ ن لیگ ابھی اپنے منشور کے انڈوں پہ بیٹھی ہے۔ تحریک انصاف اور اسکی مرکزی قیادت کو انتہائی نا مساعد حالات کا سامنا ہے۔ انہیں انتخابی مہم کی آزادی ہے، نہ کوئی مساوی مواقع میسر ہیں۔ اسکا منشور بس ایک نکاتی ہے اور وہ عمران خان کی ذات سے منسلک ہے۔ پنجاب میں تو پی ٹی آئی کو زبردست سرکاری مخاصمت کا سامنا ہے، جبکہ اسکی حریف ن لیگ انتخاب لڑے بنا کامیابی کے پرچم لہراتی نظر آتی ہے۔ پی پی پی نے پنجاب میں دیر سے انٹری ڈالی ہے، وہ بھی الیکٹ ایبلز کے محدود حلقوں میں۔ لیکن بلاول بھٹو نے زور دار طریقے سے اینٹی شریف بیانیہ دیا ہے اور وہ پی ٹی آئی کی ہمدردی حاصل کرنے کی جستجو میںہے۔لیکن تحریک انصاف کے کارکنوں کا عمرانی دیوانوں کا حصہ بس خان کے اشارے پر کھمبے کو ووٹ ڈالنے کو تیار ہے لیکن انکی تعداد محدود ہے۔ زیادہ تر حلقوں میں پی ٹی آئی مقامی گروہ بندیوں کی لپیٹ میں ہے اور پارٹی ٹکٹوں کی بے اصولی تقسیم سے کارکن مایوس نظر آتے ہیں۔ لگتا ہے کہ اس بار بھی پی ٹی آئی کا انحصار الیکٹ ایبلز پر رہاہے جو پارٹی سے زیادہ اسکی مقبولیت کو کیش کرانے میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔ ان میں سے کتنے حلف کے باوجود پارٹی کے ساتھ رہیں گے کچھ کہا نہیں جاسکتا۔دوسری طرف ن لیگ نے امیدواروں کے چنائو میں آزمائے ہوؤں کو میدان میں اتارا ہے، جن میں زیادہ تر کے خلاف عوامی جذبات پائے جاتے ہیں، خاص طور پہ شہباز حکومت کی معاشی عدم کارکردگی اسکے لئےباعث ندامت بنی ہوئی ہے۔سوائے چوتھی بار وزیراعظم بننے کے نواز شریف کے پاس کوئی بیانیہ ہے نہ عوامی پروگرام۔ انکے پاس بس اینٹ سریے یاہائی ویز کا حوالہ ہے، سماجی خدمات انکے اقتصادی نظرئیے سے خارج ہیں۔ بجلی کے منصوبوں کا تو ذکر ہی چھوڑئیے کہ لوگ بھاری بجلی کے بھرکم بلوں کو پیٹ رہے ہیں اور توانائی کا خسارہ ہے کہ اب 5700 ارب روپے ہوچلا ہے۔

سندھ میں انتخابی مہم بہت پہلے سے شروع کی گئی ہے اور پی پی پی کے خلاف جو بڑا محاذ کھڑا کرنے کی کوشش کی گئی وہ کھڑا ہونے سے پہلے ہی بیٹھ گیا۔ ایم کیو ایم الطاف حسین کے بغیر کوئی بہت متاثر کن مہم چلا نہیں پارہی جبکہ جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی مہاجر ووٹوں کو تقسیم کریں گی۔ سب سے زوردار مزاحمتی مہم تحریک انصاف خیبر پختون خوا میں چلارہی ہے اور اسکے بڑے حریف جمعیت علمائے اسلام (ف)، عوامی نیشنل پارٹی، پی پی پی اور ن لیگ باہم منقسم ہیں۔ اگر عمران خان نے انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان نہ کیا تو پی ٹی آئی اس صوبے میں برتری حاصل کرسکتی ہے۔بلوچستان میں تو لگتا ہے کہ حق رائے دہی کبھی کی رخصت ہوچکی ہے۔بس سردار ہیں یا رجواڑے جو مہرے بن کر عوام کی نمائندگی کا بوجھ اُٹھانے کو تیار نہیں۔

مجموعی طور پہ یوں لگتا ہے کہ ن لیگ پنجاب میں حاوی رہے گی کہ اسکی بڑی حریف جماعت پی ٹی آئی کو دیوار میں چُن دیا گیا ہے، جس کی وجہ سے انتخابی مہم میں کوئی زیادہ جوش و خروش نظر نہیں آرہا۔ گہما گہمی سندھ اور پختون خوا میں ہے۔ سیاسی مہم کا جو سب سے مایوس کن پہلوہے وہ یہ کہ دیہات اور قصبوں میں پارٹیوں کے وڈیرے عوامی سیاسی مہم ہی نہیں چلاتے، بلکہ مقامی گٹھ جوڑ تک محدود رہتے ہیں۔ دوسری خرابی پیسے کا بے تحاشہ استعمال ہے۔ کروڑوں نہیں اربوں روپے خرچ کئےجارہے ہیں۔ جاگیردار اور نو دولتیے سرمایہ دار امیدواروں کا بینرز اور گاڑیوں کے جلوسوں کا مقابلہ ہے کوئی سیاسی مناظرہ ہے نہ منشور۔ ووٹوں کی خریداری کا کاروبار عروج پہ ہے۔

ایسے میں ٹیلی وژن مباحثوں اور انتخابی حلقوں کی برادریوں کی بنیاد پر اور گزشتہ انتخابات کے شماریاتی تجزیوں پہ کُلی انحصار دیکھ سن کر حیران ہوتا ہوں جن کا زمینی حقائق اور عوامی جذبات سے دور دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا۔ انتخابات کی رپورٹنگ بھی بہت سطحی ہے۔ رائے عامہ کے جائزوں سے بھی لگتا ہے کہ وہ معروضی نہیں نہ سائنٹیفک ہیں۔ جو بنیادی بات ہے وہ یہ کہ پاکستان کی تاریخ میں قبل ازانتخابات کی پولیٹکل انجینئرنگ جس پیمانے پہ اس بار ہورہی ہے پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آئی۔ اسکے نتائج سیاسی استحکام کی بجائے انارکی اور عوامی بد اعتمادی کو بڑھائیں گے۔ لوگوں کی بڑی اکثریت کا عدم شفافیت کے باعث انتخابات پر اعتماد تو تقریباً اُٹھ گیا ہے۔ رہی سہی کسر 8 فروری کو پوری ہوجائے گی۔ سب سے بڑا سوال اب یہ ہے کہ کیا عمران خان اس یکطرفہ انتخابی عمل میں شامل رہیں گے جس کے نتائج سے وہ پہلے سے ہی آگاہ ہیں۔ اور اگر عمران خان نے انتخابات کا بائیکاٹ کردیا تو انکا کیا اخلاقی جواز بچ رہے گا اور اسکا ووٹر ٹرن آئوٹ پہ بڑا ہی منفی اثر پڑے گا۔ آگے دیکھتے ہیں اس مخدوش انتخابی صورت حال سے کیا کیا برآمد ہوتا ہے؟

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین