موسم کا تعلق آب و ہوا سے ہوتا ہے مگر آجکل سیاست سے ہے۔ تمام کاروباری، سماجی اور سیاحتی سرگرمیاں سیاسی صورتِ حال سے متاثر دکھائی دیتی ہیں۔ ریڑھی والا ہو یا بڑا تاجر یا پھر کوئی صنعت کار سب کے سب اس موسم کی زد میں ہیں ۔ موسم کی صورتِ حال یہ ہے کے نہ گرجتا ہے نہ برستا ہے بس سب کو متاثر کئے جا رہا ہے۔ اس وقت سب کے اعصاب پر موجودہ صورتِحال سوار ہے اس کیفیت کا نام چند دنوں بعد ہونے والے الیکشن 2024 ہیں ۔
پہلا سوال جو سب کے ذہن میں آجکل چل رہا ہے وہ یہ ہے کے الیکشن ہوں گے کہ نہیں ؟ ہوں گے تو شفاف ہوں گے یا نہیں ؟ ووٹ کتنے پڑیں گے؟ یہ پہلا الیکشن ہے جو اپنے انعقاد سے پہلے ہی متنازع ہو چکا ہے۔ پاکستان کی تاریخ ایسے متنازع الیکشنزسے بھری پڑی ہے ۔ وہ فاطمہ جنا ح بمقابلہ ایوب خان ہو ، پی پی پی بمقابلہ پی این اے ہو ، 1988پی پی پی بمقابلہآئی جے آئی ہو ، دوبارہ 1990 میں پی پی پی بمقابلہ آئی جے آئی ،1993میں بے نظیربمقابلہ نواز شریف ہو یا 1997میں نون لیگ بمقابلہ تمام سیاسی جماعتیں ہوں ۔2002 کا الیکشن آمر کی نگرانی میں ہوا اس پر بحث لا حاصل ہے ۔ بے نظیر کی شہادت کے بعد 2008کا الیکشن بھی متنارع ہی رہا 3013کا الیکشن بھی بہت سی کہانیاں سمیٹے ہوئے ہے ۔ اسی طرح 2018کا الیکشن بھی نتیجے سے پہلے ہی متنازع ہوگیا تھا ۔ سب الیکشن متنازع ہوے مگر الیکشن ہونے کے بعد۔ یہ فروری 2024 کا الیکشن پہلے ہی متنازع ہو چکا ہے۔ گمان یہ ہے کے اس الیکشن کے نتیجے میں انتہائی کمزور حکومت تشکیل پائے گی ۔ جو اپنی بقاء کی جنگ لڑتی رہے گی ۔ اتحادیوں کی بلیک میلنگ کے سامنے بے بس ہو گی ۔ عوام کیا فیصلہ کریں گے ؟ کیا فیصلہ ساز عوام کو فیصلہ کرنے دیں گے؟
اس وقت ماضی کے تجربوں کی روشنی میں ہمیں ایسی قیادت کی ضرورت ہے جو پہلے بھی ڈیلیور کر چکی ہو مزید تجربوں کی اب گنجائش نہیں نہ وقت ہے ۔ ملک اورقوم جذبات سے نہیں بلکہ مستحکم قیادت کی وجہ سے ترقی کرتے ہیں۔ عوام کو یکجہتی کی ضرورت ہے ۔ عوام کو بھی سنجیدگی اور تحقیق کی ضرورت ہے صرف نعروں ،جذبات اوربنا تحقیق کے بیانات سے اجتناب کرنا ہوگا ۔ قومی اور بین الاقوامی رائے عامہ ہمیں خبر دار کر رہی ہے جسطرح 1969میں خبر دار کیا گیا تھا اور اُس وقت ہم نے کوئی سبق نہیں سیکھا تھا۔ ماضی سے سبق سیکھنے اور علم اور عقل کی روشنی میں بہتر فیصلے کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
سب سے سے بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ کوئی بھی سیاسی جماعت اس وقت ملک کے حقیقی مسائل پر بات نہیں کر رہی ۔ اس وقت ایک اہم مسئلہ جو پاکستان کے مستقبل کے سامنے ہوگا وہ ہے اس ملک کا قابل جوان اور پڑھا لکھا ذہن ،جو ملک چھوڑنے کی بات کرتا ہے اور پچھلے چند سال اور خاص کر گزشتہ چند ماہ میں نہ صرف مخیر حضرات اپنا پیسہ ملک سے باہر بھیج چکے ہیں بلکہ اپنے قابل اورذہن جوان بھی ملک چھوڑ کر جا رہے ہیں جسکی طرف آنے والی حکومت کو توجہ دینی ہو گی ۔ایسے چلتا رہا تو ملک کا نقصان ہوگا، باقی تو پھر صرف وہ لوگ رہ جائیں گے جو حکومت کیلئے بوجھ ہیں ؟ اول تو ہماری نئی نسل کو ملک کی اہمیت ، اداروں کی اہمیت، ملک کی سالمیت کے ادرے اوران کی اہمیت اجاگر کرناہوگی ۔ چندہ ماہ پہلے ملک سے باہر گئی تو پاکستانیوں کے منہ سے اپنے ادروں کے لیے واشگاف الفاظ میں بنا تحقیق کے خرافات سن کر بہت دکھ ہوا ،میں خود زندگی کے بیشتر سال بیرون ملک مقیم رہی مگر کبھی ملک کی سالمیت کے خلاف کوئی کام نہیں کیا اور نہ ہی کوئی لفظ ادا کیا ۔ اوورسیز پاکستانی ہمارا فخر ہیں پاکستان کے لیے ان کا درد ، پیار اور خاص طور پر ان کے ذریعے جو زرمبادلہ ملک کی معیشت کو ملتا ہے وہ قابل سائش ہے ،اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ پاکستان کے سفیربھی ہیں،پاکستان کے ادروں کی عزت خاص کر جب ہم ملک سے باہر ہوں ہمارا اولین فرص ہے ۔ اس بات کا نہ صرف احساس دلانا ہے بلکہ ایسے موقع بھی فراہم کرنے ہیں کے ہماری نئی نسل ملک پر انحصار کرے ۔
ملک اس وقت اس نہج پر ہے جہاں اکثر افراد پاکستان سے بھاگنا چاہتے ہیں۔ یہ ایک بہت بڑا المیہ ہے جس پر کسی سیاسی جماعت کی توجہ نہیں ، نہ کوئی اس بارے میں بات کر رہا ہے ! اس غیر یقینی کی کیفیت کاختم کرنا ہو گا ۔ ہمیں ایک تجربہ کار قیادت کی ضرورت ہے جو سیکھنے میں وقت برباد نہ کرے بلکہ تیز رفتاری سے ملکی مسائل اور معاشی بحران کا حل نکالے اور عوام کا اعتبار بحال کرے۔