طارق جمیل میر
سر زمینِ لالہ و گُل، کشمیر ،جنّت نظیر ایک ایسا مردم خیز خطّہ ہے، جس نے نام وَر، مقتدر علما، فضلا اور صوفیائے کرام کو جنم دیا اور ان نابغۂ روزگار شخصیات نے صرف شعر و ادب کے گلستان ہی کی آب یاری نہیں کی ،بلکہ مُلک و ملّت کے لیے بھی ناقابلِ فراموش خدمات انجام دیں۔ نیز اپنے جاں بخش ، رُوح پرور نغمات سے وادیٔ کشمیر کی فردوس صفت فضائوں کی دِل کشی وسحر آفرینی میں بھی اضافہ کیا۔ بد قسمتی سے ریاست جمّوں و کشمیر کے وہ ادبا، جنہوں نے تحریکِ آزادیٔ کشمیر کے پس منظر میں کشمیری تہذیب و تمدّن کو اپنے رشحاتِ قلم سے اُجاگر کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا، ہمیشہ قعرِ گُم نامی میں رہے۔
ایسے ادیبوں کی ایک طویل صف آسمانِ ادب پر کہکشاں کی طرح مزیّن ہے، لیکن نہ تو کسی آنکھ نے اُن کی تابانیاں محسوس کیں اور نہ کسی لب کو ان کی خدمات کے اعتراف کی توفیق ہوئی۔ تحریکِ آزادیٔ کشمیر کے ان قلم بردار سپاہیوں سے جو اغماض برتا گیا، اُس کی ایک نمایاں وجہ غالباً یہ نظر آتی ہے کہ تحریکِ آزادیٔ کشمیر کے سلسلے میں سیاسی عوامل باقی پہلوئوں پر اس حد تک حاوی ہیں کہ علمی و ادبی محاذ پر اس سلسلے میں جو گراں قدر خدمات انجام دی گئیں، وہ غیر محسوس طور پر پس منظر میں جاتے جاتے نظروں ہی سے اوجھل ہو گئیں۔
مہجورؔ اور آزادؔ کے بعد آنے والے ایسے تمام ادبا اور شعرا، جو کشمیر کی تحریکِ آزادی سے وابستہ ہوئے اور جنہوں نے اپنے قلم کو اس مقصد کے لیے وقف کیا، ان کے بارے میں آج تک نہ کچھ لکھا گیا اور نہ ہی کچھ کیا گیا۔ اس طرح بے شمار قلم کار اور ادیب ہم سے متعارف نہ ہو سکے۔ اس پر طُرّہ یہ کہ ہمارے ہاں ثقافتی مجالس کا فقدان ایسے اصحاب کو منظرِ عام پر لانے میں بھی مانع رہا ہے۔
تحریکِ آزادیٔ کشمیر کے اِن ہی گُم نام ہیروز میں علاّمہ میر غلام احمد کشفی مرحوم بھی شامل ہیں، جو اپنی باکمال تحاریر کے سبب ایک قد آور شخصیت کے رُوپ میں ہمارے سامنے آتے ہیں۔ انہوں نے شاعری سے لے کر سیاست تک ہر موضوع پر قلم اُٹھایا اور ہمیں زندگی کے نِت نئے گوشوں سے رُوشناس کروایا۔ میر غلام احمد کشفی مفسّرِ قرآن ہونے کے علاوہ درجن بھر کُتب کے مصنّف تھے، جن میں ریفرنس بُک، ’’کشمیر ہمارا ہے‘‘ اور کشمیری زبان پر ایک مبسوط کاوش بھی شامل ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے تقریباً تین ہزار مضامین بھی لکھے، جو انہیں مُلکی تاریخ میں ایک ممتاز مقام عطا کرنے کے لیے کافی ہیں۔
علاّمہ کشفی نے تحریکِ پاکستان میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لیا اور پھر ریاست جمّوں و کشمیر سے ہجرت کر کے پاکستان آگئے۔ تاہم، اُن کے دل میں موجزن آزادی کی تڑپ نے اُنہیں آرام سے نہ بیٹھنے دیا اور وہ کسی ایسے ذریعے کی جستجو میں رہے کہ جس سے وہ اپنے سینے میں سلگتی چنگاری کو شعلۂ جوّالا بنا کر دوسروں کو بھی اس کی روشنی میں آزادی کی لذّت سے رُوشناس کروا سکیں۔ بالآخر اُن کی کوششیں رنگ لے آئیں اور اُنہیں ریڈیو آزاد کشمیر کی کی صورت ایک وسیلہ مل گیا، جس سے وابستہ ہو کر اُنہوں نے ایک طویل عرصے تک اپنے قلم کو آزادیٔ وطن کے نصب العین کی خاطر استعمال کیا۔ انہوں نے اپنی پوری زندگی اپنی سرزمین اور ادب کے لیے وقف کر دی۔
علاّمہ کشفی اردو کے علاوہ کشمیری زبان میں بھی بہت عُمدہ لکھتے تھے۔ اُن کے کشمیری زبان میں لکھے گئے نغمے کشمیری عوام کے جذباتِ آزادی کی ترجمانی کے ساتھ پاکستان کے ساتھ ریاست کے الحاق کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ یہ نغمے آزاد کشمیر کے تینوں ریڈیو اسٹیشنز سے وقتاً فوقتاً نشر ہوتے رہتے ہیں اور انہیں اپنی افادیت اور موزونیت کی وجہ سے کشمیری مسلمانوں میں قبولیت عامّہ کا درجہ حاصل ہے۔ علاوہ ازیں، یہ نغمے کشمیری شاعری میں نِت نئے رُحجانات اور انقلابی خیالات کی عکّاسی بھی کرتے ہیں۔ ان نغمات میں آزادی کی رُوح نمایاں ہے۔ آزادی… جو رُوح کا نغمہ بھی ہے اور مضرابِ ربابِ فطرت بھی۔
علامہ کشفی مرحوم کی ایک تصنیف، ’’حرم کے پاسبان‘‘ 1966ء میں بھارتی حکومت نے ضبط کر لی تھی، جب کہ 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران انہوں نے صوتی محاذ پر قابلِ قدر خدمات انجام دیں اور تحریکِ آزادی اور تحریکِ الحاق پاکستان کے لیے شب وروز کام کیا۔ علاّمہ کشفی ریاست جمّوں و کشمیر میں اردو زبان کے اوّلین علم برداروں میں شامل ہیں اور ان کا مرتّب کردہ نصاب ایک طویل عرصے تک ریاست کے اسکولز میں رائج رہا۔ علاّمہ کی ان کاوشوں کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ تحریکِ آزادیٔ کشمیر کے سلسلے میں اُن کی خدمات اور قلمی جہاد ناقابلِ فراموش ہے۔