• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سرطان یا کینسر کا لفظ سُنتے ہی جسم پر جُھرجھری سی طاری ہوجاتی ہے کہ یہ لفظ ایک بہت ہی خطرناک بیماری کے طور پر جانا جاتا ہے۔ جو شخص اِس مرض کا شکار ہو، وہی بہتر جانتا ہے کہ اُسے کتنی تکلیف اور پریشانی سے گزرنا پڑتا ہے۔پھر یہ کہ صرف مریض ہی نہیں، اُس کے اہلِ خانہ اور دیگر متعلقہ افراد بھی سخت اذیّت سے دوچار ہوتے ہیں۔گو کہ سرطان ایک قابلِ علاج مرض ہے، تاہم اِس کے لیے ضروری ہے کہ اس کی تشخیص ابتدائی مرحلے پر ہو۔ 

اگر تشخیص میں تاخیر ہو جائے، علاج مکمل نہ ہو سکے یا علاج کے دَوران سرطان کا پھیلاؤ جاری رہے، تو ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ یہ مرض لاعلاج ہو جاتا ہے۔ اور یہ ایسا موقع ہوتا ہے، جب مریض اور اُس کے اہلِ خانہ کے ساتھ ڈاکٹرز کو بھی نہایت مشکل صُورتِ حال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس موقعے پر مریض کو’’ Palliative care ‘‘( سکون آور دیکھ بھال) کی ضرورت ہوتی ہے۔ طبّی اصطلاح میں یہ وہ علاج ہے، جو ایسے مریضوں کو مہیّا کیا جاتا ہے، جو انتہائی مہلک اور لاعلاج بیماریوں میں مبتلا ہوتے ہیں۔ 

اس کے ذریعے مریض کا رہن سہن بہتر بنانے اور اس کی تکلیف کم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ نیز، اُسے پُرسکون رکھنے کے لیے زیادہ سے زیادہ اسباب مہیّا کیے جاتے ہیں۔ اِس طرزِ علاج میں کثیر الجہتی طبّی عملہ شامل ہوتا ہے، جس میں ڈاکٹر کے علاوہ نرسز، ذہنی امراض کے ماہر، غذائی ماہر، فزیو تھراپسٹ اور فارماسسٹ شامل ہوتے ہیں۔ یہ تمام لوگ مل کر مریض کی نگرانی اور اُس کا علاج معالجہ کرتے ہیں۔ مریض کو اِس حالت میں کئی طرح کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جن میں درد، سانس لینے میں دشواری، متلی، گھبراہٹ، بے چینی اور ڈیپریشن جیسے عمومی مسائل شامل ہیں۔ 

یہ طبّی ٹیم ہر زاویے سے نہ صرف مریض کی تمام ضروریات کا خیال رکھتی ہے بلکہ اُس کے اہلِ خانہ سے بھی علاج معالجہ یقینی بنانے کے لیے تعاون حاصل کرتی ہے تاکہ ایک بہترین طریقۂ علاج اختیار کر کے اُسے زیادہ سے زیادہ سکون اور آرام مہیّا کیا جا سکے۔اگر سرطان آخری اسٹیج پرپہنچ جائے، تو پھر علاج کے لیے توجّہ ایک دوسرے زاویے پر منتقل کر دی جاتی ہے۔ اِس لیے کہ جب تک یہ ابتدائی مرحلے میں ہوتا ہے، تو علاج کے لیے ادویہ، کیمو تھراپی اور شعائیں استعمال کی جاتی ہیں، لیکن جیسے جیسے یہ ایڈوانس اسٹیج کی طرف بڑھتا ہے، تو یہ قابلِ علاج نہیں رہتا۔ 

ایسی صُورت میں کوئی دوسرا طریقۂ علاج اختیار کرنے سے مریض کو ہونے والی زحمت اور تکلیف سے بچانے کے لیے ایسے حالات پیدا کرنے پر توجّہ مرکوز کی جاتی ہے، جن میں مریض کو زیادہ سے زیادہ پُرسکون رکھا جائے اور تکلیف کی شدّت کم سے کم کی جاسکے۔ اِس مقصد کے لیے ڈاکٹرز کے مشورے اور نرسز کی سپورٹ کے ساتھ مریض کو گھر ہی میں رکھنا بہترہوتا ہے۔ اِس مرحلے پر مریض کو وینٹی لیٹر پر ڈالنا، ٹیسٹ کرنا، بجلی کے جھٹکے لگانا یا ٹیوبز ڈالنا، وہ سارے طریقہ ہائے علاج ہیں، جو مریض کے لیے فائدہ مند نہیں ہوتے، بلکہ اُس کے لیے زیادہ تکلیف کا باعث بنتے ہیں۔اِسی لیے ایڈوانس اسٹیج پر کسی palliative care کے ماہر کی زیرِ نگرانی تمام ترعلاج معالجہ گھر ہی میں مہیّا کیا جاتا ہے۔

ڈاکٹرز اور نرسز گھر آ کر معائنہ کرتے ہیں اور اہلِ خانہ کو پوری رہنمائی اور ادویہ کی مکمل تفصیل فراہم کرتے ہیں تاکہ مختلف علامات کی صُورت میں متعلقہ دوا مریض کو دی جا سکے۔ اگر ایک دوا اثر نہ کرے، تو اس کا متبادل بھی تجویز کر دیا جاتا ہے۔ اس طریقۂ علاج کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ مریض کو اللہ تعالیٰ نے جتنی بھی زندگی دی ہے، وہ اپنے گھر والوں کے ساتھ ہی گزار سکے اوراسی طرح گھر والے بھی اس کی خدمت کر کے اور اس کا خیال رکھ کر نہ صرف اللہ تعالیٰ کے اجر کے مستحق ہوتے ہیں بلکہ اُنہیں اسپتال کے مقابلے میں زیادہ بہتر طور پر اپنے مریض کا خیال رکھنے کا موقع ملتا ہے۔ ایک اہم سوال یہ ہے کہ کوئی مریض یا اُس کے اہلِ خانہ اِس سروس کو کس طرح حاصل کر سکتے ہیں؟

اِس طریقۂ علاج سے متعلق ہمیں سب سے پہلے یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ یہ صرف سرطان کی آخری اسٹیج کے لیے نہیں ہوتا۔ البتہ جب کینسر کی تشخیص ہو اور مریض کا علاج شروع ہو جائے، تو Palliative care بھی اُسی کے ساتھ شروع ہو جانی چاہیے کہ اس طرح بہت بہتر نتائج سامنے آتے ہیں۔ مثال کے طور پر کیموتھراپی کے باعث بہت سی پیچیدگیاں رُونما ہوتی ہیں اور اس کے سائیڈ ایفیکٹس بھی سامنے آتے ہیں، لیکن Palliative care کے ساتھ ان پیچیدگیوں کو بہت آسانی سے کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔اِس اعتبار سے علاج اور Palliative care ساتھ ساتھ چل سکتے ہیں اور اس کے نتیجے میں بہتری کے امکانات بھی زیادہ ہو سکتے ہیں۔

اِس طریقۂ علاج کے تین درجے ہیں۔Basic Palliative care ،Intermediate Palliative care اور Specialist Palliative care۔ پہلے درجے میں مریض کی دیکھ بھال کا بنیادی علم ہر طبّی کارکن اور مریض کے گھر والوں کو ضرور ہونا چاہیے، جس میں ادویہ کی معلومات اور اُن کی مقدار کا علم شامل ہے۔ مثال کے طور پر اگر مریض کو بخار ہے، تو اُسے کون سی دوا دینی ہے، درد کی صُورت میں کس دوا سے فوری آرام آسکتا ہے اور کون کون سی ادویہ متبادل کے طور پر استعمال کی جا سکتی ہیں۔ دوسرے درجے میں اسپیشلسٹ ڈاکٹر کا کردار بڑھ جاتا ہے۔

اگرچہ وہ ہمہ وقتی Palliative care نہیں کرتے، لیکن ضرورت پڑنے پر مریضوں اور اُن کے گھر والوں کو بہت اچھے طریقے سے معاونت فراہم کر سکتے ہیں۔ عمومی طور پر ان اسپیشلسٹس میں آنکوجسٹ، جنرل پریکٹیشنرز، ماہر انٹرنل میڈیسن، ماہر فیملی میڈیسن، ماہر ایمرجینسی میڈیسن شامل ہوتے ہیں۔ چوں کہ ان ماہرین کا ایسے مریضوں کے علاج معالجے میں بہت زیادہ عمل دخل ہوتا ہے، اِس لیے Intermediate Palliative care یہ اسپیشلسٹس ہی مہیّا کرتے ہیں۔ تیسرے درجے کی Palliative care وہ اسپیشلسٹ ڈاکٹر یا اُن کی ٹیم کرتی ہے، جن کی مہارت بنیادی طور پر اِسی شعبے میں ہوتی ہے۔

اِس مرحلے پر جب مریض بہت ہی زیادہ مشکل میں ہو، تکلیف کی شدّت میں کوئی کمی واقع نہ ہو رہی ہو، تو یہ اسپیشلسٹ ایسے مریض کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔ پاکستان میں اِس وقت اس شعبے کی تربیت حاصل کرنا انتہائی ضروری ہے، بلکہ شعبۂ طب سے وابستہ ہر فرد کو اس کی تربیت حاصل کرنی چاہیے۔ اِس مقصد کے لیے ایم بی بی ایس کی سطح پر Palliative care کو نصاب کا حصّہ بنایا جائے تاکہ ڈاکٹرز جب گریجویشن کر کے نکلیں، تو اُن میں یہ صلاحیت موجود ہو کہ وہ آخری اسٹیج پر آنے والے مریضوں کی تکلیف کم کرنے میں اہم کردار ادا کر سکیں۔ عُمر کا آخری حصّہ ہو یا آخری اسٹیج کی بیماری، اس میں جتنی تکلیف سے کوئی مریض گزرتا ہے، اُتنی ہی تکلیف سے اُس کے گھر والے بھی دوچار ہوتے ہیں۔ 

اس موقعے پر جتنی سپورٹ مریض کو چاہیے ہوتی ہے، اُتنی ہی سپورٹ اُس کے اہلِ خانہ کو بھی درکار ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں جوائنٹ فیملی سسٹم کی خُوبیوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ بیماری کی صُورت میں سب گھر والے ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں کہ یہ کسی ایک کے بس کی بات نہیں ہوتی۔ اِس لیے کہ گھر والے24 گھنٹے اپنے مریض کی خدمت کر رہے ہوتے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ایسی صُورتِ حال میں مریض کے ساتھ ہم دردی اور نرمی کا مظاہرہ کریں۔ اُنہیں تکلیف اور صدمہ دینے والی باتوں اور معاملات سے دُور رکھیں اور سب سے اہم بات یہ کہ اُمید کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں، اللہ تعالیٰ سے حالات میں بہتری کی دُعا کرتے رہیں اور مریض کو بھی اُمید دِلاتے رہیں۔

سرطان کی بیماری اپنے ساتھ بہت سی تکالیف لے کر آتی ہے، جن کا سامنا مریض اور اُس کے گھر والوں کو کرنا پڑتا ہے۔ بالخصوص ایڈوانس اسٹیج میں کینسر کے علاج کے دَوران ایک عُنصر جو کسی بھی مریض کے لیے سب سے زیادہ پریشان کُن ہوتا ہے، وہ درد کی شدّت ہے۔ عمومی طور پر مشاہدہ کیا گیا ہے کہ تیسرے یا چوتھے اسٹیج کے سرطان کے 60سے70 فی صد مریضوں کو شدید درد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ درد سرطان کے مختلف طریقہ ہائے علاج سے ہونے والی پیچیدگیوں کی وجہ سے بھی ہو سکتا ہے، جب کہ کسی بھی دوسری بیماری کے مقابلے میں اس کی شدّت زیادہ ہوتی ہے۔ 

اس درد کے علاج کے لیے Palliative care ماہرین ایک سے زائد ادویہ کا استعمال کرتے ہیں، کیوں کہ اس مرحلے پر کینسر مختلف اعضاء میں پھیلتا ہے۔ یہ بیماری ایک جانب ہڈیوں کو جکڑ لیتی ہے، تو دوسری جانب، نسوں اور جوڑوں تک پھیل جاتی ہے۔ اِس لیے مختلف اعضاء کے لیے مختلف ادویہ استعمال کی جاتی ہیں، جو درد کی شدّت کم کرنے میں مددگار ہوتی ہیں۔تاہم، اِن ادویہ کے استعمال میں ایک عام غلطی یہ کی جاتی ہے کہ ان کا حسبِ ضرورت استعمال کیا جاتا ہے، حالاں کہ یہ ادویہ مستقل استعمال کرنی چاہئیں اور انہیں کسی صُورت تَرک نہیں کرنا چاہیے۔ 

اِس لیے کہ سرطان جسم میں ہمیشہ موجود رہتا ہے اور وقت کے ساتھ اس میں اضافہ بھی ہوتا رہتا ہے۔ یہ بیماری جب بڑھتی ہے، تو درد کی شدّت میں بھی اضافہ ہونے لگتا ہے۔ اس بنا پر تجویز کردہ دوا کا مستقل اور ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق استعمال نہایت ضروری ہے۔ اگر یہ دوا اپنے وقت سے آگے پیچھے ہو جائے، تو مریض کی پریشانی میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ ان ادویہ کے استعمال سے مریض پرغنودگی بھی طاری ہو سکتی ہے۔ بعض اوقات غنودگی کے باعث بھی مریض یا ان کے لواحقین ان ادویہ کو لینے سے گریزاں ہوتے ہیں، لیکن عمومی مشاہدہ ہے کہ ان ادویہ کو باقاعدگی سے استعمال کیا جائے، تو غنودگی کی کیفیت آہستہ آہستہ کم ہو جاتی ہے۔ 

اس کے علاوہ، ڈاکٹر کے مشورے سے درد کی شدّت کے مطابق ان ادویہ کو ایڈجسٹ بھی کیا جا سکتا ہے، جس کے نتیجے میں مریض سکون محسوس کرتا ہے۔ درد کی ادویہ سے متعلق معاشرے میں چند غلط فہمیاں عام ہیں، جیسا کہ ان میں نشہ ہونا، ان کا خطرناک ہونا، جسم کا ان ادویہ کا عادی ہو جانا وغیرہ۔ حالاں کہ ان باتوں کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ۔ ایڈوانس اسٹیج میں درد کم کرنے کے لیے ڈاکٹرز جو بھی ادویہ تجویز کرتے ہیں، اُن کا صرف ایک ہی مقصد ہوتا ہے کہ مریض جس تکلیف کا سامنا کر رہا ہے، اُسے کچھ سکون اور ریلیف مہیّا کیا جا سکے۔ 

یہ ادویہ نہ تو نشے کی طرح ہیں اور نہ ہی ان میں کوئی حرام اجزاء پائے جاتے ہیں، بلکہ تحقیق سے ثابت ہوا کہ یہ ادویہ سرطان کے مریض کو درد کی شدّت میں بہت ریلیف پہنچاتی ہیں۔ تاہم، ان کے کچھ سائیڈ ایفیکٹس بھی ہو سکتے ہیں، جو کسی دوسری دوا کے بھی ہوسکتے ہیں۔ جیسا کہ قبض یا متلی/ الٹی کی کیفیت۔ ان علامات کو دیگر ادویہ کی مدد سے ختم کیا جا سکتا ہے۔ درد کی یہ ادویہ عام دست یاب ہیں اور نہ ہی کوئی عام ڈاکٹرز انہیں تجویز کر سکتا ہے۔ 

اِس ضمن میں حکومتی گائیڈ لائنز موجود ہیں کہ یہ ادویہ وہیں دست یاب ہیں، جہاں سرطان کے مریضوں کا علاج کیا جاتا ہے اور اُنہیں صرف کینسر کا علاج کرنے والے ماہر ڈاکٹر، درد دُور کرنے والے ماہر ڈاکٹر اور بے ہوشی کے ڈاکٹر ہی تجویز کر سکتے ہیں۔ اِس لیے کہ یہ ماہرین ان ادویہ کے سائیڈ ایفیکٹس سے بھی واقف ہوتے ہیں اور ان کی مقدار کو ایڈجسٹ کرنے کی مکمل مہارت بھی رکھتے ہیں۔

اب تک جس درد کی بات کی گئی ہے، وہ جسمانی درد ہے۔تاہم، درد دوسری طرح کا بھی ہو سکتا ہے۔ جیسے ذہنی، نفسیاتی یا روحانی درد۔اس بناء پر جب تک مریض کی صُورتِ حال اور اُس کی تکلیف کو سمجھ کر اُسے دُور نہ کیا جائے، تو محض ادویہ کے استعمال سےدرد میں کوئی نمایاں کمی واقع نہیں ہوسکتی۔تحقیق سے ثابت ہوا کہ ریڈی ایشن کا استعمال بھی درد میں خاطر خواہ کمی لاتا ہے، جب کہ مساج تھراپی یعنی مالش کرنا بھی مریض کے لیے بہت فائدہ مند ہے۔ 

ہم گھروں میں اکثر یہ مشاہدہ کرتے ہیں کہ بزرگوں کی صحت میں اس کا اہم کردار ہے اور حقیقت بھی یہی ہے کہ مالش کسی بھی طرح کے درد میں کمی لانے کا بہت ہی مؤثر ذریعہ ہے۔ اس کے علاوہ جدید دنیا میں کئی نئی چیزیں بھی سامنے آئی ہیں، جن میں Aromatherapy اور Guided imagery وغیرہ شامل ہیں۔ یہ بھی مریض کی ذہنی یک سوئی کو بنیاد بناتے ہوئے درد کی شدّت میں کمی کے لیے استعمال کی جاتی ہیں، پھر یہ کہ بطور مسلمان ہمیں جو بات سب سے زیادہ پُرسکون رکھتی اور ہمارے درد کا مداوا کرتی ہے، وہ اللہ تعالیٰ پر ہمارا مضبوط ایمان ہے۔ ہم قرآن مجید کی تلاوت اور دُعاؤں کے ذریعے اپنے ربّ کے ساتھ تعلق کو مضبوط بناتے ہیں، تو یہ ایمان اوراعتقاد بھی ہمیں سکون فراہم کرتا ہے اور ہمارے ہر طرح کے درد میں کمی کا باعث بنتا ہے۔

(مضمون نگار، اسسٹنٹ پروفیسر ہیں اور آغا خان یونی ورسٹی کے شعبہ آنکولوجی میں Palliative Medicine سیکشن کے بانی، سربراہ ہیں۔نیز، AKU میں پوسٹ گریجویٹ فیلو شپ برائے Palliative Medicine کے پروگرام ڈائریکٹر بھی ہیں)