• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تمام تر خدشات، شکوک و شبہات، تلخیوں اور افواہوں کے باوجود عام انتخابات کا مرحلہ آ پہنچا۔ قوم 8فروری کو ایک بار پھر اپنے نمایندوں کا انتخاب کرنے جا رہی ہے۔ الیکشن کمیشن نے انتظامات مکمل کر لیے ہیں، تو سیاسی جماعتیں اور آزاد اُمیدوار بھی ووٹرز کو اپنے ساتھ ملانے کے لیے سرتوڑ کوششوں میں مصروف ہیں۔ کہیں روایتی مقابلے ہیں، تو کسی حلقے میں غیر متوقّع نتائج کی پیش گوئی کی جا رہی ہے۔آئیے دیکھتے ہیں، اہم انتخابی حلقوں کی کیا صُورتِ حال ہے؟

شریف خاندان کی بھرپور اینٹری

سابق وزیرِ اعظم، میاں محمّد نواز شریف کی وطن واپسی سے جہاں مُلکی سیاست نے نیا رُخ اختیار کیا، وہیں مسلم لیگ نون نے بھی نئی انگڑائی لی، جس کا مظاہرہ 2024ء کے انتخابات میں واضح طور پر ہو رہا ہے۔2018ء کے انتخابات میں زیرِ عتاب رہنے والی اِس جماعت نے 2024ء کے انتخابات میں مُلک بھر سے اپنے اُمیدوار کھڑے کیے ہیں، جب کہ بہت سے حلقوں میں دیگر جماعتوں کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ بھی کی گئی ہے۔ اگر شریف خاندان کی بات کی جائے، تو خاندان کے سربراہ اور مُلک کے تین بار وزیرِ اعظم رہنے والے میاں محمّد نواز شریف دو حلقوں سے اُمیدوار ہیں۔ لاہور سے اُن کے لیے این اے130 کا حلقہ منتخب کیا گیا ہے، جہاں سے وہ پہلے بھی کام یاب ہوتے رہے ہیں۔ 2013ء کے انتخابات میں اُنھوں نے یہاں سے 91666 ووٹس لے کر کام یابی حاصل کی تھی، جب کہ پی ٹی آئی کی ڈاکٹر یاسمین راشد نے 52321 ووٹس حاصل کیے تھے۔

پاناما کیس کے فیصلے کے بعد یہ نشست خالی ہوئی، تو بیگم کلثوم نواز نے یہاں سے ضمنی انتخاب میں حصّہ لیا اور 61745 ووٹس لے کر کام یاب ہوئیں، دوسرے نمبر پر پی ٹی آئی کی ڈاکٹر یاسمین راشد رہیں، جنہوں نے47099 ووٹس حاصل کیے۔2018ء میں یہاں سے مسلم لیگ نون کے وحید عالم خان کام یاب ہوئے، جنھوں نے ایک لاکھ23 ہزار سے زاید ووٹس حاصل کیے، جب کہ ڈاکٹر یاسمین راشد ایک لاکھ، پانچ ہزار ووٹس حاصل کرسکیں۔اب ایک بار پھر ڈاکٹر یاسمین راشد پی ٹی آئی کی حمایت کے ساتھ انتخابی میدان میں موجود ہیں، تاہم وہ اِن دنوں9 مئی کے کیسز میں گرفتار ہیں۔ میاں نواز شریف این اے15 سے بھی امیدوار ہیں۔ 

مانسہرہ کی تحصیل اوگی، دربند اور تناول کے علاوہ ضلع تورغر پر مشتمل یہ حلقہ روایتی طور پر مسلم لیگ نون کا گڑھ ہے، یہاں تک کہ 2013ء اور 2018ء میں پی ٹی آئی کی لہر کے باوجود یہاں سے مسلم لیگ نون ہی کو کام یابی ملی تھی۔ 2013ء میں کیپٹن(ر) محمّد صفدر اعوان یہاں سے منتخب ہوئے تھے۔ پی ٹی آئی کی جانب سے اعظم سواتی نے میاں نواز شریف کے مقابلے کا اعلان کیا تھا، مگر وہ بعدازاں انتخابی دوڑ سے باہر ہوگئے اور اب شہزادہ گستاسف پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدوار کے طور پر حلقے میں موجود ہیں، جنھوں نے کچھ عرصہ قبل ایک پریس کانفرنس میں جمعیت علماء اسلام میں شمولیت کا بھی اعلان کیا تھا۔ 

پاکستان پیپلز پارٹی نے زرگل خان کو ٹکٹ دیا ہے، جو پہلے بھی یہاں سے انتخابات میں حصّہ لیتے رہے ہیں۔ جمعیت علماء اسلام کے مفتی کفایت اللہ بھی ابھی تک میدان میں موجود ہیں، جو مذہبی حلقوں میں بہت مقبول ہیں۔ واضح رہے، اِس علاقے میں اچھا خاصا مذہبی ووٹ ہے۔میاں نواز شریف کی صاحب زادی اور مسلم لیگ نون کی چیف آرگنائزر، مریم نواز بھی پہلی مرتبہ انتخابی میدان میں اُتری ہیں۔ وہ قومی اسمبلی کی ایک اور پنجاب اسمبلی کی دو نشستوں پر اُمیدوار ہیں۔ اُن کے لیے لاہور سے این اے119 کا حلقہ منتخب کیا گیا ہے، جہاں اُن کے مقابلے میں پی ٹی آئی کے گرفتار رہنما میاں عباد فاروق کے بھائی، میاں شہزاد فاروق موجود ہیں، جب کہ پی پی159 پر پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ مہر شرافت اور پی پی80 سرگودھا پر پی ٹی آئی کے حامی وکیل رہنما نعیم پنجوتھا اُن کے مقابلے پر ہیں۔

واضح رہے، سپریم کورٹ نے26 جنوری کو پی ٹی آئی کی اسیر کارکن، صنم جاوید کو بھی انتخابات میں حصّہ لینے کی اجازت دے دی، تاہم کاپی پریس جانے تک اِس ضمن میں کوئی اعلان سامنے نہ آسکا کہ وہ مریم نواز کے مقابلے میں اُمیدوار ہوں گی یا نہیں۔سابق وزیرِ اعظم اور وزیرِ اعلیٰ پنجاب، میاں شہباز شریف لاہور کے حلقے این اے123 کے ساتھ، این اے132 قصور سے بھی الیکشن لڑ رہے ہیں، جہاں اُن کے مقابلے میں پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ سردار حسین ڈوگر میدان میں اُترے ہیں۔ حمزہ شہباز لاہور کے حلقے این اے118 سے اُمیدوار ہیں، جہاں اُن کا مقابلہ پی ٹی آئی کی گرفتار رہنما عالیہ حمزہ ملک سے ہے، جب کہ وہ پی پی147 پر بھی امیدوار ہیں۔

بلاول بھٹّو کی سندھ میں دل چسپی، تو پنجاب پر بھی نظریں 

پیپلز پارٹی کے چیئرمین، بلاول بھٹّو زرداری قومی اسمبلی کے تین حلقوں سے اُمیدوار ہیں۔ این اے 194لاڑکانہ پر اُن کا مقابلہ جمعیت علماء اسلام کے صوبائی جنرل سیکریٹری، مولانا راشد محمود سومرو سے ہے، جب کہ این اے 196 قمبر شہدادکوٹ کی نشست پر جے یو آئی کے ناصر محمود سومرو اُن کے مدّ ِمقابل ہیں۔ اِن دونوں بھائیوں کو جی ڈی اے سمیت کئی جماعتوں کی حمایت حاصل ہے۔لاڑکانہ روایتی طور پر پیپلز پارٹی کا گڑھ ہے، مگر وہ یہاں سے صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر شکست بھی کھاتی رہی ہے، البتہ قومی اسمبلی کی نشستیں ہمیشہ اسی کے نام رہی ہیں، اِس لیے اب بھی بلاول بھٹّو اپنے مخالفین سے بہت آگے ہیں۔ 

یہی وجہ ہے کہ پیپلز پارٹی کی لاڑکانہ کی بجائے لاہور پر زیادہ توجّہ مرکوز ہے، جہاں سے این اے 127پر بلاول بھٹو قسمت آزمائی کر رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی لاہور سے اپنے چیئرمین کی جیت کے لیے تمام ممکنہ وسائل استعمال کر رہی ہے اور اِس حوالے سے آصف علی زرداری بھی مسلسل سرگرم ہیں۔ بلاول لاہور سے جیت کر صوبے میں ایک بار پھر اپنی پارٹی کو زندہ کرنا چاہتے ہیں۔2002ء میں اِس حلقے سے پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہرالقادری نے مسلم لیگ ق کے عبدالعلیم خان اور مسلم لیگ نون کے نصیر بھٹہ کو شکست دی تھی۔ 2008 ء میں مسلم لیگ نون کے نصیر بھٹہ نے پیپلزپارٹی کے ڈاکٹر ریاض اور مسلم لیگ ق کے عبدالعلیم خان کو چِت کیا۔ 

2013ء کے انتخابات میں مسلم لیگ نون کے محمّد پرویز ملک نے اِس حلقے سے ایک لاکھ 26 ہزار سے زاید ووٹ لے کر کام یابی حاصل کی، جب کہ اُن کے قریب تر پی ٹی آئی کا امیدوار رہا، جس نے40 ہزار ووٹ لیے، جب کہ پیپلز پارٹی کے اُمیدوار کو محض 3770 ووٹ ملے۔ اُس وقت تک یہ حلقہ این اے123 کہلاتا تھا۔ 2018ء میں اس کا نمبر این اے133 ہوا اور یہاں سے ایک بار پھر پرویز ملک مسلم لیگ نون کے ٹکٹ پر فاتح رہے۔ اُنھوں نے89678 ووٹس لیے، جب کہ پی ٹی آئی کے اعجاز چودھری کو77231ووٹس ملے۔

اِس بار پیپلز پارٹی کے چودھری اسلم گِل کو5585 ملے۔پرویز ملک کے انتقال پر دسمبر 2021ء میں ہونے والے ضمنی انتخاب میں اُن کی بیوہ، شائستہ پرویز ملک مسلم لیگ نون کے ٹکٹ پر کام یاب ہوئیں، جنھوں نے46 ہزار سے زاید ووٹ لیے، جب کہ دوسرے نمبر پر پیپلز پارٹی کے چودھری اسلم گِل رہے،جنھیں32ہزار ووٹ ملے۔تحریکِ انصاف کے اُمیدواروں جمشید چیمہ اور اُن کی اہلیہ کے کاغذاتِ نام زدگی مسترد ہوگئے تھے، جس کی وجہ سے پی ٹی آئی کا کوئی اُمیدوار میدان میں موجود نہیں تھا۔ اِس موقعے پر آصف زرداری نے اپنے بیان میں کہا کہ’’ پیپلز پارٹی نے اس ضمنی الیکشن سے لاہور میں نیا جنم لیا ہے، جو پنجاب میں تبدیلی کا باعث بنے گا۔‘‘ جب کہ مخالفین نے پیپلز پارٹی پر پیسوں کے استعمال کا الزام عاید کیا۔

بہرکیف، یہی وہ رزلٹ ہے، جس کی بنیاد پر بلاول کو یہاں سے لڑانے کا فیصلہ کیا گیا۔اِس حلقے میں عیسائی کمیونٹی کے لگ بھگ 20 ہزار ووٹس ہیں اور پیپلز پارٹی کو اُمید ہے کہ یہ ووٹس اُسے ملیں گے، جب کہ کئی کچّی آبادیاں بھی اِس حلقے کا حصّہ ہیں، جہاں پیپلز پارٹی کافی محنت کر رہی ہے۔ نیز، ڈاکٹر طاہر القادری کی جماعت بھی ایک جلسۂ عام میں اُن کی حمایت کا اعلان کرچُکی ہے۔ مسلم لیگ نون نے یہاں سے اپنے نوجوان اور پُرجوش رہنما، عطاء اللہ تارڑ کو میدان میں اُتارا ہے، جو بھرپور مہم چلا رہے ہیں، جب کہ ملک ظہیر عبّاس کھوکھر پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد اُمیدوار ہیں۔

بلاول بھٹّو کے والد اور پاکستان کے سابق صدر، آصف علی زرداری اپنے آبائی علاقے بے نظیر آباد (نواب شاہ) سے این اے207 پر پیپلز پارٹی کے اُمیدوار ہیں، جب کہ آصف زرداری کی بہن فریال تالپور پی ایس10 لاڑکانہ سے انتخابات میں حصّہ لے رہی ہیں اور اُن کے شوہر میر منور تالپور این اے 212 میرپور خاص سے اُمیدوار ہیں، جہاں اُنھیں آزاد امیدوار اور سابق رُکن قومی اسمبلی سیّد علی نواز شاہ نے ٹف ٹائم دے رکھا ہے۔ آصف زرداری کی دوسری بہن اور سابق صوبائی وزیر عذرا پیچوہو پی ایس36 بے نظیرآباد سے الیکشن لڑ رہی ہیں۔

مولانا فضل الرحمٰن کی بساط

مولانا فضل الرحمٰن مُلک کے سینئر سیاست دان، پی ڈی ایم اور جمعیت علماء اسلام کے سربراہ ہیں، وہ 2024ء کے انتخابات میں قومی اسمبلی کے دو حلقوں سے حصّہ لے رہے ہیں۔خیبر پختون خوا میں اپنے آبائی ضلعے ڈیرہ اسماعیل خان سے قومی اسمبلی کے حلقے این اے44کے علاوہ بلوچستان کے ضلع پشین میں قومی اسمبلی کے حلقے این اے265پر بھی موجود ہیں۔اُنہوں نے1988ء میں انتخابی سیاست میں قدم رکھا اور کئی بار قومی اسمبلی کے رُکن، کشمیر کمیٹی کے سربراہ اور قائدِ حزب اختلاف رہ چُکے ہیں۔ 2018ء کے الیکشن میں مولانا فضل الرحمٰن ڈیرہ اسماعیل خان کے حلقے این اے38 پر پی ٹی آئی کے علی امین گنڈا پور سے35 ہزار ووٹوں سے شکست کھا گئے تھے، جب کہ پڑوسی حلقے این اے39 پر پی ٹی آئی کے محمّد یعقوب شیخ نے اُنھیں تقریباً27 ہزار ووٹس سے ہرایا۔

این اے44 ڈیرہ اسماعیل خان 1997ء سے قبل این اے18 ،2002 ، 2008ء اور2013 میں این اے24 اور2018 ء میں اس حلقے کا نمبر38 تھا۔مولانا فضل الرحمٰن یہاں سے 1988ء، 1993ء،2002 ء اور2013 میں کام یاب ہوئے، تو1990 ء،1997 ء،2008ء اور2018ء میں شکست ہوئی۔ گویا وہ چار مرتبہ جیتے، تو یہاں سے چار ہی بار ہار چُکے ہیں۔اِس حلقے سے اُن کے والد مفتی محمود بھی دو مرتبہ قومی اسمبلی کے رُکن منتخب ہوئے تھے۔ اِس بار بھی اُن کا مقابلہ روایتی حریفوں ہی سے ہے۔ پی ٹی آئی نے علی امین گنڈا پور، جب کہ پیپلز پارٹی نے فیصل کریم کنڈی کو میدان میں اُتارا ہے، جو 2008ء میں اُنھیں شکست دے چُکے ہیں۔

مولانا فضل الرحمٰن نے اِس بار اپنے لیے بلوچستان کا حلقہ این اے265 پشین بھی منتخب کیا ہے۔ یہ حلقہ مختلف تبدیلیوں کے ساتھ این اے 198، این اے261 اور این اے 262بھی کہلاتا رہا ہے۔پشتون کاکڑ قبیلے کی اکثریت پر مشتمل یہ حلقہ ہمیشہ سے جمعیت علماء اسلام کا گڑھ رہا ہے۔یہاں سے چھے بار جے یو آئی اور دو بار محمود خان اچکزئی کے اُمیدوار منتخب ہو چُکے ہیں۔گزشتہ انتخابات میں بھی جے یو آئی نے یہ سیٹ22 ہزار ووٹس کی برتری سے جیتی تھی۔ محمود خان اچکزئی نے بھی یہاں سے کاغذاتِ نام زدگی جمع کروائے تھے، بعدازاں وہ مولانا فضل الرحمٰن کے حق میں دست بردار ہوگئے، جواباً جے یوآئی کا اُمیدوار اُن کے حق میں بیٹھ گیا۔ 

یہاں سے محمود خان اچکزئی سے ناراض گروپ، پشتونخوا نیشنل عوامی پارٹی کے سربراہ اور سابق سینیٹر عثمان کاکڑ کے بیٹے، خوش حال خان کاکڑ بھی امیدوار ہیں، جب کہ پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار سمیت کئی دیگر اُمیدوار بھی قسمت آزمائی کر رہے ہیں۔ پشین سے پچھلے انتخابات میں صوبائی اسمبلی کی تینوں نشستیں جے یو آئی نے جیتی تھیں، اِس پس منظر میں مولانا فضل الرحمٰن کا یہاں سے نہ جیتنا بہت بڑی خبر ہوگی۔ مولانا فضل الرحمٰن کے بڑے بیٹے مولانا اسعد محمود 2018ء کے انتخابات میں کام یابی حاصل کرکے پہلی بار پارلیمان کا حصّہ بنے اور پی ٹی آئی حکومت کے خاتمے کے بعد بننے والی حکومت میں وفاقی وزیرِ مواصلات کا منصب سنبھالا۔ 

وہ اب این اے43 ٹانک کم ڈیرہ اسماعیل خان سے اُمیدوار ہیں، اُن کے مقابلے میں پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ داور کنڈی ہیں، جو 2013ء کے ضمنی انتخابات میں مولانا اسعد محمود کو شکست سے دوچار کرچُکے ہیں۔ مولانا فضل الرحمٰن کے دوسرے صاحب زادے، اسجد محمود این اے41 لکی مروت سے اُمیدوار ہیں، جہاں پی ٹی آئی نے شیر افضل مروت کو میدان میں اُتارا ہے، جو نہایت جارحانہ انتخابی مہم چلا رہے ہیں۔ اِن دونوں حلقوں میں سیف اللہ برادران بھی موجود ہیں، جب کہ کئی دیگر آزاد امیدوار بھی عوام سے ووٹ مانگ رہے ہیں۔

مولانا فضل الرحمٰن کے ایک بھائی مولانا عبیدالرحمان این اے 45 ڈیرہ اسماعیل خان سے اُمیدوار ہیں، جہاں اُن کا مقابلہ پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد اُمیدوار سردار شعیب ناصر خان سے ہوگا۔ مولانا فضل الرحمٰن کے دوسرے بھائی لطف الرحمان خیبر پختون خوا اسمبلی کی نشست پی کے114 ڈیرہ اسماعیل خان پر الیکشن لڑ رہے ہیں۔مولانا فضل الرحمٰن کے ایک سمدھی، حاجی غلام علی اِن دنوں گورنر خیبر پختون خواہ ہیں، تو دوسرے سمدھی، اکرم خان درّانی پی کے100 بنوں سے اُمیدوار ہیں، جب کہ اُن کے صاحب زادے، زاہد اکرم درّانی این اے 39 بنوں پر پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ مولانا نسیم شاہ سے مقابلہ کر رہے ہیں۔ واضح رہے، زاہد درّانی پی ڈی ایم حکومت میں قومی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر کے منصب پر فائز تھے۔

پنجاب میں اُمیدواروں کے دھڑکتے دِل

پاکستان کے دل، لاہور سے جہاں میاں نواز شریف، شہباز شریف، مریم نواز اور بلاول بھٹو جیسے قومی رہنما اُمیدوار ہیں، وہیں دیگر حلقوں میں بھی کئی اہم رہنما اپنی اپنی کام یابی کے لیے متحرّک ہیں۔ این اے128 سے ماضی میں پی ٹی آئی کے شفقت محمود نے دو بار کام یابی حاصل کی اور اِس بار پارٹی نے یہاں سے وکیل رہنما سلمان اکرم راجا کو میدان میں اُتارا ہے، جن سے استحکامِ پاکستان پارٹی کے رہنما عون چودھری مقابلہ کر رہے ہیں۔ مسلم لیگ نون سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے تحت یہاں عون چودھری کی حمایت کر رہی ہے۔یہاں جماعتِ اسلامی کے لیاقت بلوچ بھی مقابلے میں ہیں۔ 

اِسی حلقے کی صوبائی اسمبلی کی ایک نشست پی پی169 پر پی ٹی آئی کے میاں محمود الرشید اُمیدوار ہیں، جو اِن دنوں9 مئی کے کیسز میں گرفتار ہیں۔این اے 122 پر بھی دل چسپ صُورتِ حال ہے، جہاں مسلم لیگ نون کے رہنما خواجہ سعد رفیق، پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ اور معروف وکیل لطیف کھوسہ سے مقابلہ کر رہے ہیں۔لطیف کھوسہ کچھ ہی دنوں قبل پیپلز پارٹی چھوڑ کر پی ٹی آئی کا حصّہ بنے ہیں۔

ایک اور بڑا مقابلہ این اے117 پر دیکھنے میں آ رہا ہے، جہاں استحکامِ پاکستان پارٹی کے رہنما عبدالعلیم خان مسلم لیگ نون کی مدد سے میدان میں اُترے ہیں اور پی ٹی آئی کے علی اعجاز بٹر آزاد حیثیت میں اُن کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ علیم خان پی پی149 پر بھی اُمیدوار ہیں۔ اِسی طرح کا ایک حلقہ این اے129 ہے، جہاں سے پی ٹی آئی کے صوبائی صدر حمّاد اظہر کے کاغذاتِ نام زدگی مسترد ہونے پر اُن کے والد اور سابق گورنر پنجاب، میاں محمّد اظہر اُمیدوار ہیں، جب کہ مسلم لیگ نون کی جانب سے حافظ میاں نعمان اُن کے مقابلے پر ہیں۔

عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد این اے56 سے اپنی جماعت کے نشان قلم دوات پر الیکشن لڑ رہے ہیں، جہاں اُن کا مقابلہ مسلم لیگ نون کے حنیف عباسی اور پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ شہر یار ریاض سے ہو رہا ہے۔ شیخ رشید نے 2018ء کا الیکشن پی ٹی آئی کی حمایت سے جیتا تھا، مگر اِس بار چلّہ کاٹنے کے باوجود پی ٹی آئی نے حمایت سے صاف انکار کرتے ہوئے اُن کے مقابلے میں اپنا امیدوار کھڑا کردیا، جو بھرپور مہم بھی چلا رہا ہے۔ شیخ رشید نے اپنے ویڈیو بیانات میں پی ٹی آئی کے’’ اصلی و نسلی‘‘ ووٹرز سے حمایت کی درخواست کی ہے۔ 

ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ 2018ء کے انتخابات میں ان کے حریف حنیف عباسی جیل میں تھے، تو اِس بار وہ جیل میں ہیں اور یہ بھی معلوم نہیں کہ8 فروری تک اُنھیں رہائی ملتی بھی ہے یا نہیں۔ راول پنڈی کے ایک اور حلقے این اے57 سے شیخ رشید کے بھتیجے شیخ راشد شفیق قلم دوات پر الیکشن لڑ رہے ہیں، یہاں بھی پی ٹی آئی نے حمایت کرنے کی بجائے سیمابیہ طاہر ستی کو اُن کے مقابلے کے لیے کھڑا کیا ہے، جب کہ مسلم لیگ نون کے دانیال چوہدری بھی مقابلے پر ہیں۔ شیخ راشد نے 2018ء میں پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر کام یابی حاصل کی تھی۔ سابق وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خان کی سیاست بھی ایک بڑے بھنور میں پھنسی نظر آ رہی ہے۔ وہ این اے53 سے اُمیدوار ہیں، جہاں پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ کرنل ریٹائرڈ اجمل صابر راجا اور مسلم لیگ نون کے راجا قمر الاسلام اُن کے مقابلے پر موجود ہیں۔

اِسی طرح این اے54 پر استحکامِ پاکستان پارٹی اور مسلم لیگ نون کے مشترکہ امیدوار غلام سرور خان اُن سے مقابلہ کر رہے ہیں،جب کہ ملک تیمور مسعود کی والدہ پی ٹی آئی کی حمایت سے آزاد امیدوار کے طور پر موجود ہیں۔ چوہدری نثار علی خان نے 2018ء کے انتخابات میں قومی اور صوبائی اسمبلی کے دو، دو حلقوں سے آزاد حیثیت میں الیکشن لڑا تھا، لیکن1988 کے بعد پہلی بار قومی اسمبلی میں پہنچنے میں ناکام رہے تھے، البتہ صوبائی اسمبلی کی ایک نشست پر جیت گئے تھے۔ اِس بار پھر وہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں پر آزاد حیثیت میں میدان میں ہیں۔

ملتان کے حلقہ148 میں پیپلز پارٹی کے رہنما اور سابق وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی، مسلم لیگ نون کے احمد حسین دہیڑ اور پی ٹی آئی کے بیرسٹر تیمور ملک کے درمیان مقابلہ ہے۔ احمد حسین دہیڑ پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کے رُکن منتخب ہوئے تھے اور اب شیر کے نشان پر الیکشن لڑ رہے ہیں۔بعض اطلاعات کے مطابق سابق رُکنِ اسمبلی سکندر حیات بوسن اِس نشست پر احمد حسین دہیڑ کا ساتھ دے رہے ہیں، جس سے مقابلہ کافی دل چسپ ہوگیا ہے۔ملتان ہی کے حلقے این اے149 میں ملک عامر ڈوگر پی ٹی آئی کی حمایت سے لڑ رہے ہیں، اُنھوں نے 2018ء میں بھی یہاں سے تحریکِ انصاف کے ٹکٹ پر کام یابی حاصل کی تھی۔

اُن کا مقابلہ مسلم لیگ نون اور استحکامِ پاکستان پارٹی کے مشترکہ امیدوار جہانگیر خان ترین سے ہے۔یہاں سے جاوید ہاشمی بھی آزاد حیثیت میں امیدوار تھے، تاہم بعدازاں وہ عامر ڈوگر کے حق میں دست بردار ہوگئے۔ اِسے ملتان کا ایک بڑا مقابلہ قرار دیا جا رہا ہے۔ جہانگیر ترین این اے 155 لودھراں سے بھی امیدوار ہیں،جہاں مسلم لیگ نون کے صدیق بلوچ اُن کے مدّ ِمقابل ہیں۔یہاں پی ٹی آئی نے پیر اقبال شاہ کو اپنا اُمیدوار بنایا تھا، مگر وہ مقابلے سے دست بردار ہوگئے، جس پر ایڈووکیٹ عفت سومرو کو امیدوار بنایا گیا۔

پی ٹی آئی کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی ملتان سے انتخابات میں حصّہ لیتے رہے ہیں، لیکن اِس بار اُن کے این اے150 ،151 اور پی پی218 سے کاغذاتِ نام زدگی مسترد ہوگئے، جس پر اِن حلقوں سے اُن کی بیٹی مہر بانو اور بیٹا زین قریشی انتخابات میں حصّہ لے رہے ہیں۔ مسلم لیگ نون نے این اے150 پر جاوید اختر انصاری، این اے151 پر عبدالغفار ڈوگر اور پی پی 218 سے سلمان نعیم کو ٹکٹ دیا ہے۔ این اے 151 پر علی موسیٰ گیلانی بھی موجود ہیں۔ یاد رہے، شاہ محمود قریشی کو این اے214 عمرکوٹ سے الیکشن لڑنے کی اجازت مل گئی تھی اور وہ وہاں سے قومی اسمبلی کے امیدوار ہیں۔ اِس حلقے میں اُن کے مریدین کی بڑی تعداد بستی ہے اور وہ پہلے بھی یہاں سے انتخابات میں حصّہ لیتے رہے ہیں۔

2018ء کے انتخابات میں مسلم لیگ نون کے رہنما خواجہ محمّد آصف نے این اے 73 سیال کوٹ سے ایک سخت مقابلے کے بعد فتح حاصل کی تھی۔ اُنھوں نے ایک لاکھ 17 ہزار، جب کہ پی ٹی آئی کے عثمان ڈار نے ایک لاکھ، 15 ہزار، 596 ووٹس حاصل کیے تھے۔ 9 مئی واقعے کے بعد عثمان ڈار نے سیاست چھوڑنے کا اعلان کیا، تو اُن کی والدہ ریحانہ ڈار غیر متوقع طور پر سامنے آئیں اور انتخابات میں خواجہ آصف سے مقابلے کا اعلان کردیا۔ 

اب وہ این اے71 پر پی ٹی آئی کی حمایت سے الیکشن لڑ رہی ہیں، جب کہ اُن کی ایک پوتی اور عُمر ڈار کی بیٹی، روبا عُمر صوبائی اسمبلی کی نشست پر اُمیدوار ہیں۔مبصّرین اِسے 2024ء کا ایک بڑا مقابلہ قرار دے رہے ہیں۔ گجرات میں صُورتِ حال ڈرامائی شکل اختیارکر چُکی ہے،جہاں چوہدری خاندان کے فرد ایک دوسرے کے مدّمقابل ہیں۔این اے 64 پر قیصرہ الہٰی امیدوار ہیں،جب کہ صوبائی اسمبلی کی نشست پی پی 32 پر چوہدری پرویز الہٰی کھڑے ہیں اور اِن دونوں کا مقابلہ اِن کے اپنے ہی کر رہے ہیں۔

خیبر پختون خوا کا روایتی جوش و جذبہ برقرار

خیبر پختون خوا میں جے یو آئی، اے این پی، مسلم لیگ نون، پیپلز پارٹی کے ساتھ، پی ٹی آئی کے آزاد امیدوار بھی بڑی تعداد میں میدان میں موجود ہیں، جب کہ پرویز خٹک نے بھی اپنی نئی جماعت کے اُمیدوار مقابلے میں اُتارے ہیں۔ صوبے میں انتخابی گہماگہمی عروج پر ہے۔میاں نواز شریف مانسہرہ اور مولانا فضل الرحمٰن ڈی آئی خان سے اُمیدوار ہیں، جب کہ پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان این اے10 بونیر سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔ ان کا مقابلہ پی ٹی آئی (پارلیمنٹیرینز) کے شیر اکبر خان، عوامی نیشنل پارٹی کے عبدالرؤف، مسلم لیگ نون کے سالار خان، پیپلزپارٹی کے یوسف علی، جماعتِ اسلامی کے بخت جہاں اور عوامی ورکرز پارٹی کے عثمان غنی سے ہے۔2013ء اور 2018ء میں یہاں سے شیر اکبر خان پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے تھے، مگر اب وہ پرویز خٹک کی جانب سے امیدوار ہیں۔ 

مسلم لیگ نون کے صوبائی صدر انجینئر امیر مقام این اے 2 سوات سے انتخابی دوڑ میں شریک ہیں، جب کہ عوامی نیشنل پارٹی کے ایوب خان، تحریکِ انصاف کے سابق ایم این اے اور پیپلزپارٹی کے موجودہ امیدوار ڈاکٹر حیدر علی، تحریکِ انصاف کے آزاد امیدوار ڈاکٹر امجد علی خان بھی اُن کے ساتھ دوڑ رہے ہیں۔ امیر مقام این اے11 شانگلہ سے بھی امیدوار ہیں۔ این اے18 ہری پور میں عُمر ایوب خان مسلم لیگ نون کے امیدوار بابر نواز خان سے ٹکرا رہے ہیں۔ این اے 19صوابی میں سابق اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر، جے یو آئی کے مولانا فضل حقانی اور بلال شیر پاؤ کے درمیان مقابلہ ہے۔اے این پی کے مرکزی سینئر نائب صدر اور سابق وزیرِ اعلیٰ امیر حیدر خان ہوتی این اے 22 مردان سے پی ٹی آئی کے آزاد امیدوار عاطف خان اور جمعیت علماء اسلام کے نیاز علی سے مقابلہ کر رہے ہیں۔

میاں افتخار حسین پی کے89 نوشہرہ اور غلام احمد بلور این اے32 پشاور سے الیکشن لڑ رہے ہیں،جہاں پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آصف خان اُن کے مدمقابل ہیں۔ ایمل ولی خان این اے 25چارسدّہ سے امیدوار ہیں، جب کہ پی ٹی آئی کے فضل محمد خان آزاد امیدوار کے طور پر اُن کے سامنے ہیں۔ جماعتِ اسلامی کے امیر سراج الحق این اے6 دیر سے قومی اسمبلی کا الیکشن لڑ رہے ہیں، جہاں اے این پی کے بہادر خان اور آزاد امیدوار محمد بشیر اُن کے مدّ ِمقابل ہیں۔ وہ 2018ء میں پی ٹی آئی کے امیدوار سے شکست کھا گئے تھے۔ پاکستان تحریک انصاف پارلیمنٹرین کے چیئرمین پرویز خٹک نوشہرہ سے این اے 33 اور پی کے87, 88 سے الیکشن لڑ رہے ہیں، جہاں سے وہ پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے لیے کام یاب ہوئے تھے۔

این اے 33 پر اُن کا مقابلہ پاکستان مسلم لیگ نون کے اختیار ولی خان، عوامی نیشنل پارٹی کے خان پرویز اور پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ سیّد شاہ احد سے ہے۔ پرویز خٹک کے بھتیجے اور داماد ڈاکٹر عمران خٹک کے کاغذاتِ نام زدگی این اے34 اور پی کے89 سے جمع کروائے گئے۔بیٹے ابراہیم خٹک اور اسماعیل خٹک پی کے85 اور پی کے 86سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔ قومی وطن پارٹی کے سربراہ آفتاب احمد خان شیرپاؤ این اے24 چارسدّہ سے امیدوار ہیں، جہاں اُن کا مقابلہ پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ انور تاج اور جے یو آئی کے گوہر علی سے ہے۔

بلوچستان میں بڑا جوڑ توڑ

صوبہ بلوچستان میں جہاں کئی قدآور شخصیات انتخابی میدان میں موجود ہیں، وہیں جوڑ توڑ کا سلسلہ بھی عروج پر پہنچ چُکا ہے۔این اے 263 کوئٹہ سے پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی میدان میں ہیں، جب کہ پیپلز پارٹی کے صوبائی جنرل سیکریٹری لالا روزی خان کاکڑ، آزاد امیدوار میر لشکری رئیسانی اور پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ سالار خان کاکڑ بھی یہاں قسمت آزمائی کر رہے ہیں۔ یہاں سے قاسم سوری کے کاغذاتِ نام زدگی مسترد ہوگئے تھے۔ 

نیشنل پارٹی کے سربراہ عبدالمالک بلوچ اور جے یو آئی نے اِس نشست پر محمود خان اچکزئی کی حمایت کی ہے۔ ایک دل چسپ مقابلہ پی بی32 چاغی میں ہے، جہاں چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی بلوچستان عوامی پارٹی کے ٹکٹ پر انتخابات میں حصّہ لے رہے ہیں۔ این اے264 پر سردار اختر مینگل میدان میں اُترے ہیں، جن کا مقابلہ پیپلز پارٹی کے نوجوان اُمیدوار، نواب زادہ جمال رئیسانی کر رہے ہیں، جب کہ پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ سردار زین العابدین بھی یہاں موجود ہیں۔ این اے261 سے پیپلز پارٹی نے نواب ثناء اللہ زہری کو میدان میں اُتارا ہے۔

کراچی: اُمیدواروں سے جماعتیں اہم

کراچی میں متحدہ قومی موومنٹ، پیپلز پارٹی، جماعتِ اسلامی اور پی ٹی آئی کے آزاد اُمیدوار ایک دوسرے کے مدّمقابل تو ہیں، مگر اِس بار وہ انتخابی ماحول دیکھنے میں نہیں آیا، جو یہاں کی روایت رہا ہے۔اگر مقابلوں کی بات کی جائے، تو یہاں اُمیدواروں کی بجائے پارٹی ہی کا ووٹ ہے، جس پارٹی کی لہر چل رہی ہو یا جو معاملات زیادہ بہتر طور پر مینیج کرلے، وہی فاتح ٹھہرتی ہے۔ این اے 241 میں ایم کیو ایم کے رہنما مصطفیٰ کمال، پیپلز پارٹی کے قادر خان مندوخیل اور پی ٹی آئی کے دوا خان صابر کے درمیان مقابلہ ہے۔

یہاں سے 2018ء میں پی ٹی آئی کے فیصل واوڈا نے میاں شہباز شریف کو شکست دی تھی، مگر اُن کی جانب سے نشست چھوڑنے کے نتیجے میں ہونے والے ضمنی انتخاب میں پیپلز پارٹی کے قادر خان یہ نشست لے اُڑے تھے۔ اُن کے مقابلے میں مصطفیٰ کمال(پاک سرزمین پارٹی کے ٹکٹ پر) اور پی ٹی آئی کے اُمیدوار بھی موجود تھے، مگر یہ دونوں بہت کم ووٹ لے پائے تھے۔ البتہ، ایم کیو ایم کے اُمیدوار نے خاصے ووٹ لیے تھے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا ایم کیوا یم کے وہ ووٹس اِس بار مصطفیٰ کمال کو مل پائیں گے یا نہیں۔ 

ایم کیو ایم کے رہنما خالد مقبول صدیقی اور ڈاکٹر فاروق ستّار بھی مختلف حلقوں سے اُمیدوار ہیں۔ این اے 241پر فاروق ستّار کے سامنے پی ٹی آئی کے رہنما خرم شیر زمان اور پیپلز پارٹی کے مرزا اختیار بیگ ہیں۔ امیرِ جماعتِ اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمٰن بھی انتخابات میں حصّہ لے رہے ہیں۔ جماعتِ اسلامی نے بلدیاتی انتخابات میں اُن کی قیادت میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا، کئی یوسیز اور ٹاؤنز میں اُن کے منتخب نمایندے بھی موجود ہیں، اِس پس منظر میں جماعتِ اسلامی حیران کُن نتائج بھی دے سکتی ہے۔ 

کراچی کے علاوہ باقی سندھ میں زیادہ تر روایتی مقابلے ہی ہیں، البتہ بدین سے ذوالفقار مرزا اور اُن کی اہلیہ فہمیدہ مرزا کو عدالتی جنگ کے بعد انتخابات میں حصّہ لینے کی اجازت مل گئی ہے، جس کے بعد بدین میں اچھا مقابلہ دیکھنے کو مل سکتا ہے۔ نیز، جی ڈی اے کی رہنما سائرہ بانو این اے 210 سانگھڑ سے پیپلز پارٹی کے صلاح الدین جونیجو کا مقابلہ کر رہی ہیں، نتیجہ تو جو بھی آئے،مگر سائرہ بانو کے چٹکلوں نے پی پی پی کو بڑی آزمائش سے دوچار کر رکھا ہے۔