340 ارب ڈالر کی مجموعی قومی پیداوار کے حامل مُلک، پاکستان میں اقتصادی اور معاشی سرگرمیوں کا پہیّا سارا سال ہی گردش میں رہتا ہے۔ اُتار چڑھائو آتے رہتے ہیں، لیکن یہ کبھی جمود کا شکار نہیں ہوتا۔ اگر جمہوری تسلسل برقرار رہے، تو ہر چار، پانچ سال بعد ایک وقت ایسا بھی آتا ہے، جب مُلک کے تمام اقتصادی اور معاشی اعشاریے معمول سے ہٹ کر اپنی انتہا کو چُھونے لگتے ہیں اور صرف ایک دو مہینوں میں معاشی اور تجارتی سرگرمیوں کا حجم اِتنا بڑھ جاتا ہے کہ اقتصادی ماہرین کے اندازے، تجزیئے اور تبصرے بھی کسی کام نہیں آتے۔
ایک ڈیڑھ ماہ کے دورانیے پر محیط یہ زمانہ ہوتا ہے، عام انتخابات کا۔اس ’’سیزن‘‘ میں صوبائی اور قومی اسمبلی کے امیدوار انتخابی سرگرمیوں پر کتنا خرچ کرتے ہیں، اِس ضمن میں اب تک کوئی ایسا پیمانہ ایجاد نہیں ہوا، جس سے اس رقم کا درست حساب کتاب کیا جاسکے۔تاہم، انتہائی محتاط نقطۂ نظر رکھنے والے ماہرین اِس رقم کا تخمینہ 200ارب روپے سے زاید ہی بتاتے ہیں، جب کہ دیگر ماہرین کے مطابق یہ رقم کسی صُورت 300 ارب روپے سے کم نہیں، بلکہ کئی ایک تو4 کھرب روپے تک کا اندازہ لگاتے ہیں۔ اُن کے مطابق یہ سب اخراجات کسی ڈاکیومنٹ اکانومی کا حصّہ نہیں ہوتے اور حساب کتاب کا کسی کھاتے میں اندراج نہیں ہوتا۔
2018ء کی انتخابی مہم میں قومی اسمبلی کے ایک امیدوار کے اخراجات کا اندازہ15 سے20 کروڑ روپے لگایاگیا تھا۔ اِس بار قومی اسمبلی کے لیے 7ہزار7 سو سے زائد امیدوار میدان میں موجود ہیں۔الیکشن کمیشن نے قومی اسمبلی کے امیدوار کے لیے انتخابی اخراجات کی حد 40لاکھ روپے مقرّر کی ہے۔ اگر صوبائی اسمبلیوں کی بات کریں، تو چاروں اسمبلیوں کے لیے انتخابات میں تقریباً20 ہزار اُمیدوار حصّہ لے رہے ہیں، جب کہ الیکشن کمیشن کے مطابق صوبائی اسمبلی کا اُمیدوار20 لاکھ روپے تک خرچ کرسکتا ہے۔
اِن قوانین سے قطع نظر ایک عام سُوجھ بُوجھ رکھنے والا شخص بھی بخوبی جانتا ہے کہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے اُمیدواروں کی انتخابی مہم اربوں کے ہندسوں کو چُھوتی ہے۔الیکشن سیزن میں تجوریوں کے منہ کُھل جاتے ہیں، گوداموں میں اشیائے خورونوش کی جگہ نوٹوں کی بوریاں رکھ دی جاتی ہیں،اس کے ساتھ کالا دھن بھی سفید ہو جاتا ہے۔نیز، اُمیدواروں کے قریبی دوست بھی سرمایہ کاری کے نقطۂ نظر سے کروڑوں روپے خرچ کردیتے ہیں۔ اخراجات میں کُھلی چُھوٹ ملنے کا ایک سبب الیکشن ایکٹ کی وہ حالیہ ترمیم بھی ہے، جس میں اُمیدوار یہ دعویٰ کرسکتا ہے کہ دوستوں نے اُس کے علم میں لائے بغیر انتخابی مہم پر لاکھوں روپے خرچ کیے۔
سوال یہ ہے کہ یہ دَھن دولت مختصر مدّت میں کہاں خرچ ہوتی ہے اور کس کس کی جیب گرم ہوتی ہے۔ روپے پیسے کا یہ بہتا دریا کس کس کو سیراب کرتا ہے اور معاشرے میں کن حیران کُن تبدیلیوں کا باعث بنتا ہے۔ الیکشن کا سیزن، غالباً واحد سیزن ہے، جو زندگی کے تقریباً ہر ہی شعبے کے ہنر مندوں، کاری گروں، ٹیکنیکل اسٹاف، دُکان داروں، تاجروں، بے روزگار نوجوانوں، دہاڑی داروں، مزدوروں، مستریوں، الیکٹریشنز، گلوکاروں، کیٹرنگ ہاؤسز، اشتہاری ایجینسیز، پرنٹرز، بیکریز، مٹھائی فروشوں، ٹرانسپورٹرز، ریڑھی والوں اور دوسرے لاتعداد لوگوں کو مالی مدد فراہم کرتا ہے۔
اگر ایک طرف چوراہے پر کھڑا ڈھولچی اور شدید سردی میں’’ گرم انڈے‘‘ کی آواز لگانے والا محنت کش اس سے اپنا حصّہ وصول کرتا ہے، تو دوسری طرف، پوش علاقے میں فائیو اسٹار قسم کے دفتر میں بیٹھا کوئی کمپنی ایگزیکٹیو بھی انتخابی مہم کو سائنسی انداز میں چلانے کا خطیر معاوضہ وصول کرتا ہے۔تو آئیے دیکھتے ہیں، اِس سیزن سے کون، کیسے مستفید ہوتا ہے۔
٭بینرز، پینا فلیکسز، پوسٹرز اور اسٹیکرز وغیرہ انتخابی مہم کا ایک اہم ترین حصّہ ہیں۔ہاتھ سے لکھے جانے والے بینرز تو اب ماضی کا حصّہ بن چُکے ہیں، یہاں تک کہ دیہات اور چھوٹے شہروں میں بھی اُمیدواروں کی پبلسٹی کا کام پینا فلیکس کے ماہرین اور گرافک ڈیزائنرز نے سنبھال لیا ہے۔ پنجاب ڈیجیٹل پبلسٹی کے جدید ترین ذرائع کا مرکز بن چکا ہے، تو خیبر پختون خوا میں بھی پرنٹرز، پبلشرز یہ کام24 گھنٹے کرتے ہیں۔ قصّہ خوانی بازار کے عقب میں واقع محلّہ جہان آگہی، پرنٹنگ انڈسٹری کا مرکزکہلاتا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق پشاور میں پرنٹنگ انڈسٹری سے40 ہزار افراد وابستہ ہیں اور آل پرنٹرز اینڈ پبلشرز ایسوسی ایشن کے ایک عُہدے دار کے مطابق انتخابی مہم کے دوران پرنٹنگ مشینز24 گھنٹے چلتی ہیں اور بعض اوقات50لاکھ روپے تک کے آرڈرز بھی موصول ہوتے ہیں۔
اگرچہ چارسدّہ اور مردان پیپر ملز کی بندش کے بعد اخراجات میں کئی گُنا اضافہ ہوگیا ہے، لیکن امیدوار اس موقعے پر کسی قسم کی کنجوسی کا مظاہرہ نہیں کرتے۔ انتخابی مہم کے دوران پنجاب میں بھی پرنٹنگ مشینز ہفتے میں سات دن،24 گھنٹے کام کرتی ہیں۔ ایک پرنٹنگ پریس کے مالک احمد ذیشان نے بتایا’’الیکشن سیزن پرنٹنگ انڈسٹری کے لیے بارانِ رحمت ثابت ہوتا ہے۔ ہم مختلف شفٹس میں دن، رات کام کرتے ہیں، جس کا ورکرز کو اوور ٹائم ملتا ہے۔الیکشن ان محدود آمدنی والے ورکرز کی عرصۂ دراز سے رُکی ضروریات پوری کرنے میں مدد دیتا ہے۔ کئی پرنٹرز اِس سیزن کے بعد بیٹے، بیٹیوں کی دھوم دھام سے شادیاں کرتے ہیں۔‘‘حقیقت یہی ہے کہ ڈیجیٹل پرنٹنگ نے اب انتخابی مہم کے انداز ہی بدل دیئے ہیں۔
٭عوام کی اکثریت نے اب سوشل میڈیا کا رُخ کرلیا ہے۔ اِس وقت پاکستان میں موبائل فونز صارفین کی تعداد17 کروڑ سے زاید ہے اور تقریباً ہر نوجوان اینڈرائیڈ فون سے’’ مسلّح‘‘ ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ 2024ء کے عام انتخابات کی جنگ سوشل میڈیا پر لڑی جا رہی ہے اور بڑی سیاسی جماعتوں نے سوشل میڈیا پر پبلسٹی اور پراپیگنڈے کے لیے ماہرین کی پوری فوج کی فوج بھرتی کر رکھی ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ انتخابی مہم کے دوران طرح طرح کی ویڈیوز اور جماعتی پوسٹس میں کئی گُنا اضافہ ہوگیا ہے۔چوں کہ موبائل فونز، ووٹرز تک رسائی کا ایک آسان اور مؤثر ذریعہ ہے، اِسی لیے سیاسی جماعتیں اور اُمیدوار انہیں اپنے مقاصد کے لیے بھرپور طریقے سے استعمال کر رہے ہیں۔ انٹرنیٹ پر آن لائن ورچول میٹنگز اور جلسوں نے پبلسٹی کے نئے دروازے کھول دیئے ہیں۔ اس سرگرمی سے پاکستان کے وہ لاکھوں نوجوان مالی طور پر مستفید ہوں گے، جنہیں انفارمیشن ٹیکنالوجی پر دسترس حاصل ہے۔ ایک نجی یونی ورسٹی میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے طالبِ علم عدنان نذیر کو یقین ہے کہ وہ اِس انتخابی مہم کے دوران اِتنی رقم کما لے گا، جس سے اُسے کسی غیر مُلکی یونی ورسٹی میں داخلہ مل سکے ۔ وہ بھی دوسرے نوجوانوں کی طرح پاکستان کو خیرباد کہنا چاہتا ہے۔
٭پاکستان کے طول و عرض میں پھیلے کیٹرنگ ہاؤسز کا یوں تو سارا سال ہی ’’ سیزن‘‘ رہتا ہے کہ وہ شادی بیاہ، موت میّت اور دیگر تقریبات پر کھانا اور میزیں، کرسیاں، برتن، شامیانے، دریاں وغیرہ فراہم کرتے ہیں، لیکن انتخابات میں تو اُن کی گویا لاٹری نکل آتی ہے۔محمّد طفیل کے بقول ’’میرے چار تعلیم یافتہ بیٹے اگرچہ میرے کاروبار میں شریک نہیں اور وہ اچھی نوکریاں کررہے ہیں، لیکن الیکشن سیزن میں، مَیں اُن کو بھی مدد کے لیے بُلا لیتا ہوں۔ ان دنوں میں تو دہاڑی دار ملازم بھی نہیں ملتے اور اگر ملتے ہیں، تو منہ مانگے دام وصول کرتے ہیں۔
ہم بھی اُمیدواروں سے رُو رعایت نہیں کرتے۔یہ ضرور ہے کہ ہارنے والا اُمیدوار بعد میں ہمیں مہینوں بِل ادا نہیں کرتا، لیکن کاروبار میں یہ رِسک تو لینا ہی پڑتا ہے۔البتہ ،ہم اچھی خاصی رقم پیشگی وصول کرچُکے ہوتے ہیں۔‘‘عمران خان کے زمانے میں بڑے شہروں میں’’کنٹینرز کلچر‘‘ کا رواج تھا، لیکن چھوٹے شہروں اور دیہات میں آج بھی کارنر میٹنگز اور جلسوں کا کام اِنہی دُکان داروں نے سنبھالا ہوا ہے۔ان کے پاس جلسوں میں بجلی کی فراہمی کے لیے ہیوی جنریٹرز اور الیکٹریشنز بھی ہوتے ہیں۔
٭ 2018ء کی انتخابی مہم کے دوران میوزک، سیاسی گانوں، ویڈیوز اور نعروں کا ایک ایسا رجحان متعارف ہوا، جس نے آناً فاناً پورے مُلک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور اب یہ ڈیجیٹل میوزک اور جدید ترین سائونڈ سسٹم سیاسی جلسوں، جلوسوں کا ایک لازمی جزو بن گیا ہے۔ اس رجحان سے نہ صرف ساز و آواز، ڈی جیز میں مہارت رکھنے والوں کی مانگ بڑھ گئی بلکہ سیاسی گانے لکھنے اور گانے والوں کی طلب میں بھی اضافہ ہوا۔
الیکشن سیزن ان گلوکاروں، میوزک کمپوزرز اور لکھاریوں کے لیے خوش حالی کی نوید بن کر آتا ہے۔ 2024ء کے عام انتخابات میں بھی ایسے فن کار اپنی اپنی صلاحیتوں اور مہارتوں کا جادو جگا کر بھرپور معاوضہ وصول کر رہے ہیں۔ پھر اب ایسے جدید ڈیجیٹل آلات بھی آگئے ہیں، جو جلسوں میں ساز و آواز کا ایک سحر طاری کردیتے ہیں اور جب رہنماؤں کے جوشِ خطابت میں موسیقی کا تڑکا لگتا ہے، تو اُن کے حامی پُرجوش ہو جاتے ہیں۔
٭الیکشن ڈے پر ووٹرز کو گھروں سے پولنگ اسٹیشنز تک پہنچانے کا ایک بڑا ذریعہ ویگنز، بسز، کاریں اور رکشے وغیرہ ہیں، جب کہ الیکشن ڈے سے کئی روز پہلے بھی انتخابی مہم کے دَوران ٹرانسپورٹ کی ضرورت پڑتی ہے اور یہ ضرورت مُلک بھر میں پھیلے لاکھوں ٹرانسپورٹرز، رینٹ اے کار اور ٹرانسپورٹ کے دیگر کاروباروں سے وابستہ افراد پوری کرتے ہیں۔اُمیدوار گاڑیوں کے لائو لشکر کے ساتھ اپنی انتخابی مہم پر نکلتے ہیں تاکہ عوام اُن کے دبدبے سے متاثر ہوں۔ ایک ٹرانسپورٹر ملک احمد علی نے بتایا کہ’’عام دنوں میں تو ہماری گاڑیاں کئی کئی روز کھڑی رہتی ہیں، گاہک نہیں آتے، لیکن الیکشن کے دنوں میں یوں لگتا ہے جیسے بھونچال آگیا ہو۔
ٹرانسپورٹرز تو بسز، ویگنز، کاریں وغیرہ کرایہ پر دیتے ہی ہیں، پرائیویٹ اونرز بھی اپنی گاڑیاں کرائے پر دینے کے لیے رابطے کرتے ہیں۔ ڈرائیور دست یاب نہیں ہوتے، حتیٰ کہ دہاڑی دار بھی نہیں ملتے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے، 2018ء میں ہمارے ایک دوست ٹرانسپورٹر کو ڈرائیور نہیں مل رہے تھے۔ ایک نوجوان کا پتا چلا کہ اُس کی ایک ٹانگ نہیں ہے، لیکن گاڑی چلا لیتا ہے۔ اُس نے وہ ڈرائیور بھی بُلا لیا، جو خوش اسلوبی سے ڈیوٹی انجام دیتا رہا۔دیہات میں ٹریکٹر، ٹرالیاں بھی ووٹرز کی نقل و حرکت کے کام آتی ہیں۔ بڑے ٹرانسپورٹرز کے علاوہ نجی کمپنیز کی بھی چاندی ہو جاتی ہے، جن سے وابستہ کاریں اور موٹر سائیکلز دن رات سڑکوں پر رہتی ہیں۔
٭ عام دنوں میں اگر کسی ووٹر کا سیاسی رہنما کے ڈیرے یا دفتر میں جانا ہو، تو عموماً صرف چائے یا کولڈ ڈرنک سے اُس کی تواضع کی جاتی ہے، لیکن انتخابات کے دنوں میں ووٹر کی اہمیت بڑھنے کے ساتھ مینیو میں بھی اضافہ ہوجاتا ہے۔اس چند روز کے ’’مہمانِ خصوصی‘‘کو کولا مشروبات، بسکٹس، کیکس اور مٹھائیاں بھی پیش کی جاتی ہیں۔ بریانی کی دیگیں پکانے والوں، نان اور کلچے لگانے والوں کی بھی پانچوں انگلیاں گھی میں ہوتی ہیں۔ اِن دنوں میں بیکریز، ریستورانوں اور ہوٹلز کا کام بھی کئی گُنا بڑھ جاتا ہے، جس سے یقیناً اُن عام کارکنوں، ملازمین اور دیگر ورکرز کو بھی فائدہ پہنچتا ہے، جن کے اوور ٹائم لگائے بغیر صارفین کے آرڈر پورے نہیں ہوپاتے۔
اُمیدواروں کے جیتنے کی صورت میں تو پوری کی پوری مٹھائی کی دُکانیں خالی ہو جاتی ہیں۔ ایک بیکری مالک کے بقول ’’ہم تو چاہتے ہیں کہ ہر سال عام انتخابات ہوں، کیوں کہ اُمیدوار جتنی بے دردی سے روپیا پیسا خرچ کرتے ہیں، خود ہمیں حیرت ہوتی ہے کہ اِتنا پیسا آخر آیا کہاں سے۔ لیکن پھر اس کا جواب بھی مل جاتا ہے کہ ’’لگانے والے کو ملتا ہے‘‘ ۔اب الیکشن لڑنا کروڑوں کی گیم ہے اور باقاعدہ سوچ سمجھ کر سرمایہ کاری کی جاتی ہے۔ ووٹرز بھی اپنے بچّوں سمیت بیکری آئٹمز پر خُوب ہاتھ صاف کرتے ہیں، کیوں کہ اُنہیں پتا ہے کہ ایسا موقع روز روز نہیں ملتا۔‘‘
٭ ہمارے ہاں ایک طبقہ ایسا بھی ہے، جسے اِس بات سے کوئی سروکار نہیں کہ اُن پر کون حُکم رانی کر رہا ہے اور اس کا تعلق کس سیاسی جماعت سے ہے۔ یہ وہ اَن پڑھ، دہاڑی دار مزدور ہیں، جو صبح روزی کی تلاش میں نکلتے ہیں اور اکثر حالات میں گھر میں بھوکے بچّوں کے لیے اُن کے پاس کھانے کی کوئی چیز نہیں ہوتی۔ لیکن الیکشن میں کچھ دنوں کے لیے اُن کے بھی دن پِھر جاتے ہیں کہ مختلف کاموں کے لیے ہیلپرز کی ضرورت پڑتی ہے۔ ہوٹلز، بیکریز، اُمیدواروں کے سیاسی دفاتر اور دیگر کئی جگہوں پر ایسے دہاڑی دار مزدوروں کی مانگ بڑھ جاتی ہے۔
ریڑھی والوں کے لیے بھی الیکشن کے یہ ایّام کافی منافع بخش ثابت ہوتے ہیں۔ جلسوں کے دورن اُن کی جلیبیاں، سموسے، مونگ پھلی، ڈرائی فروٹ، فروٹ چاٹ، دہی بڑے ہاتھوں ہاتھ بِک جاتے ہیں۔ اس بار الیکشن سردیوں میں ہو رہے ہیں، اِس لیے خشک میوہ جات کی مانگ زیادہ ہے۔اُمیدوار اپنے خاص مہمانوں کی تواضع پھلوں سے کرتے ہیںاور اِن دنوں میں اپنے کسی خاص حمایتی کے گھر پھلوں کی مخصوص ٹوکری بھجوانا تو ایک معمول کی بات ہے۔ اِن دنوں میں ٹی اسٹالز کی بھی لاٹری نکل آتی ہے اور اگر یہ کسی اُمیدوار کے دفتر کے نزدیک ہو، تو پھر چائے کے آرڈر بھگتانا ناممکن ہو جاتا ہے۔
ایک چائے والے نے الیکشن کی تاریخ کا اعلان ہوتے ہی ڈسپوزایبل کپس کا اسٹاک منگوا لیا تھا، کیوں کہ اِن ایّام میں بے تحاشا چائے چلتی ہے۔ گزشتہ الیکشن کے سیزن میں اُس نے اتنا کمایا تھا کہ ایک بیٹی بیاہ دی اور بیٹے کو یونی ورسٹی میں داخلہ دِلوا دیا۔ اُس نے کہا کہ’’ اِس بار تو الیکشن سردیوں میں آ رہے ہیں۔ اُمید ہے، کاروبار پہلے سے کئی گُنا زیادہ ہوگا۔الیکشن کے دنوں میں دہاڑیوں پر مزید عملہ رکھنا پڑتا ہے۔‘‘
گزشتہ دو الیکشنز میں انتخابی مہم میں نمایاں کردار ادا کرنے والے ایک نوجوان سیاسی ورکر، حامد رضا کا کہنا ہے کہ ہمارے اکثر سیاسی رہنما ویسے تو عام طور پر کنجوس واقع ہوئے ہیں اور عام دنوں میں ڈیرے پر چائے، پانی بھی نہیں پوچھتے، لیکن الیکشنز کے موقعے پر دِل کھول کر خرچ کرتے ہیں، جو اُن کی ایک طرح کی سرمایہ کاری ہوتی ہے۔ جیت ہو یا ہار، یہ لوگ اپنا کھاتا پورا کرلیتے ہیں۔
بہر حال، الیکشن سیزن کروڑوں افراد کے لیے کچھ وقت کے لیے ہی سہی، خوش حالی لے کر آتا ہے۔ چند ہفتوں میں معاشرے میں اربوں، کھربوں کا لین دین ہوتا ہے۔ عیدِ قربان کے بعد الیکشنز سیزن غالباً دوسرا سب سے بڑا ایسا ایونٹ ہے، جس میں کھربوں روپے ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ منتقل ہوتے ہیں۔ ڈھول پیٹنے اور بھنگڑے ڈالنے والوں سے لے کر اقتدار کی راہ داریوں میں پہنچنے والوں تک ہر شخص حصّہ بقدر جُثّہ وصول کرلیتا ہے۔ اُمیدوار کی جیت پر ایک ڈھولچی چند ہزار ملنے ہی پر بھنگڑے ڈالنے لگتا ہے، تو جیتنے والا اُمیدوار اس سوچ میں غلطاں ہوتا ہے کہ الیکشن پر لگائی جانے والی کروڑوں کی رقم سُود سمیت کیسے پوری کی جائے۔