• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ذیابیطس جسے عرف عام میں شوگر کا مرض کہا جاتا ہے عالمی سطح پر انسانی صحت کے لئے سب سے خطرناک قرار دی جانے والی بیماری ہے۔ اسے خاموش قاتل بھی کہا جاتا ہے۔ جب یہ بیماری کسی انسان کے جسم میں گھر کرلیتی ہے تو وقت گزرنے کے ساتھ آہستہ آہستہ اسے اندر سے کھوکھلا کرکے جسم کو دیمک کی طرح چاٹ لیتی ہے۔ طبی ماہرین کی تحقیق یہ بتاتی ہے کہ یہ بیماری آپ کو بچپن سے ہی لاحق ہوسکتی ہے یا پھر جوانی اور بڑھاپے کے دوران آپ کا گھیراؤ کرسکتی ہے۔ اس بیماری کی بنیادی وجوہات میں سے ایک آپ کا لائف اسٹائل ہے جسے آپ کا رہنا سہنا ، طرززندگی کہا جاتا ہے۔ آپ اپنی خوراک میں تسلسل سے بدپرہیزی کرتے ہیں، (شوگر کوٹڈ) اشیاءکا بے دریغ استعمال کرتے ہیں، ورزش نہیں کرتے، سستی اور کاہلی کا شکار رہتے ہیں۔ طبی ماہرین کی یہ رائے بھی ہے کہ اگر آپ عمر کے کسی بھی حصے میں ضرورت سے زیادہ انتہائی جذباتیت کا شکار ہو جاتے ہیں یا معاشی بوجھ تلے دبتے ہی چلے جاتے ہیں اور آپ اس بوجھ کو اٹھانے سے قاصر رہتے ہیں ، ملکی سیاسی و معاشی حالات کی وجہ سے آپ کے دل و دماغ پر بوجھ بڑھنے لگتا ہے تو آپ کا ”لبلبہ“ کام کرنا چھوڑ دیتا ہے۔ ان وجوہات کی بنیاد پردل کا دورہ بھی پڑ سکتا ہے۔ اگر اللہ کے فضل و کرم سے اس دورے سے وقتی طور پر بچ بھی جاتے ہیں تو شوگر کی بڑھوتری اندھے پن، گردوں کے فیل ہونے، ڈپریشن کے سبب خودکشی کرنے پر مائل ہونے کے حالات سے بھی دوچار کرسکتی ہے۔ ماہرین طب کے مرتب کردہ عالمی اعدادوشمار کے مطابق پاکستان شوگر کے زیادہ پھیلاؤ والے ممالک کی فہرست میں چین، بھارت کے بعد تیسرے نمبر پرہے۔ گزشتہ سال کی ایک رپورٹ کے مطابق تقریباً 26.7 فی صد بالغ نوجوان وبزرگ پاکستانی اس مرض سے بُری طرح متاثر تھے۔سن 2024 ءجنوری تک یقینا اس تعداد میں خاطر خواہ اضافہ بھی ریکارڈ کیا جارہا ہے اور ”متاثرین شوگر“ کی یہ تعداد ہرگزرتے لمحے تشویش ناک حد تک بڑھتی ہی جارہی ہے۔ یہ بات بھی نوٹ کی گئی ہے کہ بہت سے مریضوں میں شوگر کی تشخیص ہی نہیں ہو پارہی کہ ہمارا نظام ہی ایسا ہے۔ علاج و تشیخص کے ناقص انتظام کے سبب مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی، ڈبلیو ایچ او کے مطابق یہ بیماری کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک میں سب سے زیادہ دیکھی جارہی ہے۔ پاکستان ان ممالک میں سے ایک ہے۔ یہاں شوگر سے اموات کا زیادہ خطرہ محسوس کیا جارہا ہے۔ ماہرین طب ان عوامل کی نشان دہی بھی کرتے ہیں جو بالغوں میں شوگر بڑھنے کا خطرہ بنتے ہیں۔ ان میںبےہودہ طرز زندگی ”فاسٹ فوڈ “ کی زیادتی، ”شوگر کوٹڈ“ اشیائے خوردونوش کے بے دریغ استعمال سے موٹاپا ہونا بھی شامل ہے۔ پاکستان میں غیر متعدی امراض کی روک تھام، کنٹرول کی خاطر ”قومی ایکشن پلان برائے ذیابیطس“ اس ضمن میں ایک کوشش ہے۔ اس پروگرام کا مقصد مریضوں کی زیادہ سے زیادہ نگرانی، رسک فیکٹر کو کم کرنا اور آگاہی مہم کے ذریعے ”طبی تعلیم“ کا فروغ، مطلوبہ ادویات کی دستیابی یقینی بنانا بھی شامل ہے۔ ماہرین ابلاغیات ، لسانیات و تاریخ دان اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ زور زبردستی ، دباؤ ، انتشار سے بیماری کے پھیلاؤ کے امکانات و خطرات مزید بڑھ سکتے ہیں۔ اگر چہ تعلیم کو ایک طاقت ورہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے لیکن صرف تعلیم واحد علاج نہیں کہ جب تک عوام کو علاج معالجے ، انتظام و انصرام، روک تھام بارے اقدامات پر مکمل طور پر اعتماد نہ ہو تو یہ مہم کسی صورت کامیاب نہیں ہوسکتی۔ ماہرین یہ مشورہ بھی دیتے ہیں کہ میڈیا کو مکمل آزادی سے اس آگاہی مہم میں اپنا کردار ادا کرنے کا موقع دیا جانا چاہئے۔ سیاسی و سماجی شخصیات کو اظہار رائے کی مکمل آزادی ملنی چاہئے تاکہ وہ اپنا مثبت پیغام سامعین تک ٹھیک سے پہنچا سکیں۔ اس مہم میں بیہودہ طرز زندگی کی شدید مذمت کی جانی چاہئے۔ بالغ نوجوانوں خصوصاً بزرگوں کو روزمرہ معمولات میں صبح و شام ورزش، متوازن غذا شامل کرنے کی اہمیت سے آگاہ کرنا بہت ضروری ہے۔ حکومت اس ضمن میں اسکولوں، کالجوں، بیرونی مقامات، خصوصاً پارکوں پر بھی نظر رکھے کہ جن کے سکڑنے سے بچوں کے ذہن بُری طرح متاثرہو رہے ہیں ان کے جسم و جان کو شوگر کا مرض دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے۔ ان کی جسمانی و ذہنی سرگرمیاں محدود ہوتی جارہی ہیں۔ اگرچہ اس طرح کی تبدیلیاں فوری کامیاب تو نہیں ہوسکتیں مگر آنے والے سالوں میں اس بیماری سے لڑنے میں ہماری مدد گار ضرور ہوں گی۔ پوری قوم اور تمام حکومتی سرکاری و غیر سرکاری ، سیاسی و غیر سیاسی اداروں اور ان کے ذمے داروں کو چاہئے کہ وہ 8 فروری کو شوگر فری ڈے کے طور پر یادگار دن بنائیں۔ پاکستان کو اس خاموش قاتل سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے نجات دلائیں، قوموں کی زندگی میں ایسے دن بار بار نہیں آتے۔

تازہ ترین