عرصہ دراز سے رٹ لگائی کہ عمران خان کا بچنا ناممکن، 8فروری کے انتخابات میں تحریک انصاف موجود نہیں ہو گی ۔ عمران خان، لواحقین اور معتقدین جس تکلیف، کرب و ابتلاء سے گزر رہے ہیں اسکا بخوبی اندازہ اور دلی دکھ و ازحد افسوس ہے۔ فیملی کی آزمائش وتکلیف کا احاطہ نا ممکن ، بوجوہ رشتہ ناطہ بخوبی ادراک اور اسکے اثرات مجھ پر بیت رہے ہیں ۔ 22 مارچ 2018 کا لکھا کالم 20 اکتوبر 2023 کو دوبارہ شائع کرؤایا ۔ اس کالم کے چند فقرے آج پھر دہراتا ہوں ، ’’نواز شریف اور خاندان کڑے مقدمات میں ملوث ، آرٹیکل 10-A ابدی نیند میں ، مقدمات منطقی انجام کیطرف گامزن ہیں ۔جس ملک میں ادارے ضرورت سے زیادہ مضبوط ہوں ایسے فیصلے اچنبھے کی بات نہیں ۔ بظاہر مسلم لیگ ن کی حکومت ادارے محکمے کسی اور جگہ رپورٹ کر رہے ہیں‘‘۔ اگرچہ 5 سال پہلے لکھا کالم حرف بحرف سچ ثابت ہوا ، آج بھی آرٹیکل 10-A ابدی نیند سو رہا ہے ۔البتہ نواز شریف پر بیتے مسائل مشکلات عمران خان کو منتقل اور عمران خان پر برسی نوازشات آج نواز شریف کا مقدر بن چکی ہیں ۔
حیران کُن مماثلت،جج محمد بشیر کو وزیراعظم نواز شریف نے 2015ءمیں توسیع دی اور 2018ءمیں ( 10+7 ) سزائیں پائیں ۔ وزیراعظم عمران خان نے 2018 ءاور 2021ءمیں دو دفعہ توسیع دی ، آج ( 14+14 ) سال سزا پاچکے ۔ہماری اسٹیبلشمنٹ کے کئی رہنما اصول، سختی سے کاربند ہیں ۔ جب وہ کچھ کر گزرنے یا کچھ پانے کا ارادہ باندھتے ہیں تو’’سفر نان سٹاپ‘‘، منزل پر اختتام پذیر ہوتاہے۔ اختلاف رائے رکھنے والے سیاستدان ، وزرائے اعظم کا مقدر جیل یا جلا وطنی یاپھر لقمہ اجل ، ہر حالت میں ایک عرصہ تک سیاست کے دروازے بند رہتے ہیں۔ یہ ایک ایسی اٹل حقیقت جس سے آنکھیں چرانا سیاسی عاقبت نا اندیشی کہلائے گا ۔ کل ہی عمران خان کی بہن نے خان صاحب کی صورتحال یا حالت زار کاجامع نقشہ دو فقروں میں باندھ دیا ،’’ کہاں ہیں وہ وکلاء جو کہتے تھے کہ وکلاء لشکر بن کر ٹوٹ پڑیں گے ؟ آج سارے وکلاء عمران خان کو کسمپرسی میں چھوڑ کر اپنی اپنی الیکشن کمپین میں مصروف ہیں‘‘۔ گوہر خان کی تعیناتی پر میرا واویلا ایک ہی تھا کہ PTI اُچک لی گئی ہے ۔ میرے حساب کتاب میں اس میں عمران خان کی رضا و رغبت شامل رہی ہوگی ۔ عمران خان نے چشم تصور میں اسٹیبلشمنٹ سے جو ڈیل کرنی ہوگی ، اسکی شروعات سمجھی گئی ۔ باوجودیکہ اسٹیبلشمنٹ عمران خان سے کسی قسم کی ڈیل کی دلچسپی نہیں رکھتی ۔
اگرچہ پارٹی میں نقب لگائی جا چکی ہے ، غیر متعلقہ عناصر سے پارٹی کا قبضہ چھڑانے کیلئے کچھ بچے کھچے پرانے نامور کل سے متحرک ہیں،پارٹی کو بچانے کیلئے سر توڑ کوشش کر رہے ہیں ۔بالفرض محال کوشش کامیاب ہو بھی گئی تو تحریک انصاف کا اب اصل حالت میں بحال ہونا ناممکن ہے ۔ بحال شدہ پارٹی گوہر خان کی تحریک انصاف سے قطعاً مختلف نہیں ہوگی کہ اب اسٹیبلشمنٹ ہر رگ میں سرایت کر چکی ہے ۔رہا معاملہ بہنوں کا توآنے والے کئی سال تک در بدر پھرناہے مگر آخری سانس تک عمران خان کا ساتھ نہیں چھوڑیں گی ۔پارٹی’’شیکسپیئرکے ڈرامہ کے چند کردار ،سیزر کے قتل پربروٹس کی تقریر ‘‘انصافی قائدین نے درجنوں بار دہرانی ہے ۔ بے چارے ورکرز سپورٹرز کچھ عرصہ تک مارک انتھونی کی سیزر بارے تقریرعرصہ دراز اپنی گفتگوؤں کی زینت بنائے رکھیں گے تا آنکہ ایک نسل تبدیل ہوگی ،عمران خان کی بہن کا واویلا کہ میرا بھائی اکیلا ہے تو اس میں عمران خان کی اپنی کوہ تا اندیشی اور خود غرضی ہے کہ آج بیچارگی ، بے بسی اور لاچاری کی گرفت میں ہے ۔ اپنی ذات کو بے پناہ طاقتور اور مقبول بنانے کیلئے ، متبادل قیادت کی سوچ کبھی قریب نہ پھٹک پائی ۔ ’’ موروثی سیاست‘‘ کے نام پر تالیاں بجوا کر خوش ہوا ، بہنوں کو خاطر میں نہ لایا ، حلف وفاداری کی تقریب سے لیکر 10اپریل 2022 تک بے دخل رکھا ۔ آج وہی بہنیں اپنی زندگی ، اپنی سوچ ، اپنے دن رات اپنے بھائی کیلئے خلوص کیساتھ وقف کر چکی ہیں ، اسکے بیانیہ کو لیکر آگے بڑھنا انکے لئے ممکن نہیں ہے۔
عمران خان اپنی لڑائی اسٹیبلشمنٹ کیساتھ جس انتہا تک پہنچا چکا،یہ بات طے کہ دونوں میں سے ایک کو ہی رہنا ہے ۔ لڑائی کی ایسی قسم میں اسٹیبلشمنٹ بات کرنے پر تیار نہ موڈ میں ہے ۔اس سے پہلے بھٹو بمقابلہ اسٹیبلشمنٹ میں جنرل ضیاء الحق کسی صورت بھٹو کیساتھ بات کرنے پر تیار نہ تھے ۔اگرچہ عمران خان آج اپنی پارٹی اسٹیبلشمنٹ کے حوالے کر چکے ہیں ،عمران خان کا واحد اثاثہ پبلک سپورٹ ، بالغ رائے دہی پر انحصار ، اسکے لیے بیلٹ باکس کی ضرورت ، جس سے وہ محروم ہیں ۔ووٹرز بے بس ، بے کس اور بے یار و مددگار اس شش و پنج میں کہ ووٹ دیتے ہیں تو اسٹیبلشمنٹ کی جیت ، گھر بیٹھتے ہیں تو بھی اسٹیبلشمنٹ کی جیت ۔ آزاد امیدواروں کی جیت تو اسٹیبلشمنٹ کے زیادہ وارے میں ۔
عمران خان کے سخت بیانیہ کے حقوق ملکیت لینے پر کوئی رہنماء اسلئے آمادہ نہ ہوا کہ عمران نے بنفس نفیس احتیاط برتی۔ آج عمران خان کو سخت سزاؤں کے باوجو د گوہر خان سمیت پارٹی قیادت پُر امن احتجاج سے بھی احترا ز برت رہی ہے۔ 9مئی واقعہ ( الطاف حسین 2015ءسے کہیں زیادہ سنگین ) میں بغیر لفظ چبائے کُلی ذمہ داری اپنے کندھوں پر لینا ، 13 مئی کو ببانگ دہل قبول کیا۔9 مئی، ریاست بمقابلہ عمران خان ، ( شیخ مجیب الرحمٰن1971ء، الطاف حسین 2015ء) جیسی صورتحال ہے ۔ عمران خان کے سخت بیانیہ کو کوئی بااعتماد ساتھی لینے پر تیار نہیں۔آج کڑے وقت میں ، بینظیر ، مریم نواز ، حسینہ واجد ، راجیو گاندھی ، کوری اکینو، بندرا نائیکے ، ایک بھی تو نہیں جو عمران خان کا سخت بیانیہ عام کرنے کیلئے صف اول میں موجود ہو ۔ پھانسی سے چند دن پہلے بھٹو کے دل دہلا دینے والے، کرنل رفیع الدین کو کہے، چند فقرے ،’’ کرنل ! آج میں تنہا ہوں ۔ نصرت اور بینظیر کے علاوہ آج میرے ساتھ کوئی نہیں ہے‘‘۔ آج عمران خان اکیلا تنہا ، عمران خان کی اپنی والی تحریک انصاف عملاً تحلیل ہو چکی ہے ۔عمران خان کی متاع سیاست لٹ چکی ۔’’وائے ناکامی!متاع زندگی و کارواں ، سیاست سب کچھ جاتا رہا‘‘۔