• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں شدید حیرت میں مبتلا ہوں۔ میرے ایک دوست نے اپنے بیٹے کو پانچ لاکھ روپے بزنس کرنے کیلئے دیے تھے۔ بزنس ناکام ہوگیا تواس نے مزید پانچ لاکھ بچے کو پکڑا دیے۔ میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ میرا دوست بیوقوف نہیں ، لیکن پھر اُس نے ایسا کیوں کیا۔ یہی جاننے کیلئے میں نے اُس سے ملاقات کا پروگرام طے کیا اور اس حیرت انگیز منطق کے بارے میں پوچھا۔ اُس نے جو وجہ بتائی وہ مجھے عجیب بھی لگی اور نئی بھی۔ میری خواہش ہے کہ میں یہ ساری روداد آپ کے سامنے رکھوں تاکہ آپ بھی فیصلہ کرسکیں کہ میرے دوست نے ٹھیک کیا یا غلط۔اب میرے دوست کا بیان سنئے! دوست کا کہنا ہے کہ میرا بیٹا بزنس کرنے میں دلچسپی رکھتاہے۔اس حوالے سے اُس نے مجھ سے کہا کہ میں یونیورسٹی میں بزنس سے متعلقہ شعبے میں داخلہ لینا چاہتا ہوں۔ جس یونیورسٹی کا اُس نے نام لیا وہ شہر کی ٹاپ کلاس یونیورسٹی ہے جس کے ایک سمسٹر کی فیس لگ بھگ پانچ لاکھ کے قریب ہے۔ میں نے حساب لگایا تو چار سال میں یونیورسٹی کی فیس اور دیگر اخراجات ملا کر پچاس لاکھ کے قریب رقم بن رہی تھی۔

یہ ڈگری لینے کے بعد یقینا ًمیرے بیٹے نے کسی سرکاری نوکری کیلئے اپلائی کرنا تھا جس کے چانس نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں اور اگر وہ نوکری نہ کرتا اور اپنا بزنس کرتا تو اُس کیلئے بھی الگ سے رقم درکار تھی ۔ ڈگری لینے کے بعد میرے بیٹے کے پاس صرف ڈگری ہونی تھی ، تجربے کیلئے الگ سے وقت چاہیے تھا۔میں نے سوچا کیوں نہ ڈگری کی بجائے تجربے کو فوقیت دی جائے سو میں نے بیٹے سے اُس کے مطلب کا بزنس پوچھا۔ اُس نے بتایا کہ وہ لاجسٹک سے متعلق کوئی کال سنٹر ٹائپ بزنس کرنا چاہتا ہے۔ میں اس بزنس سے ناواقف تھا تاہم بیٹے سے پوچھا تو اُس نے بتایا کہ شروع شروع میںچھوٹی سطح پر یہ کام پانچ لاکھ سے شروع ہوجائے گا۔ میںنے پانچ لاکھ اُس کے حوالے کیے اور بسم اللہ کرنے کو کہا۔ بیٹے نے بڑی خوشی اور شوق سے یہ کام شروع کیا۔ چھوٹا سا دفتر بنایا، کمپیوٹر لیا، کچھ دوستوں سے رابطے کیے۔ لیکن دو ماہ بعد پتا چلا کہ یہ کام اتنا بھی آسان نہیں جتنا میرے بیٹے نے سمجھا تھا۔ دو ماہ کے دوران اُسے ایک بھی Sale نہ مل سکی۔ بیٹا بہت پریشان تھا اور مجھ سے نظریں بھی چرانے لگا تھا۔ میں نے اسے تسلی دی اور پانچ لاکھ مزید انویسٹ کر دیا۔ بیٹے کو حوصلہ ہوا اور اُس نے مزید محنت شروع کر دی۔ یہ سلسلہ تین ماہ چلا لیکن بیٹے کو پھر ناکامی ہوئی۔ اب کی بار وہ بہت روہانسا ہوگیا اور کہنے لگا ’بابا میں آپ کے مزید پیسے برباد نہیں کرنا چاہتا‘۔ اُس کی بات سن کر میں دل ہی دل میں ہنسا۔ دس لاکھ کی رقم سے اُسے جتنا تجربہ حاصل ہوا تھا وہ یونیورسٹی کے چار سال میں بھی نہیںمل سکتا تھا۔ میں نے اُسے پاس بٹھایااور پوچھا کہ تمہیں یہ کام کتنا آتا ہے؟ اُس نے بتایا کہ وہ بہت اچھی طرح اس کام کو جانتا ہے لیکن Sale نہ ہونے کی وجہ سے دل برداشتہ ہے۔ میں نے اُسے سینے سے لگایا اور مزید پانچ لاکھ دیے۔بیٹا چونکہ پہلے دس لاکھ کا نقصان برداشت کر چکا تھا لہٰذا اب اُس کے دل میں یہ بات بھی تھی کہ باپ کو کچھ کرکے دکھاناہے۔ اب کی بار جو اُس نے محنت کی ، اُس کا پھل بھی مل گیا اور وہ دو لاکھ روپے کمانے میں کامیاب ہوگیا۔ اُس کی خوشی کی انتہا نہیں تھی۔ وہ بار بار مجھے اپنی کامیابی کی باریکیاں بتا رہا تھا اور چاہتا تھا کہ میں اُسے داد دوں۔ میں نے بھی کھل کر اُسے شاباش دی اور یہ دولاکھ بھی بزنس میں ہی انویسٹ کرنے کا مشورہ دیا۔ بیٹے کی محنت رنگ لاتی گئی اور آج ماشاء اللہ اس کے پاس پندرہ لڑکوں کا اسٹاف ہے، بڑا آفس ہے اور تمام تر خرچے نکال کر وہ پانچ سے چھ لاکھ روپے منافع کما رہا ہے۔‘‘

دوست کی بات سن کر میں نے کان کھجائے۔’ لیکن اگر تمہارا بیٹاپھر بھی ناکام ہوجاتا تو؟؟؟‘۔ دوست نے قہقہہ لگایا۔ تو میں اسے پھر پیسے دیتاکیونکہ میرے حساب کے مطابق اس کی چار سالہ ڈگری کا خرچہ 50 لاکھ بن رہا تھا جس میں تجربہ صفر تھا جبکہ تجربے والے بزنس میں اگرچہ نقصان ہورہا تھا لیکن ہر گزرتے دن کے ساتھ اس کا تجربہ بڑھتا جارہا تھا۔ پندرہ لاکھ کی انویسٹمنٹ کے بعد ہی بیٹے کا تجربہ اتنا ہوگیا کہ وہ منافع کمانے لگا۔

میں اُس دن سے سوچ رہا ہوں کہ ہماری یونیورسٹیاں کیا سکھا رہی ہیں؟ یہ جو بچے ہزاروں ، لاکھوں روپے یونیورسٹیوں کی فیس کی مد میں ادا کرکے ڈگریاں حاصل کر رہے ہیں ان کو سرکاری یا پرائیویٹ سیکٹر میں نوکریاں کیوں نہیں مل رہیں؟ صرف اس لیے کہ ان کے پاس ڈگریاں ہیں، تجربہ نہیں...اور جب تجربے کی بات آتی ہے تو اِنہیں مجبوراً تیس ہزار کی نوکری کرکے مزید چار سال تجربہ حاصل کرنا پڑتاہے۔پوری دنیا میں ڈگریا ں ردی کا ٹکڑا بنتی جارہی ہیں۔بچے بن ٹھن کر جاتے ہیں، خوش گپیاں کرتے ہیں، یونیورسٹی کا ماحول انجوائے کرتے ہیں اور گھر آجاتے ہیں۔ یونیورسٹیاں بھی اِنہیں اِن کے ’حق ِ نوجوانی‘ سے محروم نہیں رکھتیں لہٰذا اِنہیں کچھ آئے نہ آئے، ڈگریاں ضرور مل جاتی ہیں۔تعلیم ضروری ہے لیکن علم بھی ضروری ہے۔ اگر آپ افورڈ کرسکتے ہیں تو اپنے بچوں کو تعلیم کے ساتھ ساتھ عملی زندگی میں کام کرنے کا موقع بھی فراہم کریں تاکہ تعلیم سے فارغ ہوکر یہ ہونقوں کی طرح منہ اٹھائے یہ نہ سوچتے رہ جائیں کہ اب کیا کرنا چاہیے۔

تازہ ترین