• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تجارت بڑھانے میں علاقائی اور آزاد تجارتی معاہدے اہم کردار ادا کرتے ہیں لیکن پاکستان کے مختلف ممالک کے ساتھ آزاد تجارتی معاہدوں کے نتائج نہایت مایوس کن ہیں۔ مثلاً پاکستان اور ترکیہ نے اس سال ٹریڈ اور گڈز ایگریمنٹ (TIGA) سائن کیا لیکن اس میں ٹیکسٹائل مصنوعات کو شامل نہیں کیا گیا۔ 2011 میں پاکستان کی ٹیکسٹائل اور ڈینم فیبرک پر ترکیہ نے مقامی ٹیکسٹائل صنعت کو تحفظ دینے کیلئےکسٹم ڈیوٹی بڑھاکر 24 فیصد کردی جس سے پاکستان کی ترکیہ کو ٹیکسٹائل ایکسپورٹ 2 ارب ڈالر سے کم ہوکر ایک ارب ڈالر سالانہ رہ گئی۔ پاکستان اور امریکہ کے درمیان تجارت اور سرمایہ کاری فریم ورک (TIFA) سائن ہوا لیکن FTA سائن نہیں ہوسکا کیونکہ اس کیلئے باہمی سرمایہ کاری معاہدہ (BIT) ضروری ہے جو دنیا میں امریکی سرمایہ کاروں کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔ 2022 میں پاکستان اور امریکہ کے مابین باہمی تجارت 9.2 ارب ڈالر رہی جس میں پاکستان کی امریکہ کو ایکسپورٹ 6 ارب ڈالر اور امپورٹ 3.2 ارب ڈالر شامل ہے۔

پاک چین فری ٹریڈ ایگریمنٹ فیز 1 جو 2007 میں سائن ہوا تھا، پاکستان کے مایوس کن مذاکرات کے باعث یکطرفہ ثابت ہوا جس سے چین کی پاکستان کو ایکسپورٹ میں اضافہ ہوا۔ چین کی پاکستان ایکسپورٹ 18 ارب ڈالر تک پہنچ گئی جبکہ پاکستان کی چین کوایکسپورٹ بمشکل 2 ارب ڈالر رہی اور اس طرح 16 ارب ڈالر کا تجارتی سرپلس چین کے حق میں تھا ۔ FPCCI اور وزارت تجارت نے 2019 میں پاک چین آزاد تجارتی معاہدہ فیز 2 سائن کیا جس میں ٹیکسٹائل سمیت 363 مصنوعات کو چین نے ڈیوٹی فری ایکسپورٹ کی اجازت دی جس سے 2021ء میں پاکستان کی چین کو ایکسپورٹ 3.5ارب ڈالر اور چین کی پاکستان کو ایکسپورٹ 23ارب ڈالر ہوگئی ۔ پاکستان نے 2004 ءمیں ایران کے ساتھ ترجیحی تجارتی معاہدہ (PTA) سائن کیا لیکن دونوں ممالک کے مابین بارٹر ایگریمنٹ نہ ہونے کی وجہ سے پاک ایران تجارت فروغ نہ پاسکی جبکہ بھارت نے ایران کے ساتھ بارٹر ایگریمنٹ کی وجہ سے باسمتی چاول کی ایکسپورٹ اور پیٹرولیم مصنوعات کی امپورٹ سے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ باہمی تجارت بڑھانے کیلئے پاکستان نے سری لنکا، ملائیشیا، انڈونیشیا، ازبکستان اور ماریشس کے ساتھ آزاد تجارتی اور ترجیحی معاہدے کئے لیکن سری لنکا کے سوا تجارت کا سرپلس دیگر ممالک کے حق میں رہا اور پاکستان آزاد تجارتی معاہدے کے باعث صرف ٹیکسٹائل مصنوعات سری لنکا ایکسپورٹ کرسکا۔

ملکوں کے درمیان تجارت بڑھانے کا دوسرا کامیاب ماڈل علاقائی تجارت ہے ۔ امریکہ، میکسیکو اور کینیڈا کے مابین آزاد تجارتی معاہدہ (NAFTA) کی وجہ سے ان ممالک کے مابین باہمی تجارت 63 فیصد ہے۔ دوسرا بلاک یورپی یونین (EU) کے 27 ممالک کا ہے جن کی باہمی تجارت 60فیصد ہے۔ تیسرا بلاک آسیان ممالک کا ہے جس کی باہمی تجارت 20فیصد ہے اور چوتھا ہمارا علاقائی بلاک SAARC ہے جس کی باہمی تجارت صرف 5 فیصد ہے جس کی وجہ پاکستان اور بھارت کے خراب تعلقات ہیں حالانکہ سارک ممالک نے سافٹا ایگریمنٹ سائن کیا تھا لیکن پاکستان اور بھارت کے مابین کشیدہ سفارتی تعلقات کی وجہ سے سارک ممالک کے مابین تجارت نہیں بڑھ سکی۔ پاکستان کے FTA اور RTA تجارتی معاہدوں میں سب سے کامیاب یورپی یونین کے ساتھ پاکستان کا GSP پلس معاہدہ ہے جس کی رو سے پاکستان 27 یورپین ممالک کو 6300 ٹیکسٹائل اور دیگر مصنوعات بغیر کسٹم ڈیوٹی ایکسپورٹ کرسکتا ہے جس کے نتیجے میں پہلے 5سال میں پاکستان کی یورپی یونین ایکسپورٹ میں 15 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا۔ پاکستان کی یورپی یونین موجودہ ایکسپورٹ 6.8ارب ڈالر اور امپورٹ 5.3 ارب ڈالر ہے جس سے باہمی تجارت 12.1 ارب ڈالر ہوگئی ہے ۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ گزشتہ سال بھارت کی مخالفت کے باوجود یورپی یونین نے پاکستان کیلئے 2023 میں ختم ہونے والے GSP پلس معاہدے میں 4 سال کیلئے 2027 تک توسیع کردی ہے۔

دنیا میں 2022 میں سب سے زیادہ ایکسپورٹ کرنے والے 11 ممالک میں پہلے نمبر پر چین 3600 ارب ڈالر، دوسرا امریکہ 2100 ارب ڈالر، تیسرا جرمنی 1700 ارب ڈالر، چوتھا نیدر لینڈ 965 ارب ڈالر، پانچواں جاپان 747 ارب ڈالر، چھٹا جنوبی کوریا 683 ارب ڈالر، ساتواں اٹلی 657 ارب ڈالر، آٹھواں بلجیم 633 ارب ڈالر، نواں فرانس 618 ارب ڈالر، دسواں ہانگ کانگ 609 ارب ڈالر اور گیارہواں یو اے ای 598 ارب ڈالر شامل ہیں۔ ان 11 ممالک کی مجموعی ایکسپورٹ 12000 ارب ڈالر دنیا کے باقی تمام ممالک کی ایکسپورٹ سے زیادہ ہے۔ دنیا میں 10 بڑی ایکسپورٹ مصنوعات میں پہلے نمبر پر آئل اینڈ گیس، دوسرا آٹو موبائل، تیسرا فارماسیوٹیکل، چوتھا ایپرل، پانچواں پلاسٹک اینڈ پیکیجنگ، چھٹا آٹو پارٹس، ساتواں الیکٹرونکس، آٹھواں آئرن اسٹیل، نواں سیمی کنڈکٹر اور دسواں پیپر شامل ہیں۔ تجزیئے سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ہم نے مختلف ممالک کے ساتھ آزاد اور ترجیحی تجارتی معاہدے جلدی میں بغیر ہوم ورک کئے جس کی وجہ سے پاکستان کی ایکسپورٹ میں اضافہ نہ ہوسکا۔ اس کے علاوہ پاکستان کو اپنے تجارتی پارٹنرز کے ساتھ بارٹر ایگریمنٹ بھی کرنے چاہئیں تاکہ فارن ایکسچینج کی ادائیگی کے بغیر لین دین کے ذریعے بارٹر تجارت کی جاسکے۔ حکومت کو چاہئے کہ ان تمام آزاد تجارتی معاہدوں کا نئے سرے سے جائزہ لے۔ جیسا کہ چین کے ساتھ فیز 2 معاہدے میں کیا گیا تاکہ مارکیٹ رسائی کیلئے ایسے موثر آزاد تجارتی معاہدے کئے جائیں جس سے تجارت کا سرپلس پاکستان کے حق میں ہو۔

تازہ ترین