• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گوکہ 2024ء کے الیکشن کے مکمل نتائج ابھی تک نہیں آئے لیکن تحریک انصاف کے نامزد امیدواروں کی پنجاب اور خیبر پختون خوا میں فقیدالمثال کامیابی نے پاکستان میں جمہوری نظام کے استحکام کو ایک نیا رستہ دکھادیا ہے۔اس الیکشن کے نتائج کے بعد ہو سکتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اور ایک بڑی سیاسی جماعت کے درمیان کسی قسم کا سمجھوتہ ہو جائے جس سے اسٹیبلشمنٹ سیاسی نظام میں مداخلت کے بارے میں اپنے کردار کو کم سے کم کرنے پر توجہ دے تاکہ آنے والے وقت میں سیاست دان آزادانہ طور پر اپنے فیصلے کر سکیں اورصرف عوام کو ہی سیاستدانوں کے احتساب کا مکمل طور پر اختیار حاصل ہو جائے۔

جب تحریک انصاف کی 2018ء کی حکومت ختم ہوئی تھی توحکومت میں پیدا ہونیوالے تضادات کا فائدہ اٹھاتی اور جس سے دوبارہ مخلوط حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد دائر کی جا سکتی تھی۔اس کے باوجود مخلوط حکومت کو فوری انتخابات کرادینے چاہئیں تھے۔ یوں صرف ڈیڑھ سال کے بعد تحریک انصاف کو اتنی پذیرائی حاصل نہ ہوتی۔ اسٹیبلشمنٹ نے بھی اس صورتحال کو سیاسی طور پر حل کرنے کی بجائے انتظامی طریقے استعمال کیے۔ تحریک انصاف کے رہنمائوں اور کارکنوں کے خلاف ریاستی مشنری کا استعمال کیا،یوں تحریک انصاف کے رہنمائوں اور کارکنوں نے اپنے قائد کی گرفتاری پر قومی تنصیبات کو نشانہ بنا کر اپنے مفادات حاصل کرنے کی کوشش کی مگر اسٹیبلشمنٹ نے اپنی حکمت عملی سے ان کوششوں کو ناکام بنا دیا۔ اس ساری صورتحال میں مہنگائی آسمان تک پہنچ گئی ۔آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک نے پاکستان کو قرض فراہم کرنے میں خون تھکوایا۔نومئی کے واقعات نے اسٹیبلشمنٹ کو وہ موقع فراہم کردیا جس سے بڑے پیمانے پر گرفتاریاں ہوئیں، تحریک انصاف کے سیاسی رہنمائوں کو ٹیلی ویژن پر پیش کیا گیا ،ان سے پریس کانفرنسیں کرائی گئیں،ان سے معافی نامے لکھوائےگئے، جس کے عوام کے ذہنوں پر بہت منفی نتائج مرتب ہوئے۔تاریخی طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ پاکستانی عوام کی ماضی میں دیکھنے کی صلاحیت بہت لمبی اور مضبوط نہیں ہے اور عوام فوری طور پر ہونے والے واقعات اور تضادات کو ذہن میں رکھتے ہوئے فیصلہ کرتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ اگر معاشی صورتحال بھی ناگفتہ بہ ہو تو عوام کا سارا جھکائو زیر عتاب سیاسی جماعت کی طرف ہوجاتا ہے۔پھر کتنے ہی حقائق بتائے جائیں عوام کا ان پر منفی ردعمل ہی ہوتا ہے یوں عوام اسلام آباد کے ہر فیصلے کو منفی اندازمیں ہی دیکھتے ہیں۔اس تمام صورتحال کا فائدہ تحریک انصاف کو ہوا، پھراسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ساتھ مسلم لیگ ن کی قیادت نے بھی عوام میںپیدا ہونے والے جذبات کے تدارک کے بارے میں نہیں سوچا۔یہ کہا جا سکتا ہے کہ مسلم لیگ کی قیادت نے انتہائی غیر سنجیدہ رویہ اختیار کیااور ان کا خیال تھاکہ اسٹیبلشمنٹ اپنی حکمت عملی سے ان کے لیے بہتر نتائج فراہم کرنے میں کامیاب ہوجائے گی۔نوازشریف ،شہباز شریف اور مریم نواز نے بڑی دیر میں انتخابی مہم شروع کی اور اپنی مہم میں معاشی مسئلے کا حل دینے کی بجائے پورا وقت سابقہ حکومت پر تنقید میں گزار دیا۔اس کے ساتھ ساتھ منشور جو کہ انتخاب کی سب سے اہم دستاویز ہوتی ہے انتخابات سے صرف ایک ہفتہ پہلے منظر عام پر لایا گیا۔میاں صاحب نے نہ صرف کسی میڈیاہائوس کو انٹرویو دینے کی زحمت گوارا کی بلکہ انہوںنے سندھ کا دورہ بھی نہیں کیا۔دوسری طرف انتخابی نشان چھن جانے اور تمام تر جبر کے باوجود جو کہ اس سے پہلے75 سالہ پاکستانی سیاسی تاریخ میں کبھی دیکھنے کو نہیں ملا،تحریک انصاف کی قیادت کہیں نہ کہیں اور کسی نہ کسی صورت میں برقرار رہی۔وقت نے ثابت کیا ہے کہ گوہر خان ،حامد خان اور وکلاء کو قیادت سونپناعمران خان کا بہت ہی بولڈ اور بہترین فیصلہ تھا جس سے اسٹیبلشمنٹ نبردآزما نہ ہو سکی۔ان وکلاء نے بدترین حالات کے باوجودقانونی جدوجہد پر زور دیا۔حالانکہ بعض مبصرین کا خیال تھا کہ تحریک انصاف الیکشن کا بائیکاٹ کرے گی لیکن نئی قیادت نے نہ صرف انتخابات کا بائیکاٹ نہ کیا بلکہ دھرنا دینے کی روایت کے بارے میں بھی سختی سے انکار کردیا۔ حتیٰ کہ جب سپریم کورٹ نے نشان واپس لینے کا فیصلہ کیا تو اس دوران بھی تحریک انصاف کی قیادت نے ذمہ داری کا مظاہر ہ کیاجس کا سارا فائدہ تحریک انصاف کی مہم کو ہوا۔انتخاب والے دن موبائل اور انٹر نیٹ کی سروس کی معطلی کا فائدہ بھی تحریک انصاف کو ہوا جنہوں نے جوق درجوق اور منظم طریقے سے پولنگ اسٹیشن پر جا کر اپنے اپنے امیدواروں کے حق میں ووٹ کاسٹ کیے۔ حالانکہ انتخاب والے دن تک ان کے امیدواروں اور کارکنوں کی گرفتاریاں جاری رہیں، جس سے عوام میں تحریک انصاف کے لیے مزید ہمدردی پیدا ہوئی۔

پاکستان میں ہونے والے 12ویں انتخابات 75سالہ سیاسی تاریخ کے منفرد انتخابات ہیں جن میں تمام تر ریاستی جبر اور پری پول رگنگ کے باوجود تحریک انصاف کی قیادت اور ووٹرز نے انتخابی عمل میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔ تحریک انصاف کے کارکنوں نے اپنی جدوجہد سے یہ ثابت کیاہے کہ بڑے خاندانوں اور سرمایہ دارانہ سیاست کا مقابلہ منظم سیاسی تنظیم، جوش اور سیاسی طاقت سے کیا جا سکتا ہے۔ اس الیکشن میں جہاں بہت ساری اور روایتوں کو دھچکا پہنچا ہے وہیں خاندانی پارٹیوں اور موروثی سیاست پر کاری ضرب لگی ہے، یہ تمام تر تبدیلیاں ارتقاء پذیر ہو کر بہتر سیاسی روایتیں قائم کر سکتی ہیں۔ اگر ان انتخابات کو طاقت بالمقابل تحریک انصاف کہا جائے تو شاید غلط نہیں ہو گا۔ ان انتخابات سے الیکشن کمیشن کی کارکردگی بھی بری طر ح عیاں ہو ئی ہے۔ وہ فیصلے جو اصول کے مطابق انتخابی دن کے رات دس بجے تک آ جانے چاہئیں تھے دوسرا آدھا دن گزر جانے کے باوجود نہیں آسکے جس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ پاکستانی سماج کو جمہوری ارتقاء میں بہت لمبا سفر درکار ہے۔ انتخابات کا آخری فیصلہ کچھ بھی ہو پاکستان کی تمام سیاسی پارٹیوں کو مل بیٹھ کر ایک نئے میثاقِ جمہوریت کو دل و جان سے تسلیم کرنا چاہیے تاکہ آئندہ کوئی بھی جماعت اسٹیبلشمنٹ کی بیساکھیوں کو ترجیح دینے کی بجائے عوامی حمایت پر انحصار کرے جو کہ اس الیکشن کا ایک بنیادی سبق بھی ہے۔

تازہ ترین