• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عوام گھروں سے نکلے۔ پولنگ اسٹیشنوں پر آئے۔ اپنی مرضی سے بیلٹ پیپر پر اپنے امیدواروں کے نشان پر مہر لگائی۔باہر نکل کر اپنے نشان لگے انگوٹھوں کو چوما۔ تصویریں بنائیں۔ فاتحانہ فیس بک پر آویزاں کیں۔ واٹس ایپ سے اپنے عزیز و اقارب اور رابطوں کو بھجوائیں۔ چہروں پر ایک طمانیت تھی۔ تسکین تھی۔ ایک فرض کی انجام دہی کی بشاشت۔ ایک قرض کا بوجھ اترنے کا لطیف احساس۔

عوام آگے نکل گئے۔ حکمران طبقے پیچھے رہ گئے۔ خاک نشیں سربلند ہوئے۔ اشرافیہ سرنگوں۔ خواص کرب میں تھے کہ تین روز لگاتار سزائیں۔ سب سے بڑی عدالت سے بیلٹ پیپر سے انتخابی نشان ہٹانے کا حکم۔ اخبارات۔ ٹیلی وژن پر نام لینے پر پابندی۔ جلسے جلوس کی ممانعت۔ لگی کرسیاں پولیس والے اپنے ٹرکوں پر لاد کر لے گئے۔ کارکن پکڑ لیے گئے۔ مولانا فضل الرحمن بڑے اعتماد سے کہتے رہے کہ عمران خان سیاست میں ایک غیر ضروری عنصر ہے۔ اس کی تائید طاقت وروں نے بھی کی۔ سیاست کو اس غیر ضروری عنصر سے پاک کیا ۔ الیکشن کمیشن نے اپنے قواعد و ضوابط اتنے غور سے نہیں پڑھے ہوں گے جتنے انہماک سے پاکستان تحریک انصاف کا آئین پڑھا۔ سپریم کورٹ نے بھی پی ٹی آئی کے آئین کے ایک ایک نکتے پر قیام کیا۔ پارٹی کے امیدواروں سے اجتماعی نشان چھین لیا گیا۔ امیدواروں کو آزاد الیکشن لڑنے پر مجبور کیا گیا۔ عجیب عجیب انتخابی نشان الاٹ کیے گئے۔ سبزیاں، پھل، اوزار کم پڑ گئے۔

سوشل میڈیا طاقت وررہا، باقاعدہ میڈیا کمزور پڑ گیا۔

جمعرات کو سورج غروب ہونے سے پہلے جب بیلٹ بکس الٹائے گئے تو بہت سے برج بھی الٹنے لگے۔ بکسوں سے پرچیاں نہیں گویا برچھیاں باہر آئیں۔ اور حکمرانوں کے سینے میں اترتی گئیں۔

کوئی میرے دل سے پوچھے ترے تیر نیم کش کو

یہ خلش کہاں سے ہوتی جو جگر کے پار ہوتا

آٹھ سے دس بجے تک کے دو گھنٹے اس خلش نے مسند نشینوں کو تڑپا دیا۔ سب سکتے میں رہ گئے۔ بادشاہ گر بھی۔ منصوبہ ساز بھی۔ کپڑے اتارنے والے بھی نقشے سرخ نشانوں کے ساتھ پڑے رہ گئے۔ سافٹ ویئر اشکبار ہوگئے۔ اسمارٹ فون دھڑکنے لگے۔ غلام گردشوں میں کارندے دوڑنے بھاگنے لگے۔ ایک دوسرے پر طعنے کسے گئے۔ سودوں کا حوالہ دیا گیا۔ وڈیو لیکس کی دھمکیاں۔اسکرین حیران وپریشان۔ گنتی رک گئی۔ رپورٹرز کی رزلٹ دینے کی دوڑ معلق ہوگئی۔ تجزیہ کار اس تعطل کا کوئی جواز نہ دے سکے۔ کہا گیا کہ نیٹ ورک جواب دے گیا ہے۔ نیٹ ورک چیخ چیخ کر کہتا رہا میں تو حاضر ہوں۔ میری تاریں۔ میرے ضابطے۔ وائی فائی رابطے۔ سب رواں دواں ہیں۔ کہا گیا کہ اب نتائج پولنگ اسٹیشنوں سے نہیں الیکشن کمیشن سے جاری کیے جائیں گے۔

خبر چلتی ہے کہ پنڈال سجا ہوا ہے۔ لیکن چوتھی بار وزیر اعظم بننے والے ’’تقریر تسخیر‘‘ وکٹری اسپیچ کیے بغیر اپنی خواب گاہ کو روانہ ہوگئے ہیں۔

صبح 8بجے سے شام 5 بجے تک 12کروڑ ووٹر۔ اپنے پولنگ اسٹیشن ڈھونڈنے اپنے ووٹ ڈالنے میں مصروف رہے۔ مائوں بہنوں بیٹوں بھائیوں نے انتخاب کا فریضہ انجام دیا۔ میڈیا سے نشر ہونے والے نتائج سے خیموں۔ قلعوں۔ راہداریوں۔ سائونڈ پروف محلوں میں بیٹھے عقل کل کے دعویداروں کو خیال آیا کہ اب ’حسن انتخاب‘ نظریۂ ضرورت بن گیا ہے۔ عمرانی شعور سلامتی کے لیے خطرہ ہے۔ عوامی سیلاب کے آگے بند باندھنا ضروری ہے۔ اس کا رُخ موڑنا ناگزیر ہے۔ وہ زمینیں تو سیراب نہیں ہورہی ہیں جو سمندر سے نکالی گئی ہیں۔ کئی ہزار میل سے لائے گئے رقبوں کی پیاس نہیں بجھ رہی ہے۔ یہ کیا ہوا ہے کہ آندھیاں زور کی ہیں۔ مگر جمہوری امنگوں کے چراغ بجھ ہی نہیں رہے۔

تدبیر کند بندہ،تقدیر زند خندہ

عوام نے سرمائے اور شمشیر دونوں کو شکست دے دی ہے۔ جہاں ایک سال ضمنی انتخاب نہیں ہونے دیے گئے۔ وہیں خاک نشیں عرش نشیں بن رہے ہیں۔

غیر ملکی مبصرین نے بھی دیکھا کہ واہگہ سے گوادر تک غربت کی لکیر سے نیچے کے پامال۔ نادار۔ متوسط طبقے کے بے روزگار۔ سفید پوش جگہ جگہ اپنے تدبر کا علم بلند کررہے ہیں۔ متانت۔ بصیرت۔ آگہی غلاموں کی پیشانیوں پر نظر آرہی ہے۔ بیلٹ بکسوں سے بیلٹ پیپر نہیں بے باکی۔ دور اندیشی بے تاب بے چین برآمد ہورہی ہے۔

واشنگٹن دم بخود ہے۔ لندن انگشت بدنداں۔ آدم خاکی کو عروج کیوں مل رہا ہے۔ یہ ٹوٹے ہوئے تارے مہ کامل کیوں بن رہے ہیں۔ 7+14+10 سال کی سزائوں کا بوجھ اتنا ہلکا کیسے ہورہا ہے۔ قیدی 804 کی کوٹھڑی کی سلاخیں کیوں پگھل رہی ہیں۔ پھر اسمارٹ فون پکڑے ہاتھوں نے دیکھا۔ ٹی وی چینلوں کے سامنے بیٹھے خاندانوں نے محسوس کیا کہ رات کے ہارے ہوئے صبح کے اجالے میں جیت رہے ہیں۔ اشراف چہروں پر پانی کا چھپاکا مار کر آنکھیں کھول رہے ہیں۔صبح آزادیٔ کامل کی ایک تمنّائی کہتی ہے۔ ابھی بھی عوامی رائے پر اپنی رائے مسلط کرنے کی تیاری ہے۔ فیصلہ ساز اگر ملکی مفاد یا جمہور کی رائے کی عزت کو مقدم جانتے تو یہ حالات نہ ہوتے۔آپ کی کھلی آنکھیں جب یہ سطور پڑھ رہی ہوں گی۔ اتوار کو جب آپ اپنے بیٹوں بیٹیوں۔ پوتوں پوتیوں۔ نواسوں نواسیوں۔ بہوئوں دامادوں کے ساتھ کھانا کھارہے ہونگے تو واضح ہوچکا ہوگا کہ حکمت عملی عمران خان کی کامیاب رہی یا مخالفین کی ۔ جن میں سارے طاقتور شامل تھے۔ عوام کی رائے کو اہمیت دی گئی یا پھر 12 کروڑ سے مینڈیٹ چھین لیا گیا۔

ہمیں اللہ تعالیٰ کے حضور سر بسجدہ ہوکر یہ شکر ادا کرنا چاہئے کہ جاگیرداروں، سرداروں، سرمایہ داروں، ٹھیکیداروں، جانبازوں کے شکنجوں میں پھنسے مجبور، مقہور عوام نے اپنے سیاسی، سماجی، اقتصادی اور عمرانی ادراک کا مظاہرہ کیا ہے۔ مستحکم مستقبل کا تقاضا ہے کہ حکمراں طبقے عوامی بیداری سے مزاحمت کرنے کی بجائے اس کا احترام کریں۔ اس سے ہی عوام کا ریاست پر اعتماد بحال ہو سکتا ہے۔ ملک کے مالک عوام ہیں۔ پیداواری وسائل سب کی ملکیت ہیں۔ یہ کروڑوں بہت ہی پُر امن انداز میں اپنے ضمیر کی آواز بلند کر رہے ہیں۔ رنگ نسل زبان مذہب مسلک سے بلند تر ہو کر جمعرات 8فروری کو انہوں نے اپنے قلبی رجحانات کھل کر بتا دیے ہیں۔ اپنی ’لوکیشن‘ آپ کو بھیج دی ہے۔ اب آپ ان کو ساتھ لے کر منزل مقصود کی طرف رواں ہو جائیں ۔ عافیت اسی میں ہے۔ انقلاب فرانس سے ڈریں۔ روسی انقلاب پر مجبور نہ کریں۔ چین کے لانگ مارچ کا انتظار نہ کریں۔

کھول آنکھ زمیں دیکھ فلک دیکھ فضا دیکھ

مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ

شاخ نازک پر آشیانہ بنانے کی کوششیں ناپائیدار ہوں گی۔

تازہ ترین