• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہمارے علاقے میں نیا میڈیکل اسٹور کھلا ہے، نئی انتظامیہ اور نئے جذبے کے ساتھ۔ گھر میں سر درد کی گولیوں کا پتا ختم تھا تو وہاں لینے چلا گیا۔ کائونٹر پر موجود نوجوان سے کہا ایک پتا پیناڈول کا درکار ہے، اُس نے دوسرے کاؤنٹر کی طرف اشارہ کر دیا، میں اُس طرف گیا تو وہاں موجود سیلز مین نے بات سُن کر سر کو جُنبش دی اور پیچھے جا کر غائب ہو گیا۔ چند منٹ بعد اُس کی واپسی ہوئی تو ہاتھ میں گولیوں کا پتا تھا، میں نے پیسے پوچھے تو اُس نے کہا وہ کیش کاؤنٹر پر ادا کیجیے۔ میں کیش کاؤنٹر پر گیا تو وہاں موجود شخص نے کمپیوٹر کھول رکھا تھا، اُس نے میرا نام پوچھا، فون نمبر نوٹ کیا اور پھر پیناڈول کا پتا مجھ سے لے کر لفافے میں ڈال دیا اور ساتھ ایک رسید بھی تھما دی۔ میں نے دوبارہ پیسے دینے چاہے تو اُس نے ہاتھ سے منع کر دیا۔ ساتھ کیشئر موجود تھا، اُس کے پاس میری رسید کی کاپی پہنچ چکی تھی، جس پر میرا نام لکھا تھا، اُس نے میرا نام پکارا، پیسے بتائے، بالآخر میں نے اسے تیس روپے دیے اور میڈیکل اسٹور سے باہر نکل آیا۔ اِس پورے عمل میں مجھے تقریباً پانچ سے سات منٹ لگ گئے کیونکہ خوش قسمتی سے اُس وقت کوئی اور گاہک نہیں تھا۔ آج سے پندرہ بیس سال پہلے جب میڈیکل اسٹورز پر کمپیوٹر اور بیورو کریسی کا قبضہ نہیں ہوا تھا تو یہ سارا کام زیادہ سے زیادہ آدھے منٹ میں ہو جایا کرتا تھا۔

یہ واقعہ سنانے کی ضرورت اِس لیے پیش آئی کہ جب سےملک میں عام انتخابات کے نتائج کو شفاف انداز میں عوام تک پہنچانے کے لیے ٹیکنالوجی کا استعمال شروع ہوا ہے، نتائج اُلٹا تاخیر سے آنے لگے ہیں، گویا جو کام پہلے رات دس یا بارہ بجے تک مکمل ہو جایا کرتا تھا وہ اب تیسرے دن تک بھی لٹکا ہوتا ہے۔ مجھے یاد ہے 1993کے انتخابات میں، میں ایک انگریزی اخبار کے ساتھ منسلک تھا، مرحوم رحمت علی رازی اُس ادارے کے اردو اخبار کے سینئر رپورٹر تھے۔ جس رات انتخابات کے نتائج کا اعلان ہونا تھا اُس رات انہوں نے مجھے ساتھ لیا اور ریٹرننگ آفیسر کے دفتر لے گئے، یہ میرے لیے بالکل ایک نیا تجربہ تھا، ہم نے وہاں کچھ دیر انتظار کیا، رازی صاحب نے وہاں سے لاہور کے حلقوں کے نتائج اکٹھے کئے جنہیں ہم نے خبر کی شکل میں اپنے اخبار میں دے دیا۔ بات ختم۔ اب یہی کام اِس قدر بیورو کریٹک انداز میں ہوتا ہے کہ پورا انتخابی عمل خواہ مخواہ مشکوک بن جاتا ہے۔ اِس سے بھی پیچھے چلتے ہیں، مجھے یاد ہے کہ 1988 اور 1990میں بھی انتخابات کے نتائج رات گئے تک واضح ہو جایا کرتے تھے، دلچسپ بات یہ ہے کہ اُس وقت صرف پی ٹی وی ہوا کرتا تھا اور اُس کی الیکشن ٹرانسمیشن دیکھنے والی ہوتی تھی، کبھی شائبہ تک نہیں ہوا کہ نتائج میں تاخیر کی جا رہی ہے۔ اُن دنوں فاٹا کے حلقوں کا نتیجہ سب سے پہلے آتا تھا اور وہاں سے ہمیشہ آزاد امیدوار ہی جیتا کرتے تھے۔ اور پھر اُس کے بعد آہستہ آہستہ دیہی اور پھر شہری حلقوں کے نتائج آنا شروع ہوتے تھے اور رات ڈیڑھ دو بجے تک صورتحال بالکل واضح ہو جاتی تھی کہ کس کی حکومت بنے گی۔ اب ہم 2024 میں ہیں اور اپنے تئیں ہم نے نظام کو کمپیوٹرائزڈ کر لیا ہے، سو اصولاً اب جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے انتخابی نتائج زیادہ تیز رفتاری سے سامنے آنے چاہئیں، مگر بد قسمتی سے اِس نظام کا حال ہم نے اسی جدیدمیڈیکل اسٹور جیسا کر دیا ہے جہاں پیناڈول کی ایک گولی لینے میں دس منٹ لگ جاتے ہیں۔

انتخابی عمل کا ایک تجربہ ووٹ ڈالنا بھی ہے۔ میرا ووٹ اِس مرتبہ جس علاقے میں تھا اُس سے میرا دور دور تک کوئی تعلق نہیں، نہ میں وہاں پیدا ہوا نہ کبھی رہا، نہ اُس حلقے میں کبھی گیا اور نہ اُس کے مسائل کا مجھے کچھ پتا تھا، نہ جانے کس منطق کے تحت میرا ووٹ ایک جگہ سے اٹھا کر دوسری جگہ منتقل کر دیا گیا۔ اور اگر کوئی منطق تھی، جس کا سمجھنا ووٹر کے لیے ضروری نہیں تھا، تو وہ منطق گھر کے دیگر افراد پر بھی اسی طرح لاگو ہونی چاہیے تھی مگر ایسا نہیں ہوا، میرے گھر کے ہر فرد کا ووٹ مختلف پولنگ اسٹیشن پر تھا یعنی اگر ہمارے پاس اپنی سواری نہ ہوتی تو یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ ہم سب اپنا ووٹ کاسٹ کر پاتے۔ جس پولنگ اسٹیشن پر میں نے ووٹ ڈالا وہ ایسی جگہ بنایا گیا تھا جس کے راستے میں گوبر کے پہاڑ تھے۔ میں نے پنجاب ،خیبر پختونخوا اور سندھ کے دیہات دیکھے ہیں، کہیں کوئی گاؤں صاف ستھرا ملا، کہیں نہیں ملا، مگر جوگندگی میں نے لاہور کے اِس نواحی گاؤں میں دیکھی وہ اِس سے پہلے کبھی نہیں دیکھی۔ خیر یہ بات تو یونہی درمیان میں آ گئی، اصل بات یہ تھی کہ ایسے پولنگ اسٹیشن پر بھی ووٹ ڈالنے کے عمل میں کوئی رکاوٹ نہیں تھی، لوگوں کی طویل قطار تھی، دیہاتی ووٹر بھی تھے اور شہری بھی، پولیس کے جوان بھی مستعد کھڑے تھے اور پولنگ کا عملہ بھی کام ٹھیک کر رہا تھا۔ بات پھر وہیں آ جاتی ہے کہ جب پولنگ کا عمل شفاف طریقے سے مکمل ہو جاتا ہے تو پھر انتخابی نتائج میں تاخیر کا کوئی جواز باقی نہیں رہتا، غیر معمولی تاخیر سے صرف سازشی تھیوریوں کو تقویت ملتی ہے، ہمارے ملک میں لوگ چونکہ پہلے ہی اِس پورے عمل سے شاکی ہیں اِس لیے کسی بھی قسم کی دیری اُن کے شکوک و شبہات کو یقین میں بدل دیتی ہے کہ ہونا ہو دال میں کچھ کالا ہے۔

اسی میڈیکل اسٹور میں واپس جاتے ہیں، اگر وہاں ایک جگہ صرف یہ لکھ کر آویزاں کر دیا جاتاکہ ’چھوٹے خریداروں کے لیے‘ اور وہاں انہیں کھڑے کھڑے کیش لے کر دوا دے دی جاتی تو مسئلہ حل ہو جاتا۔ اسی طرح انتخابی نتائج چاہے کتنی ہی جانفشانی، عرق ریزی اور ایمانداری سے مرتب کیوں نہ کیے جائیں، اگر اُن کی فراہمی میں دو دن لگ جائیں گے تو ایسی بیورو کریسی اور جدید ٹیکنالوجی کا فائدہ ہونے کی بجائے اُلٹا نقصان ہو گا۔ ہمارے جیسے ملک میں جہاں پہلے ہی عوام اندیشوں اور وسوسوں میں گھرے رہتے ہیں، اِس قسم کی کارکردگی نہ صرف اُن کا جمہوری عمل پر اعتماد متزلزل کر دیتی ہے بلکہ اُن تمام اندیشوں کو بھی تقویت دیتی ہے جن میں چاہے کوئی صداقت بھی نہ ہو۔ اپنے پیر پر کلہاڑی مارنا شاید اسی کو کہتے ہیں! میں کسی آئیڈئل مغربی جمہوری ملک کی بات نہیں کر رہا بلکہ اپنے ملک کی مثال دے رہا ہوں جہاں پہلے یہ سارا انتخابی عمل بغیر کسی ٹیکنالوجی اور خواہ مخواہ کی افسر شاہی کے، الیکشن کی رات تک مکمل ہو جاتا تھا۔ سو کیا یہ بہتر نہیں کہ ہم وہی سسٹم اپنا لیں جو 1988 سے 1997تک ٹھیک کام کرتا تھا، کم از کم سازشی تھیوریوں سے تو نجات ملے گی؟ 2024 سے تو 1988 بہتر تھا!

تازہ ترین