پاکستان کے شمالی علاقے فلک بوس چوٹیوں، برفیلے پہاڑوں، آبشاروں، دریاؤں، بل کھاتے ندی نالوں خوبصورت وادیوں اور قدرتی نظاروں سے مالا مال ہیں۔ 2012میں مجھے ایک Korean گروپ کو KKH ٹور کروانا تھاجس میں 10مرد اور 8خواتین شامل تھیں، ٹور لاہور سے شروع ہو کر چائنہ بارڈر پر ختم ہونا تھا۔ دس دن کے اس ٹور میں پیش آنے والے واقعات اور شمالی علاقوں کی خوبصورتی کو ایک کالم میں نہیں سمویا جا سکتا اس لئے یہاں صرف لاہور سےFairy Meadow تک کے سفر کا ذکر کر رہا ہوں۔ آئیے ٹور کی طرف چلتے ہیں، اتوار کا دن تھا میں صبح ہوٹل کی لابی میں پہنچ گیا آہستہ آہستہ گروپ ممبران آتے گئے اور تعارف ہوتا گیا پھر سب ہی کوسٹر میں سوار ہو گئے۔ پہلا دن ہمارا شہر لاہور کی سیر کے لئے تھا۔ لاہور گھوما تاریخی عمارتیں دیکھیں، مزے مزے کے کھانے کھائے، شام کو انار کلی اور اندرون شہر کے رنگا رنگ بازاروں سے خریداری کی۔دوسرا دن اسلام آباد کی فیصل مسجد اور دوسرے سیاحتی مقامات کو دیکھ کر گزر گیا۔اگلے دن ہماری کوسٹر ہری پور، حسن ابدال سے ہوتی ہوئی تھاہ کوٹ پہنچی جہاں سے ہمارا KKHکا باقاعدہ سفر شروع ہو گیا۔ وہاں سے دریائے سند ھ کے ساتھ ساتھ ہماراسفر جاری رہا، پہاڑوں کا رنگ براؤن اور سبزہ بہت کم تھا۔ داسوں، پٹن کے پاس ہزاروں سال پرانی Rock Carvingدیکھتے ہوئے ہم چلاس میں ہوٹل پہنچے۔ صبح ہم Fairy Meadow کی طرف روانہ ہو گئے، راستہ میں KKHکے دائیں جانب سڑک کے بالکل کنارے پر اور پھر بائیں جانب تھوڑا پیدل چل کر دریائے سندھ کے دوسری طرف پل عبور کر کے اور بہت سی rock carvings دیکھیں۔ پھر ہم رائے کوٹ پل پر پہنچے، جہاں سے ہمیں کوسٹر سے اتر کر آگے دائیں جانب فیری میڈو کی طرف او پر جیپ میں جانا تھا۔ ایک جیپ میں سب ٹورسٹ نے اپنا سامان رکھا اور باقی جیپوں میں ہم سب بیٹھ گئے۔ تقریباً ڈیڑھ گھنٹے کی دشوار گزار گھاٹیوں سے گزرتے ہوئے ہم تاتو گاؤں پہنچ گئے، یہ چند نفوس پر مشتمل چھوٹا سا ایک گاؤں ہے۔ ویسے تو جولائی کا مہینہ تھا اور چلاس میں بھی کافی گرمی تھی لیکن تاتوگاؤں میں ہمیں باقاعدہ سردی لگنے لگی۔ یہاں ایک چھوٹا سا Stop over ہے لکڑی کی کچھ جھونپڑیاں ہیں جہاں ہم نے اپنا اضافی سامان رکھوا دیا۔ جیپ اس سے آگے نہیں جا سکتی تھی اور اب ہمیں آگے کافی چڑھائی چڑھ کرFairy Meadow پہنچنا تھا۔ پاکستانی ٹورسٹ زیادہ تر گھوڑوں اور خچروں پر بیٹھ کر جا رہے تھے جبکہ Korean گروپ پیدل ہی تھا۔ ہمار ے بائیں جانب رائے کوٹ گلیشیر تھا اور ہم چڑھائی چڑھتے جا رہے تھے، جوں جوں ہم بلندی کی طرف جا تے گئے سردی اور زیادہ بڑھتی گئی۔تقریباً دو گھنٹےچلنے کے بعد ہم ایک وسیع میدان فیری میڈو میں تھے، ہمارے سامنے برف سے ڈھکا ہوا دودھ کی طرح سفید نانگا پربت کا پہاڑ تھا۔ نانگا پربت پہاڑ کے مختلف نام ہیں جیسے کہ King of the Mountains،Naked Mountain،Killer Mountain اس کی سطح سمندر سے بلندی 26600فٹ ہے۔ اس خوبصورت وادی کو Fairy Meadowکا نام پہلی بار جرمن مہم جو Herman Buhl اور اسکی ٹیم نے1950میں دیا، اس دل کو موہ لینے والی وادی کو دیکھتے ہی انھوں نے ایک دم جرمن زبان میں کہا Ma rchenwiese, جس کا اردو ترجمہ ہے، پریوں کی چراگاہ۔ ہمارے بائیں طرف بہت بڑا گلیشیر، سامنے گھنا جنگل پھر برف سے ڈھکا ہوا نانگا پربت بالکل آپکے سامنے، یہ منظر دیکھیں تو جادو نگری کا سا گمان ہوتا ہے۔ اتنا دلکش نظارہ واہ جیسے ہم جنت کی کسی وادی میں آگئے ہو۔ ہم اس وقت سطح سمندر سے 10800فٹ کی بلندی پرتھے، مجھے لگتا ہے کہ فیری میڈو کی خوبصورتی کو میں الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا، پتہ ہی نہ چلا کہ کب 3بج گئے۔ دوپہر کا کھانا آ گیا۔ کھانے کے بعد ہم Huts کی دوسری طرف ایک طلسماتی جھیل دیکھنے گئے، اس جھیل کا نامReflection Lake یا تارڑ جھیل ہے کیونکہ مستنصر حسین تارڑ صاحب نے اپنے سفر ناموں میں اس جھیل کا پہلی بارذکر کیا۔اس جھیل کے اندر نانگا پربت کا پورا عکس دکھا ئی دے رہا تھا، ہم وہاں بیٹھ گئے، وہاں جا کر احساس ہوتا ہے کہ اسے فیری میڈو ’پریوں کی چراگاہ‘ کیوں کہتے ہیں۔ شام کا اندھیرا چھانے لگا، سردی سے ہم ٹھٹھر رہے تھے لیکن جھیل کے اس د لفریب منظر نے ہم سب کو قید کر لیا، وقت جیسے رُک گیا ہو۔ ہم سب پر ایک عجب سا سحر طاری تھا، ہر طرف خاموشی تھی، وہاں کی خوبصورتی اور قدرت کو دیکھ کر یہ احسا س ہوتا ہےکہ واقعی ہی چاندنی راتوں میں یہاں پریاں اترتی ہو ں گی۔ رات Huts کے باہر Bonefire ڈِنر کا انتظام تھا کیا خوب منظر تھا،بہت زیادہ بلندی پر ہونے کی وجہ سے آسمان کافی قریب لگ رہا تھا اس پر چمکتے ستارے اور چاند کی روشنی کی وجہ سے سفید برف کی چادر اوڑھے نانگا پربت ایسے دکھائی دے رہا تھا جیسے کوئی سونے کا پہاڑ ہو۔ کافی دیر اس طلسماتی نظارے سے محظوظ ہونے کے بعد ہم اپنے Huts میں سونے کیلئے چلے گئے۔ اگلی صبح ہم بیال کیمپ کی طرف چل پڑے، گھنے جنگل میں تقریباً 3گھنٹے پیدل چل کر ہم بیال کیمپ پہنچ گئے۔ اب ہمارے سامنے آسمان کو چھوتا نانگا پربت،سرد ہوا کے جھونکے اور پگھلتی برف کا شور جو رائے کوٹ گلیشیر میں سے گزر تے ہوئے پانی بن کر دریائے سندھ میں جا گرتی۔ واللہ کیا لطف آرہا تھا، دنیاکے شور شرابے سے دور اور قدرت کو اتنے قریب سے دیکھ کرروح کو ایسی تسکین ملی جس نے ہمیں کئی سال تک تازہ دم رکھا۔ وہاں سے جانے کو کسی کا دل تو نہیں کر رہا تھا لیکن ہمیں اپنا KKHٹور جاری رکھنا تھا، جہاں ہمیں اور بہت سے جگہوں کی سیر کرنی تھی۔ہم وہاں سے پہلے Fairy Meadowآئے جہاں سب نے دوپہر کا کھانا کھایا اور سامان پیک کر کے واپسی کا سفر شروع کیا، اترتے وقت جلد ہی تاتو گاؤں پہنچ گئے۔ جہاں سے اپنا باقی سامان جیپوں میں رکھا اور دوبارہ رائی کوٹ پل تک آگئے۔اب ہمیں دوبارہ کوسٹرمیں بیٹھ کر آگے جانا تھا۔ باقی سفر کی روداد کسی اور کالم میں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)