ایک معرکہ سر کرلیا گیا۔ سیکورٹی کی صورتحال کو کنٹرول میں رکھنے کے لئے ہمیں بالآخر مذاکرات کی صورت میں تحریک طالبان پاکستان کا تعاون حاصل ہوگیا۔ ملک میں قیام امن کو ان مذاکرات کی کامیابی سے منسلک کیا جارہاہے۔ عام خیال کے برعکس معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے۔ ہم امریکہ کے وسیع تر علاقائی مفاد کو یقینی بنانے کے لئے امریکہ کے ساتھ مل کر چل رہے ہیں مگر اس طرح کہ سب کچھ پاکستان کے مفاد میں دکھائی دے۔ کچھ اشارے ملاحظہ ہوں:
گزشتہ دنوں اپنے ہفتہ وار ریڈیو خطاب میں امریکی صدر بارک اوباما نے کہا کہ ’’ہم اپنی معاشی پالیسیاں تبدیل کرنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔ امریکی عوام بہت زیادہ محنت کرتے ہیں لیکن پھر بھی ان کا اچھا گزارا نہیں ہوتا‘‘۔ امریکی عوام کی بڑھتی ہوئی بے چینی اور معاشی تباہی صدر اوباما کو ’’زیرو آپشن‘‘ اختیار کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ اس کا مطلب ہے افغانستان سے امریکی افواج کا انخلاء، صدر اوباما اس طرح اربوں امریکی ڈالرز کے اخراجات میں کمی کے آرزومند ہیں لیکن اس کامطلب یہ ہرگز نہیں کہ وہ افغانستان پر قبضے سے دستبردار ہونے پر بھی تیار ہیں۔ 23مارچ 2013ء کو انہوں نے کہا تھا ’’سیکورٹی فورسز کی تربیت اور دہشت گردی کا مقابلہ کرنے والی قوت کو برقرار رکھنے کے لئے ہم افغان حکومت کے ساتھ مل کر کام کریں گے‘‘۔ 3دسمبر2013ء کو جنوب اور وسطی ایشیاء کے لئے امریکہ کے نائب سیکریٹری خارجہ نیشا ڈیسائی بسوال نے کہا تھا ’’پاک افغان خطے سے ہماری وابستگی دائمی ہے، ہم جا نہیں رہے ہم کہیں نہیں جارہے۔
خطے میں امریکہ کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لئے واشنگٹن کابل کے ساتھ ایک معاہدے کو حتمی شکل دے رہا ہے جس کے تحت امریکہ افغانستان میں اپنے9فوجی کیمپ قائم رکھے گا۔ دس ہزار امریکی فوجیں مستقل افغانستان میں موجود رہیں گی اور وہ افغان قوانین سے بالاتر ہوں گی۔ بلیک واٹر کی طرز پر نجی سیکورٹی کنٹریکٹروں کے پردے میں ایک لاکھ امریکی تعینات رہیں گے۔ اس معاہدے کو اسٹیٹس آف فورسز ایگریمنٹ(ایس او ایف اے) کا نام دیا جارہا ہے۔
عسکری پہلو کے ساتھ ساتھ امریکہ یہ سیاسی بندوبست بھی کرنا چاہتا ہے کہ وہ اس سال اپریل میں افغانستان میں صدارتی انتخابات کا انعقاد یقینی بنانا چاہتا ہے۔ ملّا عمر کی زیرقیادت طالبان نے 12سال کی طویل جنگ میں امریکہ اور اس کی اتحادی افواج کو شکست دی۔ امریکی جانتے ہیں کہ انخلاء کے بعد طالبان کو حکومت بنانے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ امریکی امید رکھتے ہیں کہ وہ صدارتی انتخابات کے ذریعے افغان طالبان کی ممکنہ حکومت کو قیام سے پہلے ہی ختم کرسکتے ہیں۔ کرزئی کے ٹولے یا اس کے بھائی کو اقتدار سونپ کر چلے جانا بھی امریکہ کو منظور نہیں۔ انخلاء کے بعد حکومت کے قیام کے لئے وہ ایک طرف وارلارڈز سے رابطے میں ہے تو اقتدار کے کچھ حصہ میں شریک کرنے کے لئے طالبان سے بھی مذاکرات کررہاہے۔ انتخابات میں حصہ لینے والوں کے لئے بھی امریکی آشیرباد کو یقینی بنایا جارہاہے۔ الغرض انخلاء کے بعد امریکہ افغانستان میں ایک ایسی مخلوط حکومت چاہتا ہے جس میں تمام اسٹیک ہولڈرز اس طرح شامل ہوں کہ امریکہ ان سے اپنے مفاد کے مطابق معاملہ کرسکے۔
یہ ہے امریکہ کا وہ جیوپولیٹیکل ایجنڈا جس کے حصول کے لئے وہ خطے میں موجود اپنے مہروں کو بڑی چابک دستی سے آگے بڑھارہا ہے۔ وزیراعظم نوازشریف اچانک ترکی تشریف لے گئے۔ کہا جارہا ہے پاکستان اور ترکی کرزئی سے ایسا کردار ادا کرنے کا مطالبہ کررہے ہیں جو امریکہ براہ راست نہیں کر سکتا۔ معیشت کی استواری میں آئی ایم ایف کے امریکی نسخے پر عمل کرنے سے لیکر بھارت سے دوستی تک وہ پاکستان میں اور خطے کی سیاست میں امریکہ کے قدم سے قدم ملاکر چل رہے ہیں۔ تحریک طالبان پاکستان بھی اپنے شریعت کے نفاذ کے مطالبے سے دستبردار ہوکر مذاکرات کی میز پر آگئی ہے۔ سب جانتے ہیں کہ قبائلی عوام صدیوں سے شریعت کے ماحول میں زندگی گزاررہے ہیں۔ نفاذ شریعت ان کا مسئلہ نہیں ہے یہ محض تحریک کا اخلاقی جواز ہے۔ پاکستانی طالبان کی حقیقت جاننے کے لئے یہ اشارہ کافی ہے کہ وہ پاکستان میں جہاں چاہے دہشت گرد حملے کردیتے ہیں لیکن امریکی تنصیبات ان کے حملوں سے محفوظ ہیں امریکی بغیر حفاظتی اسکواڈ دندناتے پھرتے ہیں لیکن ان پر کوئی خودکش حملہ نہیں ہوتا۔ سعودی عرب بھی سرگرم عمل ہے۔ غرض خطے کی تمام قوتیں آن بورڈ ہیں ۔اس پورے منصوبے کو افغان طالبان کے قائد ملّاعمر ادھیڑ کر رکھ سکتے ہیں۔ اس امریکی جمہوری نظام اور بندوبست کے جواب میں وہ یہ کہہ چکے ہیں ’’ہم نے اپنی آزادی کے حصول کے خاطر آخری لمحے تک جنگ کا عزم کر رکھا ہے۔ قابض فوجوں کا ایجنڈا قبول کرنا ہماری روایات، قومی اقدار اور نظریئے کے خلاف ہے‘‘۔اب سوال یہ ہے کہ اس پورے منظرنامے سے پاکستانی طالبان اور حکومت کے مذاکرات اور امن کی توقعات کا کیا تعلق ہے۔ یہ جاننے کے لئے ایک بنیادی بات سمجھنا ہوگی۔افغان طالبان کو افغانستان کے تقریباً نوّے فیصد علاقوں کا کنٹرول حاصل ہے۔ سترہ ملین افغان پختونوں کے لئے پاکستان میں بسنے والے پچیس ملین پختونوں کی حمایت اور مدد مرکزی اہمیت کی حامل ہے۔ امریکہ اور اتحادی افواج کے خلاف افغان طالبان کی کامیابی میں شمالی وزیرستان کے حقانی نیٹ ورک کا بہت بڑا کردار ہے۔ حقانی نیٹ ورک کو امریکہ سب سے زیادہ خطرناک تصور کرتا ہے۔ ایک امریکی اہلکار نے2011ء میں کہا تھا ’’یہاں حقانی سب سے بڑھ کر پلٹ کر حملہ کرنے والا دشمن نیٹ ورک ہے‘‘۔ امریکہ جانتا ہے کہ افغانستان میں امریکی فوجی اڈوں کا منصوبہ ناقابل دفاع ہوجائے گا اگر امریکہ طالبان کے ساتھ کسی معاہدے تک نہ پہنچ سکا اور یہ طے نہ پاسکا کہ طالبان امریکی فوجیوں پر حملے نہیں کریں گے۔ امریکہ حقانی نیٹ ورک کی کمر توڑ کر افغان طالبان کی عسکری سپلائی اور طاقت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا کر یہ چاہتاہے کہ افغان طالبان کمزور ہوکر مستقبل کے امریکی منصوبوں کا حصہ بن جائیں اور ان کی مزاحمت نہ کرسکیں۔
اس مقصد کے لئے امریکی ایماء پر پاکستان میں مذاکرات کا انعقاد ممکن بنایا گیا۔ اگر مذاکرات کامیاب ہوتے ہیں تو اس کے بعد ہونے والے دھماکوں اور دہشت گردی کے واقعات کو پاکستانی طالبان کے بجائے حقانی نیٹ ورک کو ذمہ دار قرار دے کر وزیرستان میں ان کے خلاف آپریشن کا جواز پیدا کیا جاسکتا ہے اور اگر مذاکرات ناکام ہوتے ہیں تو بھی شروع ہونے والے آپریشن کا نشانہ حقانی نیٹ ورک ہوگا۔ وزیرستان میں حقانی نیٹ ورک کے خلاف آپریشن کی جیسی ضرورت امریکہ کو آج ہے پہلے کبھی نہ تھی۔ سرد موسم کی وجہ سے آج کل افغانستان میں جنگ کی شدت میں کمی ہے۔ امریکہ افغان طالبان اور حقانی نیٹ ورک کو اس موسم میں نشانہ بنارہاہے دوسری طرف وہ یہ چاہتا ہے پاکستانی افواج بھی حقانی نیٹ ورک کے خلاف آپریشن شروع کردیں۔ امریکہ یہ سب مارچ کے آخر اور اپریل کے آغاز تک چاہتاہے کیونکہ گرمیوں کا آغاز ہوتے ہی اور راستے کھلتے ہی طالبان امریکہ پر حملوں میں شدت لے آتے ہیں۔ امریکہ چاہتا ہے کہ اس موسم کے آغاز سے پہلے ہی پاکستان میں موجود افغان طالبان کی سپلائی لائن یعنی حقانی نیٹ ورک کا خاتمہ کیا جائے۔ پاکستان میں مذاکرات کامیاب ہوں یا ناکام امن خواب ہی رہے گا۔ مذاکرات کی کامیابی یا ناکامی پاکستان میں امن کی کلید یا ضمانت نہیں ہے۔ پاکستان میں امن کی کلید خطے سے امریکی موجودگی کا مکمل خاتمہ ہے۔ وہ خاتمہ جس کا مذاکرات کے افسانے میں کہیں ذکر نہیں ہے۔