میں آج اپنی زندگی کے ان مشکل کالموں جیسا کالم لکھنے کی کوشش کر رہا ہوں جس کے لکھنے کے دوران ہر جملے سے اجازت لینا پڑتی تھی۔ لکھوں کہ نا لکھوں؟ موضوع حالیہ انتخابات ہیں۔جن میں کسی بھی پارٹی کو اتنے ووٹ نہیں ملے کہ وہ تنہا اپنی حکومت بنا سکے، تاہم مسلم لیگ (ن) کو باقی جماعتوں سے زیادہ ووٹ ملے ہیں مگر اسے بھی پیپلز پارٹی سے مفاہمت کی ضرورت ہے، اس حوالے سے پی پی پی نے جو شرائط پیش کی ہیں وہ میرے لئے ثانوی حیثیت رکھتی ہیں۔ ناقابل فہم بات یہ ہے کہ قائد مسلم لیگ نواز شریف نے اپنی جگہ شہباز شریف کو وزارت عظمیٰ کیلئے نامزد کیا ہے اور اب اگر اس حوالے سے سارے مراحل طے ہوگئے تو پاکستان کے وزیراعظم نواز نہیں شہباز ہوں گے۔میرے لئے یہ خبر زیادہ چونکا دینے والی نہیں ہے کہ میرے بہت سے صحافی دوست یہ بات کہتے تھے کہ میاں صاحب پر جھوٹے مقدمات بنائے گئے تھے ان کی اوقات عوام کے سامنے آ جائے گی، لیکن یہ جو کہا جا رہا ہے کہ نواز شریف چوتھی بار وزیر اعظم بنیں تو ایسا نہیں ہوگا کیونکہ نواز شریف کا بیانیہ مقتدرہ کو پسند نہیں ہے۔ اس لئے انہیں ہر بار عوا م کے منتخب کردہ اس وزیر اعظم کو وزارتِ عظمیٰ سے الگ کرکے کبھی جیل کے عقوبت خانوں اور کبھی صحرائوں میں ہجرت پر مجبور کیا گیا۔ بہرحال یہ چند دوستوں کا خیال تھا کہ جب میاں نواز شریف واپس پاکستان پہنچے تو کافی دنوں کے بعد انہوں نے چند عوامی جلسوں سے خطاب کیا جہاں عوام نے ان کا پرجوش استقبال کیا کہ جس شخص کو وہ اپنا نجات دہندہ سمجھتے تھے وہ ایک بار پھر ان کے درمیان ہے، عوام کو بار بار یقین دہانی بھی کرائی گئی کہ اب ان کے وزیر اعظم نواز شریف ہوںگے۔ اخبارات میں جو اشتہارات دیئے گئے ان کا سلوگن بھی یہ تھا کہ ’’پاکستان کو نواز دو‘‘ میرے سمیت پاکستانی عوام کو جھٹکا اس بات پر لگا ہے کہ اب ’’نوا ز دو‘‘ کی جگہ ’’شہباز لو‘‘ کی بات کیوں کی جا رہی ہے،اس حقیقت سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا کہ لوگوں نے ووٹ صرف اور صرف نواز شریف کو دیئے تھے، اب اس امانت میں خیانت کیوں کی جا رہی ہے؟
ایسا نہیں کہ شہباز شریف کی وزارت عظمیٰ پر اعتراض کیا جارہا ہے کہ اپنے اور غیر سب شہباز شریف کی اس اعلیٰ کارکردگی کے گواہ ہی نہیں بلکہ معتقد ہو چکے ہیں اور بجا طور پر سمجھتے ہیں کہ پاکستان کی تاریخ میں پنجاب کو شہباز شریف ایسا وزیر اعلیٰ نہیں ملا جو خود کو وزیر اعلیٰ نہیںبلکہ خادم پنجاب کہلانا پسند کرتا تھا، اس شخص کونہ دن کو چین تھا نہ رات کو۔ لگتا تھا اس کے جسم میں کسی جن کی روح حلول کرگئی ہے اور وہ بغیر کسی تھکاوٹ کے تعمیراتی منصوبوں کی تکمیل میں لگا ہوا ہے، صرف یہ نہیں بلکہ اربو ں روپوں کے ان منصوبوں میںکسی قسم کی کرپشن کا الزام بھی نہیں لگا، ان تمام باتوں کے باوجود بطور وزیراعظم ان کی کارکردگی عوام سے ہضم نہیں ہو رہی کہ ان کی سولہ ماہ کی وزارت عظمیٰ کے دوران وہ شہباز شریف عوام کی امیدوں پر پورا نہیں اتر سکا جو بجا طور پر ان سے وابستہ کی گئی تھیں۔ مجھے یہ سب کچھ لکھتے ہوئے اچھا نہیں لگ رہا کہ میںنے جدہ اور امریکہ میں ان کی جلا وطنی اور اس دوران ان سے ملاقاتوں نیز پنجاب میں وزارت اعلیٰ کے دوران پاکستان سے عشق کرتے دیکھا اور ہر وقت یہ سوچ کر پریشان پایا کہ پاکستان کو ترقی یافتہ ملکوں کی صف میں کیسے لایا جا سکتا ہے، چنانچہ مجھے یقین ہے کہ اگر نواز شریف وزیر اعظم بنتے ہیں تو ایک وژنری لیڈر اور ایک بے مثال ایڈمنسٹریٹر ،پاکستان کو خوشحالی اور ترقی کی اس منزل تک ضرور لے جائیں گے جو برسوں سے پاکستانی عوام اپنے اس خواب کی تعبیر دیکھنے کے خواہشمند ہیں۔
مجھے یہ کالم لکھنے میں دشواری پیش آ رہی تھی کہ میں نظریاتی طور پر نواز شریف کو اپنا لیڈر سمجھتا ہوں اور ذاتی طور پر انکی ذاتی خوبیوں کا مداح بھی ہوں۔ اس طرح شہباز شریف سے بھی میرے دیرینہ تعلقات ہیں مگر اب میں اس دشواری سے نکل گیا ہوں کہ سمجھتا ہوں کہ جس سے محبت ہو اس کی خفگی کی پروا کئے بغیر سچی بات کہنا چاہئے کہ خوشامدیوں کا ٹولہ ان تک عوام کے جذبات پہنچنے ہی نہیں دیتا، سو میں نے ابھی تک جو لکھا ہے وہ عوام کے جذبات میاں برادران تک پہنچانے کی کوشش کی ہے، مسلم لیگ سے جو اعلان نواز شریف کی منظوری کے ساتھ سامنے آیا ہے اس میں مریم نواز کو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کیلئے نامزد کیا گیا ہے اور یہ پہلی بار ہوا ہے کہ کوئی خاتون پنجاب ایسے بڑے صوبے کی وزارتِ اعلیٰ کے منصب پر فائز ہو۔ مجھے اس فیصلے سے خوشی ہوئی کہ مریم نواز کی تربیت نواز شریف نے کی ہے اور اس نے جیل کی صعوبتیں بھی برداشت کی ہیں، عوام کے جلسے اور جلوسوں کے علاوہ ذاتی ملاقاتوں میں بھی ان کے مسائل سے آگاہی حاصل کرچکی ہیں،اس کے علاوہ پرویز رشید سے بھی انہوںنے بہت کچھ سیکھا ہوگاچنانچہ عوام نے مریم نواز سے ابھی سے بہت سی توقعات وابستہ کرلی ہیں، خدا کرے وہ ان پر پورا اتریں۔
اور آخر میں ’’آخری بات‘‘ پیپلز پارٹی نے مسلم لیگ سے ’’الحاق‘‘ کی جو شرائط پیش کی ہیں انہیں قبول کرنے سے بہتر ہے کہ یا تو مسلم لیگ وزارت عظمیٰ کی دوڑ سے باہر ہو جائے یا پی پی پی سے کہے کہ تم اپنا وزیر اعظم بنائو ہمیں صرف وہ آئینی عہدے دے دو جو تم ہم سے طلب کر رہے ہو، یہ چوسنی دینے میں کوئی حرج نہیں کہ پی پی پی والے کبھی یہ گھاٹے کا سودا نہیں کریں گے، آنے والے دنوں میںآئی ایم ایف سے ازسر نو معاہدہ کرنا ہے اور اس کے بعد قیامت نما مہنگائی آئے گی جسے روکنا نوجوان قیادت کے بس میں نہیں ہوگا، اس کیلئے پاکستان کے سب سے زیادہ عرصہ سیاست میں رہنے والے، گرم و سرد زمانہ دیکھنے والے اور عوام کے دلوں کی دھڑکن سننے والے لیڈر نواز شریف ہی کو آواز دینا پڑے گی۔ آخر میں ایک دفعہ پھر یہ کہ اگر مسلم لیگ نے حکومت لینا ہی ہے تو وہ اس کیلئے اپنا یہ نعرہ بلند آواز میں لگائے ’’پاکستان کو نواز دو!‘‘اس نعرے سے مکرنا عوام کی امانت میں خیانت کے مترادف ہوگا؟۔