گزشتہ ہفتے ہونے والے انتخابات میںپاکستانی فسطائیت کے درازہوتے ہوئے سائے دکھائی دینے لگے۔ اندھا دھند ننگے جھوٹ پھیلانے، سیاسی حریفوں کا قانونی جواز مسترد کرنے ، اپنے ناقدین کے بارے میں بیہودہ زبان استعمال کرنے ، آزاد میڈیا پر چڑھ دوڑنے، عوام کے تشدد کے استعمال کا جواز پیش کرنے ، پولیس پر حملہ کرنے اور جانوروں اور عمارتوں کو جلانے والے کلٹ کے حمایت یافتہ ’’آزاد ‘‘ اراکین کو ڈالے گئے ووٹوں کا کم و بیش ایک تہائی مل گیا ۔تاہم اس انتخابی حمایت کا سلسلہ جغرافیائی طور پر بے ربط رہا۔ خیبرپختونخوا میں یہ آسمان کو چھورہا ہے، شمالی پنجاب میں دھول بن کر اُڑ چکا ہے، وسطی پنجاب میں اس کا گراف اوپر ہے ، جنوبی پنجاب میں نیچے ۔ بلوچستان اور سندھ میں اس کا دھڑن تختہ ہوگیا ہے ۔ گویا اسے قومی سطح پر حمایت نہیں ملی ، صرف علاقائی سطح پر کہیں کہیں بگولہ بن کر اٹھا ہے۔
انسان من مرضی سے کہیں انگلی نہیں رکھ سکتا کہ یہاں انتخابی عمل شفاف تھا، وہاں نہیں تھا ۔ اگر انتخابات ایک صوبے میں ایک جماعت کیلئے شفاف تھے ، تو دیگر جماعتوں کیلئےبھی دیگر مقامات پر یہی صورت حال تھی ۔ اگر کسی ایک علاقے میں یہ منصفانہ نہیں تھے تو پھر قومی سطح پر غیر منصفانہ تھے ۔ کوئی جماعت یہ دعویٰ نہیں کرسکتی انتخابات صرف اس صوبے یا ان حلقوں میں شفاف ہوئے جہاں وہ جیتی ہے ، اور جہاں وہ ہاری ہے وہاں غیر منصفانہ تھے۔
انتخابی حمایت پر تنازع کھڑا ہونے سے ایک اہم سوال دھندلا ہوگیا ہے :رائے دہندگان نے کیا فیصلہ کیا ہے ؟ کیا پرانی جماعتوں کے خلاف ووٹ پڑا ہے ؟ اسٹیبلشمنٹ سے نفرت ، یا جیسا کہ نیویارک ٹائمز نے حال ہی میں لکھا ، ’’ جنرلوں کے خلاف غصے کااظہار‘‘؟ کیا یہ سابق وزیرا عظم کو جیل میں ڈالنے اور سزا دینے کے خلاف احتجاج تھا؟ کیا مہنگائی کے خلاف احتجاج تھا جو 2021 ء سے مسلسل بڑھ رہی ہے ، لیکن عوامی اشتعال کا رخ پی ڈی ایم کی حالیہ حکومت کی طرف مڑ گیا؟
اس سوال کہ ’’عوامی رائے نے کس کی حمایت کی ؟‘‘ کا جواب یہ ہے کہ حمایت کا اشارہ فسطائیت کی طرف ہے ۔ ووٹ نے نومئی 2023 ء کو سابق حکمراںجماعت کی سازش اور بغاوت کی حمایت کی ہے ۔ تشدد کے شواہد واضح ہیں ۔ لاہور اور سرگودھا سے شکست کھانے والے امیدواروں ، جنھوں نے اپنے سیاسی حریفوں کو مبارک باد دیتے ہوئے اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کیا ، کے گھروں اور دفتروں پر حملے ہوئے اور فائرنگ کی گئی ۔ تشدد اور اس کی دھمکیاں فسطائیت کا ایک مستقل حربہ ہیں ۔ نومئی کی بغاوت 2014 کے دھرنوں اور 2016میں اسلام آباد پر حملے کا ہی تسلسل ہے ۔ 2023 میں ریڈیو پاکستان پشاور اور جناح ہائوس لاہور جلانے والے لاٹھیوں سے مسلح انتہا پسند وہی ہیں جنھوں نے 2014 ء میں پاکستان ٹیلی ویژن پر حملہ کیا تھا ۔ 2023 ء میں جی ایچ کیو کے گیٹ توڑنے والے شدت پسند وہی ہیں جنھوں نے 2014 ء میں پارلیمنٹ کا جنگلہ توڑا تھا۔ 2023 ء میں لاہور پولیس پر پٹرول بم پھینکنے والوں نے ہی 2014 ء میں سینکڑوں پولیس اہل کاروں اور افسروں کو تشدد کا نشانہ بنایا تھا ۔ 2023 ء میں ملک کے بہت سے شہروں میں توڑ پھوڑ کرنے والے وہی تھے جنہوں نے 2016 ء میں اٹک پل پر اسلام آباد پولیس کے خلاف جنگ لڑی تھی۔
اپنی شاہکار تصنیف ، ’’دی اناٹومی آف فاشزم ‘‘ میں رابرٹ پیکسٹن خبردار کرتے ہیں کہ فسطائیت کے الفاظ کی بجائے افعال پر نظر رکھی جائے ۔ وہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ فسطائی لیڈروں کی ان کے سیاسی رویے سے شناخت کی جاسکتی ہے ، جیسا کہ بے بنیاد شکایات، قیادت کی پوجا کا کلٹ ، وسیع تشدد کا استعمال ، جمہوری آزادیوں کی پامالی ، تشد د کا سیاسی حربے کے طور پر استعمال ، سیاسی حریفوں کو سیاسی میدان سے باہر کرکے شیطانی طاقتیں قرار دینا، ناقدین کی کردار کشی، آزاد پریس پر حملے ، عقل و دانش سے دشمنی اور بے بنیادمظلومیت کا چرچا ۔ سارہ چرچویل نے خبردار کیا ہے کہ، ’’تمام فاشزم مقامی ہوتا ہے۔‘‘پاکستان کے معاملے میں آٹھ فروری کو ہونے والے انتخابات بغاوت کے رجحان کی وضاحت کرتے ہیں۔، عدنان رفیق لکھتے ہیں ،’’ ایک ابھرتا ہوا متوسط طبقہ اُس اشرافیہ اور صنعت کاروں سے شدید نفرت کرتا ہے جو اب بھی پارلیمنٹ پر مسلط ہیں اور جنھوں نے اس طبقے کے خیال میں ملک کی دولت کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا ہے ۔ ‘‘
پاکستانی رائے دہندگان کے کچھ دھڑوں نے فوجی آمریت کے تدارک کے طور پر فاشزم کو ووٹ دیا۔ یہ لوگ سخت غلطی کر گئے ہیں۔ سیاسی عسکریت پسندوں اور مسلح افواج کے درمیان براہ راست تصادم کے نتیجے میں شورش پھیلتی ہے اور یہ صورت حال فاشزم کی نرسری کا کام دیتی ہے۔ ایک اور نومئی ریاست کیلئے تباہ کن ثابت ہو گا۔توکیا انتشار ہی پاکستان کا مقدر ہے؟ تاریخ ایک سنگین انتباہ دے رہی ہے۔ پاکستان میں 9 مئی کی بغاوت سے ٹھیک ایک سو سال پہلے جرمنی کی نیشنل سوشلسٹ (نازی) پارٹی نے ایڈولف ہٹلر کی قیادت میں 1923 میں 'Beer Hall Putsch' برپا کیا، جو باویریا کی حکومت کے خلاف ایک ناکام بغاوت تھی۔ ہٹلر جیل میں چلا گیا لیکن جرمن عدلیہ نے اس کے ساتھ نرمی کا برتاؤ کیا۔ اس نے پانچ سال کی سزا کے صرف نو ماہ گزارے، اور پھر اپنی سیاسی مہم کا آغاز کردیا ۔ جمہوریہ ویمر میں معاشی حالت بگڑ رہی تھی۔ اس لیے نازیوں کے مسلسل تشدد اور ان کی پروپیگنڈامشین کی وجہ سے پارٹی کے ووٹ جو 1928 میں تین فیصد سے بھی کم تھے 1933 میں 43.9 فیصد ہو گئے ۔ہٹلر چانسلر بنا اور جرمنی کو جابرانہ، نسل کشی پر مبنی فاشزم میں دھکیل دیاجو ملک کیلئے بے پناہ تباہی لایا۔
جب تک پاکستان کی سیاسی جماعتیں، مسلح افواج اور عدلیہ حالیہ انتخابات کے نتیجے میں پیدا ہونے والے فاشزم کو پُرعزم طریقے سے شکست دینے پر اتفاق نہیں کرتیں، پاکستانی عوام کو مزید معاشی بدحالی، لاقانونیت اور پھیلتی ہوئی انارکی کا سامنا کرنا پڑے گا جو پاکستانی جمہوریت کو روند ڈالے گی۔ آنے والی وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے کرنے کیلئے یہ کام چھوڑ دیا گیا ہے۔