• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کہتے ہیں تاثر حقیقت سے کہیں زیادہ طاقتور ہوتا ہے۔ سچ کیا ہے؟ اس سے کہیں زیادہ اہم بات یہ ہوتی ہے کہ عوام کی اکثریت اس سچ کو قبول کرتی ہے یا نہیں۔ 8فروری 2024ء کو ہونیوالے عام انتخابات کس قدر شفاف تھے، یہ حقیقت اب بے معنی ہوچکی ہے کیونکہ دھاندلی کا بیانیہ مضبوط ہوچکا ہے۔ اب چاہے جس سطح کی تحقیقات کروالیں، جتنے مرضی شواہد سامنے لے آئیں، اس تاثر کو زائل نہیں کیا جا سکتا کیونکہ تلبیس اطلاعات کے اس دور میں سچ جتنی دیر میں جوتے پہنتا ہے جھوٹ پوری دنیا کا چکر لگا کر واپس آچکا ہوتا ہے۔ 2008ء کے عام انتخابات کیلئے الیکشن کمیشن کو 1.8ارب روپے فراہم کئےگئے تھے تاکہ 81ملین ووٹر حق رائے دہی استعمال کرکے اپنے نمائندے منتخب کرسکیں۔ یعنی فی ووٹر 22روپے خرچ ہوئے۔ مگر صوبائی اور وفاقی حکومتوں کے علاوہ امیدواروں نے اپنی انتخابی مہم چلانے کیلئے جو اخراجات کئے اگر انہیں شمار کیا جائے تو مجموعی طور پریہ الیکشن 200ارب روپے میں پڑا۔ 2013ء میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد بڑھ کر 86ملین ہوگئی۔ افراط زر میں بھی اضافہ ہوچکا تھا چنانچہ الیکشن کمیشن کیلئے4.6ارب روپے مختص کئےگئے یعنی فی ووٹر 58 روپے۔ لیکن مجموعی طور پر ان انتخابات میں اخراجات کا تخمینہ 400ارب روپے رہا۔ 2018ء کے عام انتخابات میں 106ملین ووٹرز کواپنا حق انتخاب استعمال کرنا تھا تو بجٹ میں الیکشن کمیشن کو 21ارب روپے فراہم کئےگئے یعنی فی ووٹر 198روپے۔ البتہ صوبائی و قومی اسمبلی کا الیکشن لڑنے والے امیدواروں کے انتخابی مہم پر اُٹھنے والے اخراجات سمیت مجموعی طورپر تخمینہ لگایا جائے تو اس جمہوری عمل پر440ارب روپے خرچ ہوئے جس طرح گزشتہ عام انتخابات کے موقع پر کہا گیا تھا کہ یہ ملکی تاریخ کے مہنگے ترین انتخابات ہیں اسی طرح حالیہ الیکشن نے ایک نیا ریکارڈ قائم کیا۔128ملین ووٹرز سے رجوع کرنے کیلئے الیکشن کمیشن نے 47ارب روپے مانگے تھے لیکن قانون نافذ کرنیوالے اداروں کے اہلکاروں کو کی جانے والی ادائیگیوں کے بعد یہ بجٹ 49ارب روپے سے تجاوز کر جانے کا امکان ہے لیکن فی الحال 49ارب روپے ہی شمارکئے جائیں تو فی ووٹر 382روپے خرچ ہوئے۔یہ الیکشن کمیشن کے اخراجات کا تناسب ہے اگر امیدواروں کی طرف سے خرچ کی جانے والی رقوم اور دیگر تمام اخراجات کا تخمینہ لگایا جائے تو 8فروری 2024ء کو ہونیوالے انتخابات کم ازکم 600ارب روپے میں پڑے۔ الیکشن کمیشن کی طرف سے قومی اسمبلی کے ہر امیدوار کو ایک کروڑ جبکہ صوبائی اسمبلی کے ہر امیدوار کو 40لاکھ روپے خرچ کرنے کی اجازت ہے۔ اگرچہ حقیقی اخراجات کئی گنا زیادہ ہوتےہیں لیکن قومی اسمبلی کے 265حلقوں میں الیکشن لڑ رہے 5000سے زائد امیدواروں کے اخراجات کا تخمینہ لگایا جائے تو 50ارب روپے بنتا ہے۔مجھے اندازہ ہے کہ ہمارے ہاں ریاضی پسندیدہ مضمون نہیں ہے اوراعداد و شمار پڑھ کر لوگ اُکتا جاتے ہیں مگر یہ حساب کتاب آپ کے سامنے رکھنے کی ضرورت اسلئے پیش آئی کہ معلوم ہوسکے عوام سے رجوع کرنے کی یہ مشق کس قدر مہنگی پڑ رہی ہے۔ 2013ء کے عام انتخابات کے بعد تحریک انصاف نے 35پنکچر کا بیانیہ بنایااور الزام لگایا کہ عدلیہ سے تعلق رکھنے والے ریٹرنگ آفیسرز نے دھاندلی کرکے مسلم لیگ (ن)کو کامیابی دلوائی۔2018ء کے عام انتخابات کے بعد مسلم لیگ (ن) نے یہ موقف اختیار کیا کہ نتائج کا اعلان کرنے کیلئے بنائے گئے سوفٹ ویئر RTSکو بٹھا کر نتائج تبدیل کئے گئے اور تحریک انصاف کو کامیابی دلوائی گئی۔ اس بار دھاندلی کے بیانئے پر ایک بار پھر تحریک انصاف کی اجارہ داری ہے اور کہا جارہا ہے کہ نتائج روک کر جیتے ہوئے امیدواروں کی کامیابی کو ناکامی میں تبدیل کردیا گیا۔سوال یہ ہے کہ مہنگے ترین انتخابات کے بعد بھی اگر انتخابی عمل کی ساکھ پر سوالات اُٹھتے رہیں ،سیاسی عدم استحکام ختم نہ ہو تو پھر اس لاحاصل مشق کا کیا فائدہ ؟ریاست اور سیاست کے علم برداروں کو اس سوال پر غور کرنے کی ضرورت ہے ۔

قیام پاکستان کے 23برس بعد 1970ء میں پہلے عام انتخابات ہوئے تو ملک دولخت ہوگیا اور اس کے بعد ہونے والے ہر الیکشن کے بعد جمہوریت مضبوط ہونے کے بجائے کمزور تر ہوتی چلی گئی۔ اب جمہوریت بیزار لوگ تو یہ تاثر دینے کی کوشش کریں گے کہ اس پارلیمانی جمہوری نظام میں ہی کوئی گڑ بڑ ہے حالانکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہربار سیاسی بندوبست کے ذریعے مخصوص نتائج حاصل کرنے کی کوشش نےانتخابی عمل کی ساکھ ختم کردی ہے۔سیاسی کلوننگ کے ذریعے جو قیادت متعارف کروائی جاتی رہی ہے ،ہر بار وہی ناخلف و ناہنجار ثابت ہوتی ہے مگر راولپنڈی کے سائنسدان تجربات سے باز نہیں آتے۔نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔وہ تو چاہیں گے کہ یکے بعد دیگرے کئے جانے والے تجربات ناکام ہوں تاکہ لوگ بیزارہوکر کسی مسیحا اور نجات دہندہ کی راہ تکنے لگ جائیں۔مگرسیاستدان ان منصوبوں کا حصہ کیوں بنتے ہیں؟ووٹ کو عزت دینے کا مطالبہ اپنی جگہ مگر پہلے آپ خو تو ووٹ کو عزت دیں۔جب پی ڈی ایم کی حکومت تھی تو تحریک انصاف نے مل بیٹھ کر انتخابی اصلاحات کیلئےکام کرنے کے بجائے احتجاجی سیاست کی راہ اختیار کی اور اب مولانا فضل الرحمان فرمارہے ہیں کہ فیصلے ایوانوں کے بجائے سڑکوں پر ہوں گے۔اگر ووٹ کے ذریعے سویلین بالادستی کی جدوجہد کرنیوالے ہی انارکی کی راہ اختیار کریں گے تو پھر فیصلے ایوانوں میں یا سڑکوں پر نہیں بلکہ مقتدر حلقوں کی بیٹھک میں ہونگے۔ اگر سیاسی جماعتیں ہی ایک دوسرے کا مینڈیٹ تسلیم نہیں کرینگی تو غیر جمہوری قوتوں سے یہ توقع کیسے کی جاسکتی ہے کہ وہ ووٹ کا عزت دیں؟ آج آپ جیتنے والوں کی کامیابی کو مشکوک بنا رہے ہیں تو کل آپ کے سیاسی مخالفین انتخابی نتائج پر سوالات اُٹھائیںگے۔ سیاست کو بندگلی کی طرف لیجانے کے بجائے آگے بڑھیں ،ووٹ کو عزت دیں، نتائج قبول کریں، فراخدلی کامظاہرہ کرتے ہوئے ایک دوسرے کیساتھ بیٹھ کر انتخابات کے قواعد و ضوابط پر نظر ثانی کریں تاکہ اگلی بار الیکشن ہوں تو کسی کی جیت یا ہار پر سوالات نہ اُٹھائے جائیں۔

تازہ ترین