• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بچپن میں جب کبھی ہمیں ٹیکہ لگنا ہوتا تو ہم بہت تماشہ کیا کرتے تھے امی سے ہاتھ چھڑا کر ڈسپنسری میں اِدھر اُدھر بھاگتے اور چھپتے پھرتے کہ شاید ٹیکے سے جان چھوٹ جائے مگر ہمارے بڑے بھائی بڑی پھرتی سے ہمیں پکڑ کے ڈسپنسر کے سامنے الٹا لٹا دیتے یوں آناً فاناً ہمیں جب ٹیکہ لگ جاتا تو امی کہا کرتی تھیں ’’بس اتنی سی بات تھی ایویں ہی ڈر رہے تھے‘‘ 18فروری کو جب عالی مرتبت جنرل پرویز مشرف خصوصی عدالت میں پیش ہوئے تو بے اختیار ہمیں اپنی امی کا وہ جملہ یاد آگیا کہ ’’بس اتنی سی بات تھی ایویں ہی دبڑ گھوس‘‘ مچا رکھی تھی دبڑ گھوس کسی لغت میں تلاش نہ کریں یہ بلوچستان کی جنٹری میں بولا جاتا ہے نواب اکبر بگٹی اکثر یہ لفظ استعمال کیا کرتے تھے جن دنوں غلام مصطفی جتوئی نگران وزیراعظم تھے تو اکبر بگٹی ایک پریس کانفرنس میں جتوئی صاحب کے ساتھ بیٹھے خطاب کررہے تھے ملکی حالات اور سیاسی انارکی کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سمجھ کچھ نہیں آتی بس دبڑ گھوس مچی ہوئی ہے، انگریزی اخبار کے ایک رپورٹر نے کہا کہ بگٹی صاحب دبڑ گھوس کی انگریزی کیا ہوگی؟ تو نواب بگٹی نے کہا تھا کہ اس کی انگریزی جتوئی صاحب بتائیں گے لیکن جب جتوئی صاحب سے بھی کوئی بات نہ بن سکتی تو اکبر بگٹی نے کہا کہ چھوڑو یار جتوئی بھی دبڑ گھوس ہی ہے یہاں کسی کو کچھ پتہ نہیں ہے حالات آج بھی ایسے ہی ہیں، سب دبڑ گھوس ہے ہر کسی نے اپنی اپنی لاٹھی اٹھائی ہوئی ہے اور ایک دوسرے کو ہانکنے میں لگے ہوئے ہیں، عالی مرتبت پرویز مشرف پر الزام ہے کہ انہوں نے آئین کی خلاف ورزی کی اور ایمرجنسی کا نفاذ کرکے بغاوت کے مرتکب ہوئے ہیں لیکن عالی مرتبت کا قافلہ دیکھ کے لگتا نہیں کہ کوئی باغی جارہا ہے، باغیوں کو تو بیڑیاں، ہتھکڑیاں لگی ہوتی ہیں اور چہرے ڈھانپے ہوئے ہوتے ہیں انہیں پولیس کی ڈالہ، گاڑی میں پولیس والوں کے پائوں میں بٹھایا ہوا ہوتا ہے جبکہ عالی مرتبت تو ایک ہزار محافظوں کے دستے میں، دو درجن سے زیادہ لینڈ کروزر اور ڈبل کیبن کے علاوہ ایمبولینس اور فائر بریگیڈ کی گاڑیوں کے جلو میں سفر کرتے ہیں باغیوں کو عدالت لگنے سے گھنٹوں پہلے وہاں پہنچا دیا جاتا ہے جبکہ عالی مرتبت کی راہ دیکھتے عدالت کو قریب قریب دو مہینے ہوا چاہتے ہیں پورے بائیس مرتبہ کے بلاوئوں کے بعد عالی مرتبت تئیسویں (23) سمن کو شرف قبولیت بخشا ہے وہ اگر اب بھی نہ آتے تو کیا ہوتا نظام تو چلتا ہی رہتا عدالتیں تو اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں بس ان کا عدالت میں قدم رنجہ فرمانے سے یقین ہوگیا ہے کہ عدالتیں آزاد ہیں عالی مرتبت نے آزادی جیسے سونے پر سوہاگہ ڈال کر اسے اس وقت لش پش کردیا جب جج صاحبان کی آمد پروہ احتراماً کھڑے ہوگئے بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ عالی مرتبت پر فرد جرم عائد ہوجائے گی کیونکہ اس عمل کے لئے ملزم کا عدالت میں حاضر ہونا ضروری ہوتا ہے بہت سے لوگ اس آس میں بریکنگ نیوز پر کان دھرے ہوئے تھے کہ
تھی خبر گرم کہ غالب کے اڑیں گے پرزے
دیکھنے ہم بھی گئے پر وہ تماشا نہ ہوا
ظاہر ہے عالی مرتبت کے بیس وکلا میں ایک سے بڑھ کر ایک ماہر قانون ہے انہوں نے الٹا عدالت کو وسوسے میں ڈال دیا ہے کہ وہ یہ کیس سن بھی سکتی ہے یا ایویں ہی دبڑ گھوس مچی ہوئی ہے عدالت آج اپنے بارے میں فیصلہ دے گی کہ وہ بغاوت کا یہ مقدمہ سننے کی مجاز بھی ہے کہ نہیں اگر وہ مقدمہ سن سکتی ہے تو سنے مگر صرف وکلا کو کیونکہ عالی مرتبت بار بار زیارت نہیں کرائیں گے دوبارہ بلانے کے لئے پھر سے پہلے والی ایکسرسائز کرنا پڑے گی، اور اگر عدالت آئین اور قانون کی رو سے یہ مقدمہ سننے کی مجاز نہ ہوئی تو پھر گزرے دو مہینوں اور بائیس سمنوں کا حساب کون دے گا اور اس عرصے میں عالی مرتبت کی صحت پر جو منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں اس کا تاوان کون ادا کرے گا۔
جنرل پرویز مشرف صاحب نے مشکل سے مشکل وقت میں بھی اپنی دلیرانہ ترنگ برقرار رکھی کیونکہ ڈاکٹروں کے منع کرنے کے باوجود انہوں نے اپنی ذمہ داری پر فارم بھرا دستخط کئے اور دھوڑو دھوڑ عدالت جا پہنچے ان کے عدالت آنے سے بہت سارے لوگ دیوالیہ ہوگئے جو عدالت نہ آنے کی بڑی بڑی شرطیں لگائے ہوئے تھے جنرل صاحب بڑی خوبیوں والے اور اپنی طرز کے دلیر فوجی ہیں ان کا سچا اور کھرا مسلمان ہونے کا اندازہ اس ایک بات سے ہوتا ہے کہ PMA میں انہوں نے جو فارم پر کیا تھا اس میں مسلک کے خانے میں بھی صرف اور صرف مسلمان یہ لکھا تھا وہ رنگ و نسل سے بلند ہوکر سوچنے والے انسان ہیں مگر پاکستان کے مستقبل کا خیال رکھے بغیر وہ اپنے دور اقتدار میں ذاتی حیثیت میں یا دلیرانہ ترنگ میں کچھ ایسے فیصلے کر گئے جس سے ملک سو سال پیچھے چلا گیا ہے۔
طالبان نے ایف سی کے جن تئیس جوانوں کو قید کے دوران موت کے گھاٹ اتارا ہے اس نفرت کی کڑیاں بھی عالی مرتبت کے ماضی کے فیصلوں سے جاملتی ہیں اگر عدالت کسی وجہ سے بغاوت کا مقدمہ سننے سے عاجز ہو تو عالی مرتبت پر وطن کی حفاظت پر مامور ان تئیس قیمتی جانوں کا قتل ڈال کا نیا مقدمہ چلایا جاسکتا ہے کیونکہ جتنی بھی قسم کے طالبان ہیں یا عسکریت پسند ہیں یہ سب عالی مرتبت کے اس عمل کا ردعمل ہے جس کا ارتکاب عالی مرتبت نے اتحادی فوجوں کے سامنے سر تسلیم خم کرکے کیا تھا۔
طالبان کا جہاں تک تعلق ہے تو وہ بنیادی طور پر انسان ہیں اور اس سے بڑھ کر یہ کہ وہ مسلمان ہیں لیکن یہ ان کا کون سا اسلام ہے جس میں دوران قید انہوں نے 23جوانوں کو موت کی نیند سلادیا اسلام تو قیدیوں سے حسن سلوک کا درس دیتا ہے، ہمارے آخری نبی حضرت ﷺتو قیدیوں کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھایا کرتے تھے اور جو قیدی رہائی کے لئے جرمانہ ادا کرنے کی سکت نہیں رکھتا تھا اس سے وعدہ لیا کرتے تھے کہ وہ آئندہ مسلمانوں کے خلاف لڑے گا نہیں اور یوں اسے رہا کردیا کرتے تھے مگر طالبان؟؟؟
تازہ ترین