ماضی سے تعلق رکھنے والے بہت سے واقعات کے حقائق تبدیل ہوسکتے ہیں۔ ان کی تردید یا تاویل ہوسکتی ہے کچھ نئ باتوں کا انکشاف بھی ہوسکتا ہے کچھ اضافی حقائق بھی سامنے آسکتے ہیں جو پہلے سے بتائے گئے حقائق کو مشکوک یا غلط ثابت کرسکتے ہیں مگر ماضی کو یکسر تبدیل کرنے کی قدرت شائد کسی کے پاس بھی نہیں ہوگی۔ بادشاہ نوشیرواں کے بارے میں پتہ چل سکتا ہے کہ وہ ’’نوشیرواں عادل‘‘ تھے یا ’’نوشیرواں ظالم‘‘ تھے مگر یہ کوئی نہیں کہہ سکے گا کہ نوشیرواں عادل نوشیرواں ظالم بھی تھے۔ یہ توبتایا جاتا ہے کہ ہٹلر ظالم ہونے کے ساتھ ساتھ بچوں اور پھولوں سے محبت بھی کرتے تھے مگر یہ کوئی کہے گا کہ ظالم عادل بھی ہوسکتا ہے یا عادل ظلم بھی کرسکتا ہے اور یہ بھی کوئی نہیں کہہ سکے گا کہ تاریخ میں نوشیرواں بادشاہ کا کوئی وجود ہی نہیں تھا۔
ہمارے چودھری شجاعت حسین سے یہ اعزاز کوئی نہیں چھین سکے گا کہ وہ اپنے وطن عزیز کے وزیراعظم بھی رہ چکے ہیں۔ پاکستان کی اب تک کی وفاقی وزارتوں میں سے طویل ترین وفاقی وزارت کا عرصہ مجموعی طور پر پسر راولپنڈی شیخ رشید کے نصیبوں میں لکھا تھا، گورنری کا ریکارڈ غالباً ڈاکٹر عشرت العباد قائم کریں گے یا کر چکے ہیں۔ جنرل پرویز مشرف اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتے کہ وہ پاکستان کےپہلے اور شائد آخری ڈکٹیٹر یا فوجی سربراہ ہوں گے جنہوں نے اپنے ملک پر نافذ کئے جانے والے ایک مارشل لاء کے دوران ایک اور مارشل لاء نافذ کرنے کی ضرورت محسوس کی اور یہ کمال کر دکھایا جس کو ’’مارشل لاء در مارشل لاء‘‘ بھی کہا جاسکتا ہے۔
سابق سربراہ افواج پاکستان اپنے ملک کے پہلے سربراہ افواج ہیں جو آئین سے غداری کیس کی 23 ویں سماعت کے دوران سول عدالت میں پیش ہوئے اور جنرل پرویز مشرف کی بجائے مسٹر پرویز مشرف کے طور پر پیش ہوئے۔ برطانوی نشریاتی ادارے نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ نیلی قمیض اورسفید شلوار میں ملبوس پرویز مشرف عدالت میں پیش ہوئے۔ محسوس ہوتا تھا کہ ان کا سانس پھولا ہوا ہے۔ اسی لئے انہوں نے کچھ دیر تک کسی سے کوئی بات نہیں کی۔ مشرف کی آمد پر ان کی قانونی ٹیم میں شامل وکلاء اپنی نشستوں پر کھڑے ہوگئے اور انہوں نے تالیاں بھی بجائیں اس دوران خصوصی عدالت کے جج صاحبان بھی کمرہ عدالت میں آگئے۔ ان کی باڈی لینگوئج بتا رہی تھی کہ انہوں نے پرویز مشرف کو دیکھ لیا ہے تاہم اس کے باوجود انہوں نے پرویز مشرف کے وکیل انور منصور سے استفسار کیا کہ ان کے موکل کہاں ہیں؟ جس پر انہوں نے پرویز مشرف کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا مائی لارڈ وہ بیٹھے ہیں۔ بنچ کے سربراہ فیصل عرب نے پرویز مشرف سے کہا کہ مسٹر مشرف آپ کھڑے ہو جائیں جس پر سابق فوجی صدر نشست پر کھڑے ہوگئے اور عدالت کا سلیوٹ کیا۔ کچھ دیر تک سابق صدر کھڑے رہے تو ان کے وکیل احمد رضا قصوری نے عدالت سے استدعا کی کہ چونکہ ان کے موکل بیمار ہیں ان کو بیٹھنے کی اجازت دی جائے۔ جس پر عدالت نے پرویز مشرف کو بیٹھ جانے کی اجازت دے دی۔18 فروری کا دن یادگار رہے گا کہ اس روز ایک سابق صدر مملکت اور دو سربراہان حکومت کی عدالت میں پیشی ہوئی اگر چہ سب سے زیادہ مرکز توجہ سابق جنرل پرویز مشرف ہی تھے مگر عدالت میں پیش ہونے والے دو سابق سربراہان حکومت یوسف رضا گیلانی اور پرویز اشرف بھی تھے جو سابق جنرل پرویز مشرف کے برعکس بہت خوشگوار موڈ میں مسلسل اور متواتر مسکراتے چہروں کے ساتھ دکھائی دیئے۔ اگرچہ بعض ٹیلی ویژن تبصروں میں کہا گیا کہ سابق جنرل پرویز مشرف کی جسمانی حالت اتنی صحت مند ہے کہ وہ کرکٹ کھیل سکتے ہیں اس کے باوجود عدالت میں پیشی کے بعد سابق صدر پرویز مشرف کا طبی معائنہ ہوگا اور پھر ہر عدالتی پیشی سے پہلے اور بعد ان کی صحت کا معائنہ کیا جائے گاکہ ان سرگرمیوں کی وجہ سے ان کی صحت منفی طور پر متاثر نہیں ہورہی اور یہ سلسلے شائدفیصلے کے اعلان کے بعد بھی جاری رہیں گے۔