وطن عزیزہمیشہ کی طرح ایک مشکل دور سے گزر رہاہے۔ آٹھ فروری کے انتخابات کی وجہ سے مسائل حل ہونے کی بجائے بڑھ گئے ہیں، بلکہ بہت سے نئے مسائل پیدا ہوچکے ہیں۔ اس وقت ہر طرف بے یقینی کی کیفیت ہے۔ اسٹاک مارکیٹ کا حال مندا ہے۔ افراط زرمیں روز بہ روز اضافہ ہورہاہے۔ غیرملکی قرضوں کی ایک بہت بڑی قسط چار مہینوں کے بعد واجب الادا ہے۔ لیکن کسی کو کچھ پتانہیں کہ یہ ادائیگی کیسے ہوگی۔عوام نے اگرچہ بڑے جوش وخروش سے اپنے ووٹ کا حق استعمال کیا ہے لیکن حتمی طور پر نہیں کہاجاسکتا کہ کون سی جماعت اکثریت لے چکی ہے اور کس کی حکومت بنے گی۔
جہاں تک ہمارے سیاست دانوں کا تعلق ہے وہ سیاست دان کم اور سیاسی مداری زیادہ لگتے ہیں۔ ایک جماعت جس نے بڑے کرو فر سے انتخابات میں حصہ لیا اور الیکشن کے نتائج کے بعد اکثریت کا دعویٰ کیا وہ بھی حکومت بنانے کے معاملے میں ڈانوا ں ڈول نظر آرہی ہے۔انتخابات تو اتنے مشکوک ہوچکے ہیں کہ ہر طرف اس عمل کے خلاف احتجاج کی صدا بلند ہورہی ہے۔ میڈیا کی خبروں کے مطابق کئی جیتے ہوئے امیدواروں کو اغوا کیا جارہاہے جس میں تازہ ترین اغوا سمبڑیال سے حلقہ این اے 74کے جیتے ہوئے امید وار بریگیڈیئر(ر)اسلم گھمن کاہے۔اسی طرح حلقہ این اے 63سے الیکشن لڑنے والے امید وار ساجدیوسف چھنی کو ریٹرننگ افسرکے دفتر سے اس وقت گرفتار کرلیا گیا جب وہ اپنے حلقہ کی دوبارہ گنتی کے لیے آئے تھے۔اسی طرح لاہور کے حلقہ این اے 128سے انتخاب لڑنے والے معروف وکیل سلمان اکرم راجہ کو الیکشن کے خلاف احتجاج کرنے کے جرم میں گرفتار کیا گیا۔ جبکہ خیبر پختونخواکے ضلع مانسہرہ سے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے15سے مسلم لیگ نون کے قائد محترم کی عذرداری بحال کردی گئی ہے۔ جس کی سماعت20فروری کو ہوئی۔ احتیاطاً اس حلقے کے ریٹرننگ افسر کو بھی تبدیل کردیا گیا ہے۔ مولانا فضل الرحمن کے تندوتیز الزامات کا احترام کرتے ہوئے ان کے بیٹے اسعد محمود کے لیے این اے43میں فوج کی نگرانی میں دوبارہ ووٹنگ کا بندوبست کیا گیا۔اس سارے عمل میں وہ تمام سیاسی جماعتیںخوشی کے شادیانے بجارہی ہیں جن کو اس حکومتی بندربانٹ میں مناسب حصہ مل رہاہے۔ پیپلز پارٹی کے حصہ میں صوبہ سندھ کی حکومت آئی ہے جبکہ پنجاب میں مسلم لیگ نون اور خیبر پختونخوامیں تحریک انصاف کے نامزد امید وار جیتے ہیں۔
مجموعی طورپر اس سارے عمل کی ایک مضحکہ خیز سی تصویر ابھرتی ہے یہ ایکآبرو مندانہ آئینی اور سیاسی عمل کی بجائے کٹھ پتلیوں کا تماشانظر آتاہے۔ ایسے محسوس ہوتا ہے کہ ان تمام کٹھ پتلیوں کی ڈور جن کے ہاتھوں میں ہے ان کے عزائم کچھ اور ہیں۔ جس تجربہ کارسیاسی رہنماکو بڑے ڈھول ڈھمکے کے ساتھ بیرون ملک سے واپس لایا گیا تھااور اس کے دامن پر لگے بدعنوانیوں کے سیاہ دھبے دھونے کے لیے قانونی تقاضوں کو بھی پسِ پشت ڈالا گیاتھا۔اس کا رول اتنا محدود ہو گیا کہ انتخابات کے بعد کی کہانی میں اب اس کی گنجائش نظر نہیں آتی۔ بھٹو کے جانشین اور سندھ کے نوجوان سیاستدان نے ایک فلم کے ہیرو کی طرح وزیر اعظم بننے کے دعوے کیے لیکن انتخابات کے بعد ہدایت کار کے اشارے سے اس کا رول بھی ختم ہوگیا۔ خیبر پختونخوا سے اسلام کے علم بردار مولانا فضل الرحمن انتخابات کے بعد ایک اہم رول کے لیے منتخب کیے گئے ہیں۔جس کے مطابق الیکشن کے عمل کا شایدمکمل طور پر ستیاناس کرنا ہے۔ ہمیں یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ مولانا نے اپنا یہ کردار بہت اچھی طرح نبھایاہے، ایسے لگتا ہے کہ صوبہ سندھ سے ہی ایک قد آور شخصیت پیر پگاڑا کو بھی انتخابات کے بعد ایک اہم رول دیاگیاہے۔اس رول کو ادا کرنے کے لیے پیر پگاڑا نے پہلی بار کسی احتجاجی جلسے سے خطاب کیا اور قوم کو یہ نوید سنائی کہ ڈھائی ماہ پہلے الیکشن فروخت کیے گئے اورادائیگی بھی ہوچکی تھی۔انہوں نے اس راز سے پردہ اٹھایا کہ کوئی بھی حکومت بنے دس ماہ سے زیادہ نہیں چل سکتی اور اس کے بعد ایمرجنسی یا مار شل لا لگ سکتاہے۔
ان تمام تفصیلات سے صاف ظاہر ہے کہ ہمارے تمام سیاسی اداکاروں نے اپنے اپنے تفویض کردہ کردار بہت عمدگی سے ادا کیے ہیں اور ہدایت کار کی مرضی کے مطابق جس قسم کا ماحول یا حالات درکار تھے وہ بنا دیئے ہیں۔ اب ملک میں ایمرجنسی نافذ ہوتی ہے یا مار شل لا لگتاہے اس کے لیے قوم کو پردہ اٹھنے کا انتظار کرنا ہوگا۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ پردہ جلد ہی اٹھ جائے گااور جو منظر نظر آئے گا ،وہ کوئی خوشگوار نہیں ہوگا۔