• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کیا لیلائے اقتدار کے غمزے اب دلِ عشاق میں خنجر کی طرح پیوست نہیں ہوتے ہیں؟ شوقِ وصالِ اختیار میں وہ تڑپنا پھڑکنا، و ہ جنوں آثار اضطراب، وہ بے کراں بے قراریاں، وہ لا علاج دیوانگی، وہ سب کیا ہوا؟ کیا غضب ہے کہ عاشق ماہِ عریاں سے نظریں پھیرے بیٹھے ہیں، کیا ستم ہے کہ دیوی اپنے پجاریوں کے درشن کو ترس رہی ہے۔

سوشل میڈیا پر خواجہ سعد رفیق کی قومی اسمبلی میں کی گئی ایک تقریر زیرِ گردش ہے جس میں وہ فرماتے ہیں کہ ہم نے ملک اور اس نظام کی جو درگت بنائی ہے، وہ وقت دور نہیں جب پاکستان میں وزارتِ عظمیٰ کا کوئی امیدوار موجود نہیں ہو گا، سیاست دان یہ منصبِ جلیلہ سنبھالنے سے یوں حذر کریں گے جیسے اس کرسی پر براجمان ہونے سے طاعون کا اندیشہ ہو، اور تو اور، آپ کوتاجِ وزارت پہنانے کے لئے سر میسر نہیں آئیں گے۔ لوگ سمجھے خواجہ صاحب اپنی بات میں وزن پیدا کرنے کے لیے مبالغہ فرما رہے ہیں، ورنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ حسینہء اقتدار زلفِ عنبریں بکھیر ے ، چشمِ سحرناک میں دعوتِ عشرت لیے لبِ بام آ جائے اور عشاق جماہیاں لیتے رہیں۔ مگر پھر چشمِ دہر نے یہ ناقابلِ یقین منظر دیکھا، واقعی، من و عن، ہو بہو۔

سیاست دانوں کی داخلی بیٹھکوں میں بھی ’’ہر قیمت پر‘‘ اقتدار سنبھالنے کی ہوس عنقا نظر آتی ہے، صرف زبانی کلامی نہیں، در حقیقت اقتدار کانٹوں کی سیج بن چکا ہے ۔ مارچ کے اختتام تک آئی ایم ایف سے موجودہ معاہدہ ختم ہو جائے گا، اور نئے معاہدے پر دستخط کرنے میں عجلت کا مظاہرہ کرنا ہی دانش مندی سمجھی جائے گی، جس کا سیدھا سادہ مطلب ہو گا، عوام پر ٹیکسوں کا مزید بوجھ، وہ بھی بالواسطہ ٹیکسوں کی صورت میں جس کا مرکزی نشانہ پچھڑے ہوئے طبقات ہی ہوا کرتے ہیں۔ ویسے تو عوام کو اس معاشی جہنم کا ایندھن بننے سے بچانے کا ایک سادہ سا نسخہ بھی موجود ہے، یعنی پاکستان کی اشرافیہ کو دی جانے والی لگ بھگ اٹھارہ ارب ڈالر کی مراعات کا خاتمہ کر دیا جائے، مگر اس انقلاب کی توقع کسی رعشہ زدہ حکومت سے لگانا زیادتی ہو گی۔

دوسرے لفظوں میں نئی حکومت کو سر منڈاتے ہی اولوں کا سامنا ہو گا، عام آدمی کی زندگی مشکل تر ہو گی اور وہ خود کو بد دعائوں سے کام لینے پر مجبور پائے گا، یعنی گلیوں میں گالیوں کا راج ہو گا۔ اس اوکھلی میں کون سر دے؟ مسلم لیگ تو اپنی سولہ ماہ کی حکومتی کارکردگی سے ابھی تک سنبھل نہیں پائی، کیا اس جماعت کے پاس لٹانے کے لیے مزید سیاسی سرمایہ موجود ہے؟ بہرحال، مسلم لیگ کا خیال ہے کہ اگر ان کی حکومت 2029 تک قائم رہتی ہے تو وہ اپنے ابتدائی سیاسی خسارے پر قابو پا لیں گے، لیکن سوال تو یہ ہے کہ کیا نئی حکومت پانچ سال قائم رہ سکے گی؟ اسمبلی کی شکل سے تو ایسا نہیں لگتا۔ یہ جو پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن میں طویل مذاکرات ہوتے رہے ان میں انہی سوالوں کے جواب تلاش کیے جا رہے تھے، اور جو بھی معاہدہ طے پایا ہے شنید ہے کہ اس کے ضامن بھی موجود ہیں، اور کل کو اگر کسی ضامن کو ’’توسیع‘‘ بھی دی گئی تو یہ ہمارے لیے باعثِ حیرت نہیں ہو گا۔ بہ ظاہر تو یوں لگ رہا ہے کہ مسلم لیگ ن کو ’’گن پوائنٹ‘‘ پر حکومت دی جا رہی ہے، اور باقی سیاسی جماعتیں فقط تماش بینی کے فرائض انجام دینا چاہتی ہیں، بالخصوص پی پی پی ۔ بہرحال توقع یہی ہے کہ اپنے اپنے کرتب دکھانے اور داد وصول کرنے کے بعد سب سیاسی جماعتیں قطار میں اپنے اپنے مقام پر ایستادہ ہوتی نظر آئیں گی۔سوال یہ ہے کہ کیا مسلم لیگ ن ایک مضبوط پنجاب حکومت کے عوض ایک پر کٹی مرکزی حکومت لینے پر مان گئی ہے؟

موجودہ بے یقینی کو ہوا دینا پی ٹی آئی کو اپنی سیاست کے لیے موزوں نظر آ رہا ہے، اگر نظام جم گیا تو پی ٹی آئی کو پانچ سال انتظار کرنا ہو گا۔ فی الحال تو تحریکِ انصاف کی ساری توجہ الیکشن کو نامعتبر ٹھہرانے پر مرکوز ہے، پارٹی کا دعویٰ ہے کہ کے پی میں انتخابات شفاف ہوئے ہیں، باقی ملک میں دھاندلی ہوئی ہے، پی ٹی آئی فارم 45 کے تحت 180 نشستیں جیتی ہوئی تھی، یعنی پنجاب کی تمام سیٹیں جیتی ہوئی تھی، یعنی مسلم لیگ ن صوبے سے ایک نشست بھی نہیں جیتی۔ اپنے دعوے کے حق میں جب پی ٹی آئی کسی فورم پر ثبوتوں سمیت جائے گی تو اس موضوع پر مزید بات ہو سکے گی۔ فی الحال تو پانچ نشستوں پر ووٹوں کی دوبارہ گنتی میں پی ٹی آئی کے امیدوار ناکام قرار پائے ہیں ۔پی ٹی آئی نواز شریف کی لاہور سے NA-130پر جیت کو بھی مشکوک قرار دیتی ہے، جب کہ ساتھ والی دو نشستوں سے شہباز شریف اور حمزہ شہباز کی جیت کو پی ٹی آئی نے ’حلال‘ قرار دیا ہے۔ یہ بھی کچھ ناقابلِ فہم معاملہ ہے۔ سارا پاکستان جانتا ہے کہ مسلم لیگ کا ووٹ دراصل نواز شریف کا ووٹ بینک ہے، مگر نواز شریف مبینہ طور پر خود ہار جاتا ہے، اور اس کے امیدوار قریباً سارے لاہور شہر سے جیت جاتے ہیں۔ بات کچھ سمجھ نہیں آئی۔

بہرحال، اب معاملات آگے بڑھ رہے ہیں، پی پی پی اور مسلم لیگ حکومت سازی کے مراحل طے کر رہی ہیں۔ صوبائی گورنروں، اسپیکر اور سینیٹ چیئرمین کے عہدوں کی تقسیم پر کچھ اختلاف تھے جو اب نمٹا لیے گئے ہیں۔ جب کہ وز یرِاعظم کے رفیع الشان منصب پر سرے سے کوئی اختلاف رائے نظر نہیں آتا، کیوں کہ شاید ملک میں وزارتِ عظمیٰ کا اب ایک ہی امیدوار بچا ہے۔

تازہ ترین