• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

محترمہ مریم نواز نے کہا ہے ’’اللہ تعالیٰ مجھے اپنی مخلوق کی خدمت کرنے کی توفیق دے ‘‘۔آغاز تو اچھا ہے مگر مسائل بہت زیادہ ہیں۔وفاق میں شہباز شریف وزیر اعظم بن رہے ہیں مگر کریں گے کیا ؟وہی جو کچھ پہلے کیا ہے ۔اگر اسٹیبلشمنٹ نے مان لیا توآصف علی زرداری پھر صدر بن جائیں گے۔پہلے بھی پانچ سال صدر رہے ہیں ۔سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت بن جائے گی ۔وہاں توبرسوں سے اُسی کی حکومت ہے ۔بلوچستان میں بھی کوئی نئی باپ پارٹی اقتدار میں آ جائے گی ۔خیبر پختون خوا میں پی ٹی آئی تیسری مرتبہ حکومت بنائے گی۔یعنی ماضی کی طرح تمام معاملات چلیں گے۔فرق صرف اتناہوگا کہ اس مرتبہ ہر جگہ ، ہرلمحہ حکومت کے خاتمہ کاخدشہ موجود رہےگا۔خیبر پختون خواحکومت اسٹیبلشمنٹ سے پریشان ہوگی کہ گورنر راج ہی نہ لگوادے۔نون لیگ ،پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم عدالتوں سے خوف زدہ ہو نگے کہ کسی لمحے کوئی جج فارم 45کا قصہ نہ چھیڑ دے۔ایم کیو ایم کی سمجھ میں تو ابھی تک یہ نہیں آرہاکہ عہدوں کی تقسیم میںدوست ہمیں کیوں بھول گئے ہیں۔

جمعیت علمائے اسلام اورجماعت اسلامی سڑکوں پر احتجاج کرکےحق مانگیںگی۔پی ٹی آئی کی پہلی کوشش تو یہی ہو گی کہ عدالتوں سے انصاف ملے اور مقدمات کا خاتمہ ہو۔ لگ رہا ہے قومی اسمبلی میں ایک طاقتور اپوزیشن کے طور پر اس کی موجودگی کمزور حکومت کی چیخیں نکال دے گی ۔ابھی حکومت نہیں بنی اور بیرسٹر گوہر نے کہہ دیاہے کہ فارم 45 کے تحت ہمیں نتائج جاری نہیں کیے جاتے تو آئی ایم ایف کا پروگرام متاثر ہوگا۔فارم 45کی لٹکتی ہوئی تلوار میں آہستگی اور تیزی کے امکان بھی پیدا ہوتے رہیں گے۔بہر حال پانی پہ دیوارِ مکاں رکھ دی گئی ہے۔آگے اللہ مالک ہے ۔

یہ ہے ساری زمینی صورتحال اور اوپر سے پاکستان خوفناک معاشی بدحالی ،انصاف کی بدترین پامالی ،سیاسی قحط الرجالی کاشکار ہے ۔سیکورٹی کے استحکام کیلئے ہمیں نئی حکمت عملی بنانی چاہئے جس سےدہشت گردی کا خاتمہ ہوسکے ۔ ہماری فورسز دہشت گردی کے خلاف ایک طویل جنگ لڑرہی ہیں مگراسے مکمل طور پرختم کرنے میں ناکام رہی ہیں ۔امریکہ نے نائن الیون اور برطانیہ نے سیون سیون کے بعد دہشت گردی کا کوئی اور واقعہ نہیں ہونے دیا۔

اب آتے ہیںسیاسی قحط الرجالی کی طرف ۔موجودہ انتخابات میں ایک اچھی بات یہ ہوئی ہے کہ بہت سے نئے لوگ سامنے آئے ہیں ،پی ٹی آئی کی طرف سے ۔البتہ پیپلز پارٹی ، نون لیگ اور ایم کیو ایم کی کینوس بک میں کوئی رپورٹ تبدیل نہیں ہوئی۔وہی پرانے چہرے ، وہی تجربہ کار ،جن کے تجربے نے قوم کو بھوک اور وطن کو شرمندگی کے سوا کچھ نہیں دیا۔جہاں تک انصاف کی بات ہے تو ہم نے اس بات کو غلط ثابت کردیا ہے کہ ’’ انصاف کے بغیر کوئی ریاست نہیں چل سکتی ‘‘۔دیکھ لیجئے جیسی بھی چل رہی ہے گاڑی چل تو رہی ہے ۔بےشک انجن آوازیں دے رہا ہے ۔کوئی بات نہیںرنگ پسٹن نئے ڈلوالیں گے مگر انجن دوبارہ بنوانےکیلئےہمیں انصاف کے کسی نئے کمپیوٹرائزڈسسٹم پر غور کرنا ہوگا ۔کمپیوٹر کے موجودہ سسٹم کو وائرس چٹ کرچکاہے۔ہارڈ ڈرائیو ہی نہیں ،مدربورڈ تک فارغ ہوچکا ہے ۔

جہاں تک فارن پالیسی کاتعلق ہے تو اس میں بھی نئی حکومت کچھ نہیں کرسکتی ۔ہم نے دنیا کے ساتھ اسی طرح چلنا جس طرح چلتے آئے ہیں ۔ڈپٹی سیکریٹری آف اسٹیٹ یا اسسٹنٹ سیکریٹری آف اسٹیٹ جو ہمیں کہیں گے ،ہم کریں گے۔ابھی امریکہ میں کچھ عرصہ بعدتبدیلی کا واضح امکان ہے۔خیال کیا جاتاہےکہ موجودہ حکمرانوں کی عمر یں اس دورانیہ کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں ۔افغانستان اور ایران کے ساتھ تعلق کی خرابی کےپیچھےبھی وہی ہے ۔سعودیہ اور چین کے ساتھ مراسم خیرمجبوری ہیںمگر ہم نے اس مجبوری کا بھی جو حشر نشر کیا ہوا ہے یہ سعودیہ اور چین ہی جانتے ہیں ۔

اوراب وہ مسئلہ جس کے حل کی فوری ضرورت ہے ،وہ ہے معاشی استحکام ۔معاشی استحکام جڑا ہوا ہے سیاسی استحکام سے ۔سو بیک وقت دونوں میں بہتری ضروری ہے مگر کیسے ؟۔ابھی تک تو کوئی حل دکھائی نہیں دے رہا۔میری نظر میں صرف ایک راستہ ہےکہ قیدی نمبر آٹھ سو چار سے بات کی جائے مگر جن کے ہاتھ میں گھوڑے کی لگام ہے وہ اس طرف دیکھنا ہی نہیں چاہتے کہ کہیں ہم گھوڑے سمیت پتھر کے نہ ہو جائیں ۔

بے شک قوم کو اتحاد و یگانگت کی اشد ضرورت ہے مگرزور زبردستی کے مراسم زیادہ دیر نہیں چلتے ۔ جن کے خواب ایک جیسے نہیں ہوتے وہ زیادہ دیر اکٹھے نہیں رہ سکتے ۔بہتا ہوا دریا پیچھے کی طرف موڑا نہیں جا سکتا ۔ وقت کا پہیہ الٹا نہیں گھوم سکتا ۔پلیز چوکور پہیے بنانے بند کیجئے۔ ڈھلوان پر بارش کے پانی کو روکنے کی کوشش فضول ہے۔ مستقبل کی وہ منصوبہ بندی کیجئے جو قابل عمل ہو۔ ایسی عمارتیں مت بنائیے جن کی بنیادوں میں آتش فشاں پڑے ہوں۔ وہ کام مت کیجئے جو آپ کو کرنا نہیں آتا۔چاہے انجینئر جتنا بڑا ہو جتنا ماہر ہو ،اپنے کام میں یکتا ہی کیوں نہ ہو ،آپ اس سے دل کا آپریشن نہیں کرائیں گے۔ دوستو! آگے بڑھنا ہے توپھرہمیں ملک و قوم کیلئے مفادات اور اپنی پسند نا پسند سے اوپر اٹھ کر کچھ سوچنا ہو گا۔حق اور ناحق میں فرق کرنا ہو گا۔ دودھ کو دودھ اور پانی کو پانی کہنا ہوگا۔

تازہ ترین