• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آہیں، سسکیاں تو میری اپنی سر زمیں سے مسلسل سنائی دے رہی ہیں۔انسانیت کی تذلیل یہاں بھی ہورہی ہے۔ عقوبت خانوں میں یہاں بھی عزت نفس کچلی جارہی ہے۔مگر یہاں اسپتال تو محفوظ ہیں۔ مسجدوں میں نماز تو ادا ہورہی ہے۔ مائیں بہنیں سانس تو لے رہی ہیں۔ پھول تو کھل رہے ہیں۔ ٹہنیوں پر نئی کونپلیں تو پھوٹ رہی ہیں۔ ہم ایک شہر سے دوسرے شہر سفر تو کرسکتے ہیں۔ ہمیں کرب میںمبتلا کرنے والے اہلکار ہم میں سے ہی ہیں۔ ہمارے ہم مذہب ہیں۔ ہم اسکول، کالج یونیورسٹیوں میں تو جارہے ہیں۔ ہمارے گھر تو بمباری سے محفوظ ہیں۔ ہماری کھڑکیوں سے تازہ ہوا تو گزر رہی ہے۔ ہمارے ارد گرد بے گورو کفن لاشیں تو نہیں پڑی ہیں۔

آج اتوار ہے۔ اپنے بیٹوں بیٹیوں، پوتوں پوتیوں، نواسوں نواسیوں،بہوئوں دامادوں کے ساتھ بیٹھنے، ڈھیروں باتیں کرنے کا دن۔

مجھے آج غزہ پکار رہا ہے۔ رفع میں پناہ لینے والے لاکھوں انسان۔ بچے، عورتیں، مائیں ،بہنیں آسمان کو تکتے دکھائی دے رہے ہیں۔ ہر روز دست اجل کتنی زندگیاں لے اڑتا ہے۔

29 ہزار جیتے جاگتے انسان قتل کیے جاچکے ہیں۔ ہم انہیں شہید کہہ کر مطمئن ہوجاتے ہیں۔ کتنے خاندان اجڑ چکے ہیں۔ یہ کلمۂ طیبہ پڑھنے والے تھے۔ امت مسلمہ کا مستقبل تھے۔شہنشاہ، صدور، وزرائے اعظم، سپہ سالار۔ سب اپنے عشرت کدوں میں محو عیش ہیں۔ دنیا کے کسی کونے میں ایک امریکی بھی اگر کسی مشکل میں مبتلا ہوتا، کسی کی ہلاکت ہوتی تو اقوام متحدہ کیسے تڑپ رہی ہوتی۔ مختلف ایجنسیاں کیسے حرکت میں آجاتیں۔ این جی اوز کی پریس کانفرنسیں ہورہی ہوتیں۔ پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا کیسے کہرام مچارہا ہوتا۔ یہ 29 ہزار کیا کسی ماں کے راج دلارے نہیں تھے۔ 29 ہزار میں سے دو تہائی عورتیں اور بچے تھے۔ عورتوں کے حقوق کی چیمپئن تنظیمیں بھی خاموش ہیں۔ بچوں کی پیدائش، نگہداشت پرورش کیلئے اربوں ڈالر خرچ کرنے والی انجمنیں گنگ ہیں۔ شاید یو این اے کے چارٹر میں یہ طے ہوچکا ہے کہ فلسطینیوں کی موت سے ہی امن قائم ہوسکتا ہے۔ یہ اس دھرتی پر ایک بوجھ ہیں۔ اسرائیل کے سفاک فوجی اگر غزہ پٹی میں آس پاس دھماکوں سے، فائرنگ سے دھرتی پر اس غیر ضروری بوجھ کو ہٹارہے ہیں تو بہت اہم ذمہ داری سے عہدہ برا ہورہے ہیں۔ انہیں تو ساری دنیا اور خاص طور پر مسلم حکومتیں امن اور انسانیت کی سر بلندی کے تمغے جاری کریں۔ ابو ظہبی، رباط، خرطوم،بحرین ،انقرہ، قاہرہ، عمان میں تقریبات منعقد کرکے نیتن یاہو کو بھی نشان عطا کیے جائیں۔ اسرائیلی قاتل فوج کے سربراہ کو ان ملکوں کے فوجی سربراہ اپنے ہاتھوں سے میڈل پہنائیں۔غزہ کے 69 ہزار زخمی جن میں عورتیں اور بچے زیادہ ہیں۔ عالمی عدالت ان کیلئے سزائے موت کے پروانے جاری کرے۔ اسرائیلی فوج کو یہ حکم دے کہ ان 69ہزار کا بوجھ بھی اس مقدس سر زمین سے ہٹادے۔

2020 میں ابراہیمی معاہدے میں کیا یہ شرط اوّل تھی کہ فلسطینیوں کا نام و نشان مٹا دینا ہے۔ یہودیوں کے نام نہاد ہولو کاسٹ کا بدلہ نازیوں کی بجائے مظلوم فلسطینیوں سے لینا ہے۔

یہودیوں کا سرپرست اعلیٰ امریکی سامراج کس ڈھٹائی سے ہر قرارداد ویٹو کررہا ہے۔ افریقہ، ایشیا،آسٹریلیا، شمالی امریکہ، یورپ سارے بر اعظم روزانہ ہلاکتیں دیکھ رہے ہیں۔ کہیں کوئی آواز نہیں اٹھتی۔ کیا یہ سب اس ہولو کاسٹ میں شریک ہیں۔ امریکہ نے اپنے مضبوط دشمن سوویت یونین کو مسلمان ممالک کی مدد سے شکست دی۔ جہاں سے مشرق وسطیٰ کیلئے ہمیشہ ایک طاقت ور موقف سامنے آتا تھا۔ پاکستان کی دائیں بازو کی جماعتوں سمیت مسلم دنیا کی تنظیموں نے فخر کا اظہار کیا کہ ہم نے کمیونزم کو ہمیشہ کیلئے ختم کردیا۔ اب کسی مسلم دارُالحکومت سے آواز نہیں آرہی کہ ہم نے اپنے حق میں کتنا بڑا گڑھا کھودا ۔ اس جرم کا عتراف کرنے کی بجائے۔ مسلم ممالک باری باری اسرائیل کو تسلیم کررہے ہیں۔ دعویٰ یہ کیا گیا تھا کہ اس سے فلسطین کی خود مختارآزاد مملکت کے قیام میں مدد ملے گی۔ یہ استدلال بھی بزدل تجزیہ کاروں کی طرف سے آتا ہے کہ حماس اگر میزائل کی یلغار نہ کرتاتو فلسطین پر یہ قیامت نہ ٹوٹتی۔

مسلمان مائیں اب محمد بن قاسم کو ،صلاح الدین ایوبی کو جنم نہیں دیتیں۔ اب ان گھروں میں یاسر عرفات آنکھیں نہیں کھولتے، لیلیٰ خالد پیدا نہیں ہوتی۔ 50 سے زیادہ مسلم ممالک جہاں بادشاہ ہیں، صدور ہیں، وزرائے اعظم ہیں، تمغے ستارے وردیوں پر لگائے جنرل ہیں لیکن سب کے ضمیر واشنگٹن کے لاکروں میں محفوظ ہیں۔ اس نسل کشی کے خلاف مظاہرے غیر مسلم ملکوں میں ہورہے ہیں۔ مسلمان ملک اپنے ہی ہم وطنوں کے سافٹ ویئر درست کرنے میں مصروف ہیں۔ اقتدار کیلئے بندر بانٹ جاری ہے۔ اسلامی دنیا اپنے وسائل پر انحصار اور آپس میں تجارت اور لین دین کی بجائے ڈالر کے حصار میں ہے۔ غیر ملکی سامراج کے خلاف آواز بلند کرنے والے مسلم دنیا کے زندانوں میں قیدیں کاٹ رہے ہیں۔ ایک کروڑ چالیس لاکھ فلسطینی بے یقینی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ 53لاکھ ریاست فلسطین میں 32لاکھ ویسٹ بینک۔ 21لاکھ غزہ پٹی۔ 17لاکھ 1948کی حدود میں۔ 70 لاکھ بیرون فلسطین جن میں سے 63لاکھ عرب ملکوں میں اور ساڑھے سات لاکھ دوسرے ملکوں میں۔

یہ انبیا کی سر زمین کی اولادیں کیسے مشکل حالات کا سامنا کررہی ہیں۔ کتنے مسلمان ملک امیر ہیں کبیر ہیں۔ کتنے وسائل ہیں لیکن وہ ان فلسطینیوں کو اپنا نہیں سمجھتے۔ ان کو درپیش بربریت کے خاتمےکیلئے کوئی مستقل حل پیش نہیں کرتے۔ اکیسویں صدی، اطلاع کی صدی، ڈیجیٹل طاقت، سوشل میڈیا کی صدی میں جیتے جاگتے انسانوں کے ساتھ کتنا ظلم ہورہا ہے۔ یہ ہمارے میڈیا کا مسئلہ نہیں ہے۔ دانشوروں کا کرب نہیں ہے۔ میرے پاس سیاہی خشک ہورہی ہے۔ لفظوں کی نقدی ختم ہورہی ہے۔ فلسطین مٹ رہا ہے۔ فلسطینی اپنی بقا کیلئے اکیلے ہی لڑ رہے ہیں۔

غزہ پٹی میں رہائش پذیر مصعب ابوطہٰ کی ایک نظم انٹرنیٹ پر میں نے آپ کیلئے تلاش کی ہے سنئے ۔ وہ ایک لیڈی ڈاکٹر سے مخاطب ہیں۔ ’’میرے کان میں تمہیں کیا کیا ملے گا/ میرا کان جب کھولو ۔ نرمی سے چھونا/ میری ماں کی لوریاں اندر کہیں لرزتی ہیں/ اس کی آواز کی گونج ہی مجھے اپنا توازن برقرار رکھنے دیتی ہے/ جب تم ٹانکے لگانے لگو تو پہلے یہ ساری چیزیں اسی طرح رکھ دینا/ ڈرون کی بھنبھناہٹ، ایف 16کی گھن گرج، گھروں کھیتوں اور جسموں پر گرتے بم/ سنسناتے راکٹوں کی چیخیں/میرے چھوٹے سے کان کی جان ان سب سے چھڑانا/ زخموں پر اپنی مسکراہٹ کی خوشبو چھڑک دینا/ میری رگوں میں نغمۂ زندگی کا انجکشن لگادینا تاکہ میں جاگ جائوں/ ڈرم پر ضرب نرمی سے لگانا تاکہ میرا ذہن تمہارے ذہن کے ساتھ ہم رقص ہوسکے/ میرے دن رات کی مسیحا۔

تازہ ترین