• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میرا بڑا بیٹا دانیال، ماشا اللہ انیس برس کا ہے ،خاموش طبیعت کا مالک ہے، اپنے آپ میں رہتاہے، کوئی سوال پوچھو تو اُس کا مختصر ترین جواب دیتا ہے ، اپنے کام سے کام رکھتا ہےاور شریف اِس قدر ہے کہ ہم پریشان رہتے ہیں کہ اُس کی کوئی شکایت کیوں نہیں آتی ، اسکول میں مار کٹائی کیوں نہیں کرتا، سیدھا گھر کیوں آجاتا ہے ، آوارہ گردی کیلئے کیوں نہیں نکلتا !اُس کا واحد مشغلہ کتابیں پڑھنا ہے، اپنا سارا جیب خرچ وہ کتابوں پر لُٹا دیتا ہے اور کتابیں بھی دقیق، ضخیم اور نہ سمجھ میں آنے والی ۔ نفسیات اُس کا پسندیدہ موضوع ہے،شاید ہی کوئی ایسا ماہر نفسیات ہو جس کی کتاب اُس نے ختم نہ کی ہو، فرائیڈ کی The Essentials of

Psyco Analysis سمیت، بے خوابی کے مریضوں کیلئے یہ مجرب نسخہ ہے، رات کو اِس کتاب کے دو تین صفحات پڑھتے پڑھتے بندے کو نیند آجاتی ہے۔کل میں نے بیٹےسےکہاکہ جو کتابیں تم پڑھتے ہو اُن کے متعلق ہزار بارہ سو الفاظ کا مضمون ہی لکھ دیا کرو ،سال بھر میں ایسی پچاس تحریریں بھی اکٹھی ہوگئیں تو ایک منفردکتاب بن جائے گی ۔ اِس پر حسبِ عادت اُس نے توقف کیا اور جواب دیا کہ میں چاہتا ہوں کہ میری تحریر معیاری ہو،عامیانہ یا اوسط درجے کی نہ ہو، جب کوئی پڑھے تو اسے لگے کہ یہ ٹھوس اور مدلل انداز میں لکھی گئی ہے۔اُس کی بات کا جواب میں نے یوں دیا کہ پہلے دن سےکوئی بھی شخص بہترین تحریر لکھنا شروع نہیں کردیتا، یہ مسلسل مشق ہے،جوں جوں آپ لکھتے چلے جائیں گے توں توں آپ کی تحریر میں پختگی اور روانی آتی جائے گی بشرطیکہ آپ معیار کے معاملے میں حساس ہوں اور اسے بہتر بنانے کی مسلسل کوشش کرتے رہیں ، مگر یہ سب کچھ اسی صورت میں ممکن ہے اگر آپ لکھنے بیٹھیں گے اور اِس بات کی پروا نہیں کریں گے کہ آپ کی یہ تحریریں اعلیٰ معیار کو نہ چھونے کی وجہ سے ضائع ہو رہی ہیں ، اسے The Law of Wasted Efforts یعنی قانون سعی لا حاصل کہتے ہیں ۔اُس نے میرے احترام میں لکھنے کی ہامی بھر لی اور یوں باپ بیٹے کی گفتگو ختم ہوگئی۔

قانون سعی لا حاصل خاصا دلچسپ ہے،اِس کے بارے میں میں نے کہیں پڑھا تھا کہ شیر جب شکار کیلئے نکلتا ہے تو اسے صرف ایک چوتھائی کامیابی ملتی ہے ،یعنی اگر وہ چار مرتبہ شکار کی کوشش کرے تو تین مرتبہ اسے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑتا ہے مگر اِس کے باوجود وہ کبھی ہار نہیں مانتا، نیشنل جیوگرافک کے پروگراموں میں اکثر دکھایا جاتا ہے کہ شیرکسی ہرن یا نیل گائے کے تعاقب میں جاتا ہے اور ناکام ہوکر لوٹتا ہے ۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ناکامی کی اِس قدر بلند شرح کے باوجود شیر مسلسل شکار کی تلاش میں کیوں رہتے ہیں، کیا اِس کی وجہ بھوک ہے ؟ ممکن ہے ایسا ہی ہو لیکن سعی لا حاصل کا قانون کہتا ہے کہ یہ مسلسل کوشش اُن کی فطرت کا حصہ ہے ، یہ قانون ِ قدرت ہے، بالکل اسی طرح جیسے مچھلی کے پچاس فیصد انڈے دیگر جانور ضائع کردیتے ہیں ، ریچھ کے آدھے بچے بلوغت سے پہلے ہی مر جاتے ہیں اور درختوں کے زیادہ تر بیج پرندے کھا جاتے ہیں ۔اِن مثالوں کی بنیاد پر یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ چرند، پرند ، نباتات اور فطرت کے دیگر مظاہر اِس قانون برائے سعی لا حاصل کے تابع ہیں، یہ صرف انسان ہے جو ذرا سی کوشش کے بعد ہمت ہار جاتا ہے۔کیا ایسا ہی ہے؟

ہم روزانہ مختلف لوگوں سے ملتے ہیں ، اُن میں کامیاب لوگ بھی ہوتے ہیں اور ناکام بھی ، اوسط درجے کے ذہین بھی اور بے حد لائق فائق اور قابل بھی ، لیکن یہ ضروری نہیں کہ ہر بندہ اپنی قابلیت ، لیاقت اور ذہانت کے مطابق ہی کامیاب ہو،اکثر مشاہدے میں آتا ہے کہ بہت زیادہ اسمارٹ آدمی بھی اتنا کامیاب نہیں ہو پاتا جتنا اسے ہونا چاہیے جبکہ اُس کے برعکس ایک واجبی سی عقل اور سمجھ بوجھ والا زیادہ کامیاب نظر آتاہے ۔ایسا نہیں ہے کہ اِن میں سے کسی کو زندگی زیادہ موقع دیتی ہے اور کسی کو کم ، مواقع ہر شخص کو لگ بھگ برابر ہی ملتے ہیں مگر یہ ضروری نہیں کہ ہر بندہ ’موقع شناس‘ بھی ہو۔اصل میں زندگی بدلنے کا موقع جب ملتا ہے تو اکثر لوگ یہ جان ہی نہیں پاتے کہ یہ ٹرننگ پوائنٹ ہے ۔ لیکن جو لوگ موقع کوبھانپ لیتے ہیں وہ اپنی زندگی تبدیل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں ، چاہے اُن میں عقل، ذہانت اور لیاقت میں دوسروں کی نسبت کم ہی کیوں نہ ہواور اِس کی وجہ یہی قانونِ سعی لا حاصل ہے۔ ایسے لوگ پھر اپنے کام میں جُت جاتے ہیں اور یہ پروا نہیں کرتے کہ اُن کی محنت رنگ لا رہی ہے یا نہیں ، کیونکہ قانون کے مطابق یہ بات فطرت میں پوشیدہ ہے کہ کسی بھی کوشش کا نتیجہ سو فیصد نہیں نکلے گا ، اُس میں سے ہمیشہ کچھ نہ کچھ ضائع ضرور ہوگا اور یہ ضائع شدہ کوشش پچاس فیصدتک بھی ہوسکتی ہے ۔انسان چونکہ جانوروں سے زیادہ سیانا ہے اِس لیے وہ کیلکولیٹر پکڑ کر جمع تفریق میں لگ جاتا ہےاور سوچتا ہے کہ جو محنت وہ کر رہا ہے اُس کا اتنا فائدہ نہیں مل رہا جتنا ملنا چاہیے لہٰذا یہ سعی لا حاصل ہے،اسی نکتے پر پہنچ کر زیادہ تر لوگ ہمت ہار بیٹھتے ہیں اور عصر کے وقت روزہ افطار کرلیتے ہیں۔ یہاں ایک باریک نکتہ ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ محنت ضائع ہونے سے یہ مراد ہر گز نہیں کہ جانتے بوجھتے ہوئے فضول کام میں وقت ضائع کیا جائے، اتنی سوجھ بوجھ تو بندے میں ہونی چاہیےکہ وقت کے ساتھ خودکو ڈھال لے اور اپنی محنت کی سمت درست رکھے۔

یہ قانون اپنی جگہ درست ہوگا مگر یہ بات بھی سچ ہے کہ بد قسمتی کا کوئی توڑ نہیں، دنیا کا کوئی قانون یا کلیہ ایسا نہیں جو بدقسمتی کا علاج کرسکے۔ہم لکھاری لوگ نہایت آسانی کے ساتھ زندگی کی الجھنوں اور مشکلات کا حل کپسول کی شکل میں بنا کر پیش کردیتے ہیں جیسے زندگی سیلف ہیلپ کا کپسول نگلنے سے ٹھیک ہوجائے گی۔ ایسا نہیں ہوتا۔ جس تن لاگے سو تن جانے اور نہ جانیں لوگ۔کچھ لوگ بدقسمتی میں یقین نہیں رکھتے، میں بھی انہی لوگوں میں شامل ہوں،مگر میرے مشاہدے میں ایسے بے شمار لوگ ہیں جن کی قسمت بظاہر اُن سے روٹھی ہوئی ہے ،انہوں نے قانونِ سعی لا حاصل بھی آزما کر دیکھ لیا مگر افاقہ نہیں ہوا۔ ایسے لوگوں کیلئے شاید ہمیں کوئی نیا قانون وضع کرنا پڑے گا!

تازہ ترین