گرفن ایک ذہین آدمی تھا۔ اسے شوق تھا کہ وہ لوگوں کے درمیان موجود ہو مگر نظر نہ آئے۔ جب وہ میڈیکل کالج میں پڑھ رہا تھا تو اس نے چند تجربات کیے۔ تجربات کامیاب رہے اور اس نے اپنے آپ کو غائب یعنی نظر نہ آنے والا شخص بنا لیا۔ چند روز بعد جب اس نے اپنی حالت ریورس کرنے کی کوشش کی تو ناکام رہا۔ گرفن نے دوبارہ سے نظر آنےکے لیےکئی تجربات کیے مگر بے سود رہے۔ بد قسمتی سے وہ مستقل طور پر ایک غائب رہنے والا آدمی بن چکا تھا۔ جب اس نے کوئی لباس پہنا ہوتا تو صرف لباس ہی نظر آ سکتا تھا جبکہ اس کے جسم کے تمام اعضاء دنیا کی نظروں سے اوجھل رہتے۔ گرفن نظر نہیں آتا تھا البتہ اسے چھوا جا سکتا تھا۔ اس نے لوگوں سے لین دین کرنے کے لیےایک ایسا لباس پہن لیا جس سے اس کی موجودگی کا احساس ہوتا تھا۔ گرفن نے منہ پر چند پٹیاں باندھ لیں اور سر پر بڑا سا ہیٹ رکھ لیا۔ ایک نقلی ناک بھی لگا لی تا کہ لوگوں کو شک نہ ہو کہ وہ ایک نظر نہ آنے والا آدمی ہے۔ گرفن ایک کرائے کے مکان میں رہنے لگا جہاں وہ اپنی پرانی حالت واپس لانےکے لیے تجربات کرتا رہتا۔ وہ کسی سے بھی نہ ملتا اور ضرورت کے وقت رات کو ہی گھر سے باہر نکلتا۔ علاقے کے لوگ اس کے بارے طرح طرح کی باتیں کرنے لگے۔ ایک دن مکان کے قریب ہی ایک گھر میں چوری ہو گئی۔ چونکہ گرفن نے ابھی کرائے کی ادائیگی نہیں کی تھی اس لیے مالک مکان اور گاؤں والوں کا شک اس پر اسرار آدمی پر ہی گیا جس کو آج تک کسی نے دیکھا نہیں تھا۔ مالک مکان سے ادائیگی پر تلخ کلامی ہوئی تو گرفن نے غصے میں آ کر اس پر اپنا راز عیاں کر دیا۔ پولیس اس کو پکڑنے آئی تو وہ کپڑے اتار کر بھاگ نکلا۔ چونکہ وہ نظر نہیں آتا تھا، اس لیے پولیس کو بھی اسے پکڑنے میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ بھاگتے ہوئے وہ ایک ایسے گھر میں داخل ہوا جہاں اس کا پرانا کلاس فیلو کیمپ رہتا تھا۔ گرفن نے کیمپ کو اپنی داستان سنائی اور اس ارادے کا اظہار کیا کہ وہ لوگوں میں دہشت اور خوف پھیلانا چاہتا ہے۔ ساتھ میں یہ بھی کہا کہ کیمپ اس کا ساتھ دے۔ کیمپ نے اس کا ساتھ دینے سے انکار کر دیا۔ اس دوران چند اہلکار گرفن کو گرفتار کرنے آ گئے جن سے وہ بچ نکلا۔ چوہے بلی کے کھیل میں گرفن نے کئی لوگوں کو زخمی اور قتل بھی کیے۔ کیمپ کی بے رخی نے اس کو مشتعل کر دیا تھا، سو اب وہ اسے ماردینا چاہتا تھا۔ ایک دن دونوں کا سامنا ہوا تو گرفن نے کیمپ پر حملہ کر دیا۔ شور مچا تو لوگ اکٹھے ہو گئے۔ یوں کیمپ کی جان بچ گئی مگر نظر نہ آنے والا گرفن ہجوم کے ہتھے چڑھ گیا۔ کیمپ لوگوں کو گرفن پر تشدد سے منع کرتا رہا مگر لوگوں نے گرفن کو مار کر ہی دم لیا۔ مرنے کے بعد گرفن کا اصلی چہرہ واضح ہو گیا اور اس کا مردہ جسم سب نے دیکھ لیا۔
یہ ایک ناول’’دی انویزیبل مین‘‘ کی کہانی ہے۔ اسے ایچ جی ویلز نے 1897ء میں شائع کروایا۔
گرفن ایک یونیورسل کیریکٹر ہے۔ یہ ایسا علامتی کردار ہے جو ہر معاشرے میں موجود ہے۔ وہ قبولیت کی سٹیج پر نظر سے غائب ہو چکا ہے۔ اب وہ اپنی پرانی حالت واپس لانا چاہتا ہے، مگر جب وہ ایسا نہیں کر پاتا تو اس کی مایوسی اس سسٹم سے نفرت میں بدل جاتی ہے جہاں سے اسے واپسی کا راستہ نہیں ملا۔ اور یوں وہ معاشرے میں عدم توازن لانے کا ایک سبب بن جاتا ہے۔ ایسے کرداروں کی ہست و بود نظامِ عدل کی ترجیحات پر منحصر ہوتی ہے۔ یہ لوگ جب قانون کی نظروں سے اوجھل ہو جاتے ہیں تو اپنی مرضی سے ہر وہ کام کر لیتے ہیں جو انہیں قانون کے سامنے رہ کر کرنے کی اجازت نہیں۔ لیکن پھر جب دوبارہ قانون کی نظر میں آنا چاہتے ہیں تو سسٹم اس بات کی اجازت نہیں دیتا۔ پھر ان پر پرانے اصول نافذ نہیں ہوتے۔ یوں وہ گرفن جیسی شخصیت بن جاتے ہیں جنہیں نہ تو نظام قبول کرتا ہے اور نہ ہی وہ دوسروں سے خوش ہوتے ہیں۔
سٹیٹ میں رہنے والوں کا یہ حق ہے کہ انہیں انصاف پر مبنی ماحول ملے۔ ایسا ماحول جہاں نہ صرف وہ اپنی خواہش کے مطابق زندگی گزار سکیں بلکہ انہیں آگے بڑھنے کے یکساں مواقع بھی میسر آئیں۔ اس بات کو یقینی بنانا حکومتوں کا کام ہے اور ریاستی نظام اس کی رکھوالی کرتا ہے۔ یہ اس وقت ممکن نہیں ہے جب اتھارٹیز کی ترجیحات یہ ہوں کہ لوگوں کو انفراسٹرکچر پہ کام ہوتا ہوا نظر آئے۔ جب معاشرتی ترقی کو وزیبیلٹی کے پیمانے پر تولا جاتا ہے تو انویزیبل فیکٹرز کا وزن صفر ہو جاتا ہے۔ یہی انویزیبل فیکٹرز اگنور ہو جانے پر معاشرتی زوال کا سبب بنتے ہیں۔ دن بدن بڑھتی نا انصافی، شخصی آزادی پر بندش، وسائل کی بے ڈھنگی تقسیم اور ایک دوسرے پر عدم اعتماد ہماری قوم سے وہ امید چھین رہا ہے جس کی گود میں آپٹمزم پرورش پاتا ہے۔ آپٹمزم کی عدم موجودگی بے یقینی کی فضا کو مایوسی کی ہوا فراہم کرتی ہے جو پہلے سے گھٹن کا شکار شخص کے سینے میں سرایت کر کے نفرت کی آگ بن کر باہر نکلتی ہے۔ ریاست کو اپنے شہریوںکیلئےآپٹمزم کی پرورش کرنا ہو گی۔ اس کیلئے غیر جانبدار مگر مضبوط جسٹس سسٹم کا فعال ہونا ضروری ہے۔ ہمیں یاد رکھنا ہو گا کہ لوگوں کے ساتھ ناانصافی ہوتی ہے تو وہ اس کا بہت اثر لیتے ہیں۔ ایسا نہیں کہ وہ اسے بھول جائیں۔ پھر وہ نظام کو نقصان پہنچانے میں بھی عار نہیں سمجھتے کیونکہ وہ ایسے سسٹم کو اپنا دشمن سمجھ رہے ہوتے ہیں جو مکڑی کے جالے کی طرح مچھر مکھیاں تو پکڑ سکتا ہے، چوہے نہیں۔ آنے والی حکومت سے توقع رکھی جا سکتی ہے کہ وہ ایسے اقدامات کرے کہ کوئی انویزیبل مین جیسی شخصیت بننے کی خواہش نہ کرے اور جو پہلے سے انویزیبل ہیں انہیں وزیبل ہونے میں دقت پیش نہ آئے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)