• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عوام کی نظریں نومنتخب حکومت بننے کے انتظار میں ہیں تاکہ ان سے کئے گئے وعدوں کے مطابق مہنگائی اور غربت میں کمی اور نئی ملازمتوں کے مواقع فراہم کئے جاسکیں جو ایک مستحکم حکومت کے قیام سے ہی ممکن ہوگا لیکن کسی بھی سیاسی جماعت کی اکثریت نہ ہونے کے باعث مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی میں مفاہمت کے بعد ایک مخلوط حکومت بنتی نظر آرہی ہے جس میں پیپلزپارٹی نے کابینہ میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ آئندہ حکومت کو معیشت کے بے شمار چیلنجز کا سامنا ہوگا جس میں سب سے بڑا چیلنج آئی ایم ایف کا 6 ارب ڈالر کا نیا 3 سے 5 سالہ طویل المدت پروگرام ہے جس کیلئے مذاکرات 4اپریل کو موجودہ پروگرام ختم ہونے کے بعد کئے جائیں گےاس کیلئے عوام کو آئی ایم ایف کی مزید شرائط کو پورا کرنا ہوگا۔ پاکستان کے گیس کے گردشی قرضے 3000 ارب روپے تک پہنچ گئے ہیں جس میں کمی کیلئے آئی ایم ایف کے مطالبے پر نگراں حکومت نے اپنے آخری دنوں میں گیس کے نرخوں میں 67 فیصد اضافہ کیا ہے جو رہائشی، کمرشل، فرٹیلائزر اور سی این جی صارفین پر یکم فروری سے لاگو ہوگا جس کے نتیجے میں صنعتوں کے گیس کے نرخ 2100روپے سے بڑھ کر 2750روپے فی MMBTU ہوجائینگے جو مصنوعات کی پیداواری لاگت میں ناقابل برداشت اضافے کا سبب بنے گا۔

اس وقت حکومت 400 یونٹ ماہانہ تک بجلی استعمال کرنے والے گھریلو صارفین کو سستی بجلی مہیا کرنے کیلئے 244ارب روپے کی کراس سبسڈی دے رہی ہے جو صنعتوں سے وصول کی جارہی ہے جس کی وجہ سے صنعتوں کے بجلی کے موجودہ نرخ 14 سے 16 سینٹ فی کلو واٹ تک پہنچ گئے ہیں جبکہ خطے کے مسابقتی حریفوں بھارت، بنگلہ دیش اور ویت نام میں یہ اوسطاً 7 سینٹ فی کلو واٹ ہیں۔ کراس سبسڈی یعنی ایک سیکٹر کو سستی گیس دے کر اس کا بوجھ دوسری صنعت پر ڈالنا دنیا کا فیل ماڈل ہے۔ اس مراعت سے ایک سیکٹر تو مستفید ہوتا ہے لیکن دوسرا سیکٹر غیر مسابقتی ہوجاتا ہے۔ ہر سیکٹر کو اپنا اپنا بوجھ اٹھانا چاہئے۔ یہی ٹیکسٹائل سیکٹر کے ساتھ ہوا ہے کہ 400یونٹ ماہانہ استعمال کرنے والے گھریلو صارفین کو سستی بجلی فراہم کرنے کیلئے حکومت نے 244 ارب روپے کا بوجھ ٹیکسٹائل سیکٹر پر ڈالا جس سے صنعتی سیکٹر کے بجلی کے حقیقی نرخ 9 سینٹ فی کلو واٹ کے بجائے 14 سے 16 سینٹ فی کلو واٹ تک پہنچ گئے جس نے صنعتی سیکٹر کی مسابقتی سکت کو متاثر کیا اور آج پاکستان خطے میں اپنے مسابقتی حریفوں سے ایکسپورٹ میں مقابلہ نہیں کرپارہا اور ہماری ایکسپورٹس گزشتہ کئی سال سے جمود کا شکار ہیں۔ ہم ہر سال ایکسپورٹ بڑھانے کے نئے ہدف مقرر کرتے ہیں لیکن ایکسپورٹ بڑھنے کے بجائے کم ہورہی ہیں جو لمحہ فکریہ ہے۔ ہمیں چاہئے کہ ایکسپورٹ سیکٹر کو صحیح معنوں میں زیرو ریٹڈ بنائیں جس پر کسی قسم کا ٹیکس اور ڈیوٹی نہ ہو اور بجلی گیس کے ٹیرف کو خطے کے دیگر ممالک کے برابر لایا جائے۔

صنعتی سیکٹر کو مسابقتی بنانے اور ایکسپورٹ میں اضافے کیلئے وفاقی وزیر تجارت گوہر اعجاز نے اپنے حالیہ دورہ فیڈریشن میں صنعتوں کے بجلی کے نرخ 9 سینٹ کرنے کا اشارہ دیا تھا جسے SIFC نے بھی منظور کرلیا تھا لیکن آئی ایم ایف نے اس تجویز کی مخالفت کی ہے جس کی وجہ سے ایکسپورٹ صنعتوں کے بجلی کے نرخوں میں کمی کی تجویز التوا کا شکار ہوگئی ہے۔ اپٹما کے مطابق گیس کی قیمتوں میں حالیہ اضافے سے ملک میں 50 فیصد ٹیکسٹائل صنعتیں بند ہوسکتی ہیں جس سے ملکی ایکسپورٹس میں کمی اور بیروزگاری میں اضافہ ہوگا جو ملکی معیشت برداشت نہیں کرسکتی۔ اس سلسلے میں ملک کے نامور ایکسپورٹرز نے حال ہی میں کراچی میں صدیق سنز کے طارق رفیع کی میزبانی میں ایک ہنگامی میٹنگ منعقد کی جس میں مجھے بھی مدعو کیا گیا تھا۔ میرے علاوہ میٹنگ میں اسٹیٹ بینک کے سابق گورنر یاسین انور، اشفاق تولہ، منیر قریشی، انور حاجی کریم، ڈینم مینوفیکچررز کے خالد مجید، اپٹما کے چیئرمین آصف انعام، ایس ایم جاوید، پرویز احمد، رحیم طارق رفیع اور دیگر نے شرکت کی۔ میٹنگ کا ایجنڈا گیس کے نرخوں میں اضافے سے ٹیکسٹائل صنعتوں کی بندش تھا۔ مجھ سے درخواست کی گئی تھی کہ اس سلسلے میں وفاقی وزیر توانائی محمد علی اور وزیر تجارت گوہر اعجاز سے فوراً میٹنگ کی جائے تاکہ ٹیکسٹائل کی صنعتوں کی متوقع بندش کو روکا جاسکے۔

ہمیں معاشی بحالی کیلئے ہائی گروتھ ماڈل 5 سے 6 فیصد جی ڈی پی گروتھ پر جانا ہوگا تاکہ صنعتی پیداوار، ایکسپورٹس میں اضافہ اور نئی ملازمتوں کے مواقع پیدا ہوں لیکن آئی ایم ایف نے 2024اور 2025 میں پاکستان کی جی ڈی پی گروتھ 2 سے 2.5 فیصد کی پیش گوئی کی ہے۔ افراط زر کو کنٹرول کرنے کیلئے آئی ایم ایف کے مطالبے پر اسٹیٹ بینک کا ڈسکائونٹ ریٹ 22 فیصد اور بینکوں کی شرح سود 24 فیصد تک پہنچ چکے ہیں، نئی سرمایہ کاری کیلئے ہمیں افراط زر میں کمی کرکے بینکوں کی شرح سود میں کمی لانا ہوگی۔ عوام کا اس وقت سب سے بڑا مسئلہ مہنگائی اور بیروزگاری ہے۔ SIFC زراعت کے شعبے میں ترقی کیلئے بہترین کام کررہی ہے۔ میری دعا ہے کہ نومنتخب حکومت ایک مستحکم حکومت ہو تاکہ وہ معاشی بحالی کیلئے مضبوط فیصلے کرسکے۔

تازہ ترین