• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آٹھ فروری کو ہونے والے انتخابات میں ڈالے گئے ہر دس میں سے سات ووٹ لینے والی جماعتیں وفاقی حکومت تشکیل دینے پر رضامند ہوگئی ہیں ۔ جس دوران معیشت ، خارجہ پالیسی ، وفاقی ڈھانچہ بحرانوں کی زد میں ہیں ، نئی حکومت کو ایک اور سنگین چیلنج کا سامنا ہے:رپبلک کو برقرار رکھنے کاچیلنج۔ دس میں سے تین پاکستانی رائے دہندگان نے اُس جماعت کی حمایت کی ہے جس نے نو مئی 2023 ء کو منظم بغاوت کی سازش کی تھی۔ گویا فسطائیت کے قدموں کی دھمک سنائی دے رہی ہے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پوری طاقت سے اس کی مزاحمت کیسے کی جائے اور اسے شکست سے کس طرح دوچار کیا جائے؟

بائیس فروری کو جمہوریت پر فسطائیت کے حملے کی دو مثالیں ملتی ہیں ۔ جان بوجھ کر دھمکی ارزاںکی گئی کہ چیف عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کو خط لکھنے کا سوچ رہا ہے جس میں فنڈ سے کہا جائے گا کہ پاکستان کو ملنے والے قرضے کی اگلی قسط روک دی جائے ۔ دوسری، سابق کمشنر، جس نے راول پنڈی ڈویژن میں انتخابی دھاندلی کے سنسنی خیزالزامات لگا ئے تھے ، نے اپنے بیان سے مکمل طور پر رجوع کرتے ہوئے کہا کہ اُن کے سابق الزامات جیل میں قید ایک فسطائی لیڈر کی ایما پر لگائے گئے تھے۔

ریاست مخالف فسطائی حربے کوئی نئی بات نہیں ۔ اگست 2022 ء کو خیبرپختونخوا اور پنجاب کے صوبائی وزرائے خزانہ اور سابق وفاقی وزیر برائے مالیات کی گفتگو سامنے آئی تھی۔ وفاقی وزیر کا صوبائی وزراسے کہنا تھا کہ وہ ان وسائل کی فراہمی سے انکار کردیں جن کی فسطائی حکومت نے پہلے آئی ایم ایف کو یقین دہانی کرائی تھی ۔ اس سے پہلے 2014 ء میں دھرنے کے اسٹیج سے دھمکیوں کے دوران آئی ایم ایف دہرایا جانے والا موضوع تھا ۔ اس کے باوجود جب وہی ٹولہ حکومت میں آیا تو 2019 ء میں اسی آئی ایم ایف سے غریب دشمن معاہدہ کرلیا گیاجس نے پاکستان کی مالیاتی اور قانونی خود مختاری دائو پر لگا دی۔

ذاتی مفاد کے جن دائو پیچوں نے پاکستان کی خودمختاری پر کاری وار کیے ، ان کی گولہ باری2018-2022 کی حکومت میں دیکھی گئی۔’’مسٹر مودی کی حکومت کشمیر تنازع کے حل کا بہترین آپشن ہوسکتی ہے ، ‘‘ فسطائی وزیر اعظم نے اپریل 2019 ء کو نیویارک ٹائمز کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ۔ دوسال بعد ایک امریکی انٹرٹینمنٹ چینل سے بات کرتے ہوئے کہا : ’’ کشمیر تنازع حل ہوجائے تو اس کے بعد ہمیں ایٹمی ڈیٹرنس کی ضرورت نہیں رہے گی ۔ ‘‘ مودی نے اگست 2019 ء میں مقبوضہ کشمیر کی مخصوص حیثیت ختم کرکے اسے بھارتی ریاست میں ملا لیا تو اس پر فسطائی ردعمل مبہم، ناکافی اور عقلی طور پرناقص تھا۔ فسطائی پالیسی کا ردعمل تیس منٹ کیلئے لائن بنا کر کھڑے ہونا، ایک ترانہ گانا ، سڑک کا نام بدلنا اور ایک پرانے نقشے کی تبدیلی پر موقوف تھا۔

فسطائیت پر قابو پانا ہر جگہ سیاسی ، قانونی، گورننس اور ابلاغ کا چیلنج ہے۔ ’’اسے انفرادی یا حتیٰ کہ اجتماعی طور پر معقولیت اختیار کرنے کی درخواست کرتے ہوئے شکست نہیں دی جاسکتی ۔ ‘‘ پال میسن ’’فسطائیت کو کیسے روکا جائے‘‘ میں لکھتے ہیں ، ’’ اسے اخلاقی شکست سے دوچار کیا جائے ، استدلال کی قوت سے پارہ پارہ کیا جائے ، اور ’عام تعصبات‘ ، جیسا کہ قوم پرستی کاسہارالینے پر مجبور کردیا جائے ، اگرچہ یہ نامناسب ہے ، کیوں کہ یہاں اسے استدلال اور منطق کے ذریعے محدود کیا جاسکتا ہے ۔‘‘

فسطائیت کو اخلاقی طور پر شکست دینا مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کیلئے آسان نہیں۔ ان کے شانوں پر ماضی کا بوجھ ہے جو اچھا بھی ہے اور برا بھی۔ ان کے ووٹر پرعزم لیکن عمررسیدہ اور تھکے ہوئے ہیں۔ اور پھر ان جماعتوں نے جو کچھ بھی اچھا کیا، اسے مہیب فسطائیوں کے پیہم جھوٹ، مسلسل منفی پرچار اور ابلتے ہوئے جذبات کی پروپیگنڈا مشین نے روند ڈالا ۔یہ کوئی نادر مثال نہیں ہے۔ نازی پروپیگنڈا تمام عصری میڈیا میں اپنے وقت سے کئی دہائیاں آگے تھا۔ لینی ریفنسٹہل کی 1930 کی دہائی میں نازی جرمنی کی دستاویزی فلمیں ، ’Triumph of the Will‘ اور ’Olympia‘ اپنے وقت سے کئی دہائیاں آگے تھیں۔ یہ شاہکار فلمیں ہیں گرچہ ان میں پروپیگنڈے کا نشتر کتنا ہی تیز کیوں نہ ہو۔ جوزف گوئبلز (1933-45)دنیا کی تاریخ میں پروپیگنڈا کے پہلے وزیر تھے۔ ان کی یہ بات امر ہوگئی کہ ’’ اگر آپ جھوٹ بولتے ہیں اور اسے دہراتے رہتے ہیں تو لوگ آخرکار اس پر یقین کر لیں گے۔‘‘

جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے ، بیرون ملک تعاون کرنے والوں کے لشکر نے 2011 کے بعد سے تمام سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر فسطائیوں کے جدید ترین پروپیگنڈے کی مالی معاونت کی ہے۔ فسطائیوں نے 2018 کے مقابلے میں 2024 میں تقریباً 10 لاکھ کم ووٹ ڈالے۔ لیکن فور جی موبائل انٹرنیٹ کے نیٹ ورک والے معاشرے میں مقامی ووٹروں کی تعداد اتنی اہمیت نہیں رکھتی جتنی یہ کہ کتنے لوگ، چاہے وہ جہاں بھی ہوں، پروپیگنڈے کو ری ٹویٹ کر رہے ہیں اور کون دن میں دس بار پوسٹ کر رہا ہے۔ فیس بک گروپس، ٹویٹ اور ٹک ٹاک ویڈیوز کو لائیک کررہا ہے۔ فسطائیوں کے پاس میڈیا اور قانونی چیلنجز کیلئے بے اندازہ پیسہ ہے۔ سب سے موثر پروپیگنڈا مشین ان کے پاس ہے ۔اور ووٹر نفرت اور ناراضی کی وجہ سے پرجوش ،لیکن بے خبر ہیں ۔ اس مشین نے تمام ریاستی اداروں کو تقسیم درتقسیم کردیا ہے۔ اب انھوں نے اسٹیبلشمنٹ مخالف ووٹروں کو بھی اپنی طرف متوجہ کیا ہے۔

پس چہ باید کرد؟ پہلا کام مہنگائی پر قابو پا کر اور یوٹیلیٹی بلوں میں کمی کر کے معاشی طور پر متاثرہ متوسط طبقے اور غریبوں کو فسطائیوں سے الگ کرنا ہے۔ دوسرا کام 9 مئی کے منصوبہ سازوں، اس کی حوصلہ افزائی کرنے والوں اور مجرموں کو جلد انصاف کے کٹہرے میں لانےکیلئے مستعدی سے قوانین کو نافذ کرنا ہے۔ تیسرا طاقتور قانونی ردعمل ہے جس کا مظاہرہ فسطائیت مخالف قوانین کے ذریعے جرمنی نے کیا تھا۔ چوتھا 21ویں صدی کے مواصلاتی چیلنجوں کا سامنا کرنےکیلئے حکومت کی بنیادی اصلاحات ہیں۔لیکن سب سے بڑھ کر، پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی کو میثاق جمہوریت کو ازسر نو دریافت کرنا ، آئینی حکومت کا دائرہ وسیع کرنا ، مقننہ کو بااختیار بنانا اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ ایک پرامن، متحد،فعال اور غریب نواز حکومت کو یقینی بنانا چاہئے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین