سردی کی شدت میں جوں جوں کمی آرہی ہے،حالات نیا رخ اختیار کرتے جارہے ہیں۔ سیاسی موسم کی حدت سے مستقبل کی سیاسی منظر نامہ واضح دکھائی دے رہا ہے۔تاریخ اپنا ٹمٹماتا دیا تھامے ماضی کی روشوں پر لڑکھڑاتی جارہی ہے۔اس کوشش میں کہ بیتے منظر دوبارہ دکھلا دے۔ بھولی بسری صدائے بازگشت پھر سنوا دے،ماضی کے جوش و جذبے کا چراغ پھر روشن کردے۔چاہے روشنی مدھم ہی کیوں نہ ہوں۔ایسا ہی ایک منظر 18فروری کو دیکھنے میں آیا۔دن کے آغاز سے ہی شہر اقتدار کی فضا میں گہرا سکوت طاری تھا ۔ وزیراعظم آفس اور سپریم کورٹ آف پاکستان کے عقب میں واقع نیشنل لائبریری میں قائم خصوصی عدالت سماعت کے آغاز سے ہی سابق آرمی چیف کی آمد کی منتظر تھی۔ پرویز مشرف کا قافلہ فوجی اسپتال سے نکلنا تھا۔ اس موقع پرسڑکوں پر سفر کرنے والے عوام کو کئی گھنٹے تک جکڑے رکھا گیا ۔سیکورٹی پروٹوکول کے بلیو بک میں واضح قواعد و ضوابط کی دھجیاں واضح بکھرتی ہوئی نظر آرہی تھیں۔ اسلام آباد پولیس کے افسران خود چہ مگوئیاں کررہے تھے کہ ایسا پروٹوکول تو کبھی صدر ،وزیراعظم اور موجودہ آرمی چیف کو بھی نہیں دیا جاتا جو ایک مقدمے کے اکلوتے ملزم کو دیا جارہا ہے۔
قارئین شاید پڑھ کر حیران ہوں گے کہ جونہی قومی نشریاتی اداروں نے پرویز مشرف کی فوجی اسپتال سے روانگی کی خبر چلانا شروع کی تو میں تجسس سے اٹھا اور ملزم مشرف کی آمد کا منظر دیکھنے کے لئے خصوصی عدالت سے متصل وزیراعظم آفس سے باہر آنے کے لئے عقبی دروازہ استعمال کرتے ہوئے جونہی بیرونی گیٹ پر آیا تو سیکورٹی فورسز کا جم غفیر اقتدار کے ایوانوں کو اس بے بسی سے تک رہا تھا کہ ان ایوانوں کے باسی حکمران ہیں یا وہ شخص جس نے آئین کو پامال کیا۔ رینجرز نے مجھے وزیراعظم آفس سے باہر آنے سے روکتے ہوئے کہا کہ ابھی آپ واپس اندر چلے جائیں ۔جب تک جنرل مشرف عدالت سے آکر واپس نہیں چلے جاتے کوئی وزیر اعظم آفس سے باہر نہیں جاسکتا۔ابھی اندر کی جانب مڑا ہی تھا کہ دارالحکومت کے ایک پولیس افسر سے سامنا ہوگیا۔میں نے ان سے احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ آپ ریڈ زون کی سیکورٹی کے انچارج ہیں مگر میں اور آپ اس ملک کے سب سے بااختیار شخص وزیراعظم پاکستان کے دفتر کے احاطے میں کھڑے ہیں مگر رینجرز حکام نے ہمارے باہر جانے پر ہی پابندی عائد کررکھی ہے۔اس ملک کے چیف ایگزیکٹیو، ان کے مہمانوں اوراسٹاف کو ایسے محصور کرنا کہاں کا قانون ہے؟ اسی لمحے وزیراعظم آفس سے ایک وفاقی سیکریٹری باہر نکلنے لگے تو انہیں بھی روک دیا گیا۔ موصوف بیوروکریٹ گاڑی سے اتر کر میرے اور پولیس افسر کی چہ مگوئیوں میں شریک ہوگئے تو میں نے کہا کہ میں تو عقبی دروازے سے جانے کی کوشش کررہا تھا مگر آپ تو مرکزی دروازے سے باہر نکل کر شاہراہ دستور کے راستے جارہے تھے مگر آپ کو کیوں روک دیا گیا۔ اس دروازے سے تو وزیراعظم پاکستان کو بھی جانا پڑ سکتا ہے، جو اس وقت بھی اپنے دفتر میں موجود ہیں۔جس پر پتہ چلا کہ عقبی دروازے پر تو رینجرز اہلکاروں کی اجارہ داری ہے تو مرکزی دروازہ شاہراہ دستور پر ٹریفک کی لمبی قطاروں کی وجہ سے بند ہے۔میں نے دونوں سرکاری بابوں سے پوچھا کہ کیا اس ملک کے وزیراعظم سمیت ہم سب افراد ایک شخص کی وجہ سے محصور ہیں؟ پولیس افسر انکساری سے کہنے لگے کہ اس وقت تمام سیکورٹی کنٹرول رینجرز اور فوج کے پاس ہے۔ ان کے اسی فقرے میں مجھے جواب مل چکا تھا۔ اپنی بے بسی کو کوستا ہوا دوبارہ وزیراعظم آفس کی بلند بالا عمارت کے اندر داخل ہوگیا اور باہر کا منظر دیکھنے کی جستجو میں وزیراعظم آفس کی چوتھی منزل پر پہنچا خصوصی عدالت کا منظر دکھاتی تین کھڑکیاں نظر آگئیں۔ابھی ان کا جائزہ ہی لے رہا تھا کہ اچانک ایک خاکی وردی میں ملبوس شخص نے مجھے کندھے سے پکڑ کر مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ ابھی یہاں سے باہر دیکھنا منع ہے۔جس پر میں نے تھوڑا جذباتی انداز میں احتجاج کی کوشش کی مگر بے سود۔ فوجی سپاہی مسکراتے ہوئے کہنے لگا کہ جناب ہم تو حکم کے پابند ہیں ،بیرونی دروازے پر براجمان دو فوجی جب تک بندوقیں تھامے باہر کی جانب دیکھ رہے ہوتے ہیں ،سمجھیں جمہوری حکومت قائم ہے،جیسے ہی ان کا رخ اور بندوقیں اندر کی طرف ہوجائیں پھر کوئی حکومت نہیں ہوتی پھر اوپر کا حکم ہوتا ہے۔
واپس دوسری منزل پر آیا اور ایک سیکریٹری کے کمرے میں لگے ٹی وی سے باہر کے منظر سے مستفید ہونے لگا ۔ اسی دوران دوست سے پوچھا کہ بے شک حالات بدل چکے ہیں،اقتدار دوبارہ 99کی حکمران جماعت مسلم لیگ ن کے پاس ہے ،مگر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پرویز مشرف اب بھی قانون سے بالاتر ہے۔ وہ عمارت جو حکومت پاکستان تصور کی جاتی ہے ۔اس کے باسی بھی محصور ہوچکے ہیں۔گفتگو کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے ان سے پوچھا کہ کیا وزیراعظم صاحب اس صورتحال سے باخبر ہیں تو وہ کہنے لگے کہ وزیر اعظم ساری صورتحال سے بے نیاز دہشت گردی کے معاملے پر حکومتی مذاکراتی کمیٹی اور وفاقی وزراء کے ساتھ مشاورت کررہے ہیں۔
مگر جب میں اس سوال کا جواب تلاش کرتا ہوں کہ کیا مشرف اب بھی قانون سے بالاتر ہیں تو مجھے فوجی ملازم کی بات یاد آجاتی ہے۔ جس روز مشرف کو عدالت میں پیش ہونا تھا اسی روز اسلام آباد کی احتساب عدالت میں دو سابقہ وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف بھی پیش ہوئے مگر ان کی عدالت آمد عام شہریوں کے لئے وبال جان نہیں بنی۔یہی اسلام آباد پولیس تھی مگر اس نے سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی بار بار درخواست کے باوجود ان کی مناسب سیکورٹی کا بندوبست کرنے سے انکار کرتے ہوئے بم ڈسپوزل اسکواڈ بھی نہیں بھیجا تھا ۔حالانکہ یوسف رضا گیلانی نے واضح درخواست کی تھی کہ ان کا بیٹا تحریک طالبان پاکستان نے اغوا کیا اور اب انہیں بھی خطرہ ہے مگر سابق آمر کے لئے 1500سے زائد پولیس اہلکار تعینات کئے گئے جبکہ سابق وزیر اعظم ایسے ہی آیا اور چلا گیا۔ وزیراعظم پاکستان کو اس پر سخت نوٹس لیتے ہوئے اسلام آباد پولیس کے متعلقہ افسران کے خلاف کارروائی کرنی چاہئے ،جنہوں نے جمہوری حکومت کے ہوتے ہوئے شہر اقتدار کا کنٹرول عملاً فوج کو تفویض کردیا تھا۔صرف یہی نہیں بلکہ ہمارے جیو نیوز کے معروف رپورٹر قیوم صدیقی کے مطابق انہوں نے خود دیکھا کہ صحافیوں اور وکلا کو تو خصوصی عدالت کے اندر رینجرز حکام نے محصور کئے ہی رکھا بلکہ جب تک مشرف عدالتی حدود سے نکل نہیں گئے تب تک خصوصی عدالت کے معزز جج صاحبان کو بھی محصور کئے رکھا بلکہ روزنامہ جنگ اور دی نیوز میں بھی جج صاحبان کو محصور رکھنے کے حوالے سے تفصیلی خبر شائع ہوچکی ہے۔
ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ یہ لکھنے کی نوبت ہی نہ آتی وزیراعظم خود ہی آئی جی اسلام آباد سے بازپرس کرتے کہ انہوں نے سوچ بھی کیسے لیا کہ مشرف یا کوئی بھی شخص قانون سے بالاتر ہے اور ایک شخص کی خاطر پوری ریاست کو کیسے محصور کیا جاسکتا ہے؟آئی جی اسلام آبادیا کوئی بھی پولیس یا وزارت داخلہ کا افسر عدالتی فیصلوں کی خلاف ورزی اور معزز جج صاحبان کے ساتھ ایسے سلوک کی جرأت بھی کیسے کرسکتا ہے ؟اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزیراعظم میاں نواز شریف صاحب کو ایسی پنپتی روایات کو دفن کرنا ہوگا جو براہ راست آئین کی بالادستی کے خلاف ہیں۔ اب جب سابق آمر کی عدالتی تشکیل سے متعلق درخواستیں خارج ہوچکی ہیں اور انہیں فرد جرم کے لئے 11مارچ کو طلب کیا گیا ہے تو کیا ایک مرتبہ پھر حکومت پاکستان سے لے کر جج صاحبان کو محصور کیا جائے گا؟ کیا آئین سے غداری کرنے والا اب بھی قانون سے بالاتر ہے؟