• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ٹی وی پر کرکٹ میچ لگا ہے ،قذافی اسٹیڈیم تماشائیوں سے کھچا کھچ بھرا ہے، میدان روشنیوں سے جگمگا رہا ہے، کیمرہ مین جب فضا سے لاہور کا منظر دکھاتا ہے تو یوں لگتا ہے جیسے یورپ کاکوئی شہر ہو۔ میں یہ سب دیکھ رہا ہوں اور سوچ رہا ہوں کہ مجھے اِس موضوع پر لکھنا چاہیے کہ ہمارے ملک میں کرکٹ کی رونقیں کیسے بحال ہوئیں۔ آسان سا موضوع ہے اور کرکٹ کے بارے میں تو ویسے ہی میں کافی کچھ جانتا ہوں، اِس موضوع پر لکھنے سے کوئی ناراض بھی نہیں ہو گا اور نہ کوئی سرخ لکیر عبور ہو گی۔

مشہور بھارتی غزل گائیک پنکج ادھاس کل وفات پا گئے، مجھے اُن کی آواز بہت پسند تھی، انہوں نے بے شمار غزلیں اور گیت گائے، فلم ’نام‘ کا گانا ’’چٹھی آئی ہے‘‘ اُنکے ہِٹ گانوں میں سے ایک تھا۔ مجھے پنکج ادھاس کی موت پر لکھنا چاہیے، وہ اسّی اور نوّے کی دہائی کے غزل گو تھے، ہماری جوانی کی یادیں اُن گانوں سے جُڑی ہیں۔ یہ موضوع بھی قابل قبول ہے، کسی کو ناگوار نہیں گزرے گا، کسی کی دُم پر پیر نہیں آئے گا۔

امریکی ائیر فورس سے تعلق رکھنے والے ایک جوان نے اتوار کو واشنگٹن میں اسرائیلی سفارت خانے کے سامنے خود کو آگ لگا کر خود کشی کر لی، وہ جوان غزہ پر ہونیوالے مظالم پر احتجاج کر رہا تھا۔ اُس مرد رعنا نے یہ کہتے ہوئے خود سوزی کی کہ وہ فلسطینیوں کی نسل کُشی میں شریک جُرم نہیں ہو سکتا۔ مجھے غزہ کے بارے میں لکھنا چاہیے، یہ موضوع ایسا ہے کہ جس پر دائیں اور بائیں بازو والے سب لوگ خوش ہو جائیں گے۔

میرے محبوب قائد ڈونلڈ ٹرمپ بھی آج کل سرخیوں میں ہیں۔ وہ دوسری مرتبہ امریکہ کا صدر بننے کیلئے پر تول رہے ہیں۔ اُن پر کیپٹل ہِل کا مقدمہ چل رہا ہے، ایسے میں کیا وہ صدر بن پائیں گے؟ اُن کی قانونی مشکلات کیا ہیں، اُن کے مد مقابل جو بائیڈن، نکی ہیلی اور کورنل ویسٹ کا صدر بننے کا کتنا امکان ہے؟ یہ موضوع بھی سہل ہے، اِس کیلئے سارا مواد انٹر نیٹ سے تلاش کرنا ہے اور بس،اِس میں کہیں کوئی ریڈ لائن بھی نہیں ہےاور لکھاری بیٹھے بٹھائے عالمی امور کا ماہر بھی بن جاتا ہے۔

ممکن ہے آپ اعتراض کریں کہ اِن میں سے زیادہ ترموضوعات تو غیر ممالک سے متعلقہ ہیں، مجھے بھی یہ احساس ہوا ہے، اسی لیے میں نے کچھ ملکی موضوعات کے بارے میں بھی سوچ رکھا ہے، مثلاً نوجوان نسل میں بڑھتی ہوئی اخلاقی بے راہ روی، بجلی کےمہنگے بِل، پانی کا بحران، رمضان پیکیج، معیشت کی بحالی کے طریقے، وغیرہ وغیرہ۔ جی، کیا فرمایا آپ نے؟ میں لاہور میں خاتون کے ساتھ پیش آنے والے واقعے کے بارے میں لکھوں؟ معافی چاہتا ہوں، یہ میں نہیں کر سکتا، میں عاصمہ شیرازی اور فرنود عالم کی طرح بہادر نہیں ہوں۔ میں نہیں لکھ سکتا کہ جو عورت عربی خطاطی والا لباس پہن کر اچھرے میں شاپنگ کرنے گئی وہ گستاخی کی مرتکب کیسے ہو گئی؟ میں نہیں لکھ سکتا کہ اُس عورت کی آنکھوں میں جھانکتا ہوا خوف دراصل ریاست کی بے بسی کی غمازی کرتا ہے۔ میں نہیں لکھ سکتا کہ اگر بہادر پولیس افسر خاتون وہاں کچھ دیر بعد پہنچتی تو نہ جانے کیا ہو جاتا، ’مشتعل‘ ہجوم اپنا ایمان بچانے کی خاطر اُس عورت کو....!!! بے شک اُس پولیس افسر کو سلام ہے جس نے اپنا فرض نبھایا مگر یہی اُس کی ڈیوٹی بھی تھی، اسی کام کی سرکاری افسر کو تنخواہ ملتی ہے اور اسی لیے گاڑیاں ہٹو بچو کی صدائیں لگاتی ہوئی آگے پیچھے پھرتی ہیں۔ اگر پولیس نے یہ کام بھی نہیں کرنا تو پھر اُس نے کرنا کیا ہے!

میں نے اُس واقعے کی متعدد ویڈیوز دیکھی ہیں، ایک ویڈیو میں کوئی شخص اُس عورت کو درشت لہجے میں کھڑے ہونے کیلئے کہتا ہے او ر وہ بیچاری کھڑی ہو جاتی ہے، پیچھے کہیں سے آواز آتی ہے کہ ’’ایہہ ساڈے اسلام دا مذاق اے‘‘۔ ایک نعرہ سر تن سے جدا کرنے کا بھی سنائی دیتا ہے۔ ویڈیو میں وہ عورت مسلمان نا محرم مردوں کے ہجوم میں سہمی ہوئی بیٹھی نظر آ رہی ہے، سب نے اُس پر نظریں گاڑی ہوئی ہیں، کسی کو یہ حکم یاد نہیں کہ جب نا محرم عورت پر نظر پڑے تو آنکھیں نیچی کر لو۔ سب اُس کے کپڑوں کو دیکھ رہے ہیں جن پر عربی خطاطی ہوئی ہے اور ایک لفظ حلوہ لکھا نظر آ رہا ہے۔ اور میں نےوہ ویڈیو بھی دیکھی ہے جس میںاُس عورت نے برقع پہنا ہوا ہے اور وہ اے ایس پی صاحبہ اور متعدد مولوی صاحبان کی موجودگی میں تجدید ایمان کر رہی ہے اور معافی مانگ رہی ہے کہ غلطی سے ایسا لباس پہن کر آگئی جس پر عربی میں حلوہ لکھا ہوا تھا۔اسے نہیں پتا تھا کہ اب ہماری ریڈ لائن حلوہ ہے۔ جب سیالکوٹ میں سری لنکن شہری کو ڈنڈے مار مار کر ہلا ک کیا گیا تھا تواُس وقت خاکسار نے لکھا تھا کہ یہ پہلا واقعہ ہے اور نہ آخری۔ اِس کی وجوہات کیا ہیں، اِن واقعات کا تدارک کیسے کیا جا سکتا ہے، ہم یہاں تک کیسے پہنچے، اِن سوالات کا جواب دیتے دیتے اب ہمارے قلم کی روشنائی خشک ہو چکی ہے۔ جو لباس اُس عورت نے پہنا ہوا تھا وہ کویتی کمپنی کا ڈیزائن کردہ تھا، کویت الحمد اللہ ایک مسلمان ملک ہے، وہاں وہ کمپنی اب بھی کام کر رہی ہے اور یہ کپڑے دھڑا دھڑ فروخت کر رہی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اُس کمپنی میں کوئی نہ کوئی پاکستانی، ہندوستانی یا بنگلہ دیشی مسلمان ضرور کام کرتا ہو گا، مگر مجال ہے کہ کسی کے ذہن میں یہ بات آئی ہو جو اچھرہ، لاہور کے مسلمانوں کے ذہن میں آئی اور انہوں نے ایک عورت کو یرغمال بنا کر کہا کہ یہ کپڑے اتارو۔ یہ نہ جانے وہ کون سے مسلمان تھےجو اِسلام کی حفاظت پر مامور تھے۔

اِس واقعے پر ہمارے معاشرے میں جو رد عمل آیا ہے وہ حوصلہ افزا ہے ، ہر شخص نے، چاہے وہ مذہبی ہو یا آزاد خیال، اِس کی نہ صرف شدید مذمت کی ہے بلکہ پولیس کی بروقت مداخلت کو سراہا ہے۔ لیکن یہ کافی نہیں، اُس عورت سے ایک ناکردہ جُرم کی معافی منگوا کر ایک نئی ریڈ لائن کھینچ دی گئی ہے۔ اب وہ دن دور نہیں جب لفظ حلوہ بولتے وقت حلق سے ح کی روح پرور آواز نہ نکالنے پر ہجوم ’مشتعل‘ ہو جایا کرے گا۔ انتظار فرمائیے۔

تازہ ترین