• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مریم نواز شریف پنجاب کی پہلی خاتون وزیراعلیٰ کے طور پر ذمہ داریاں سنبھال چکی ہیں۔ بینظیر بھٹو پہلی خاتون وزیر اعظم تھیں تو مریم نواز پہلی خاتون وزیراعلیٰ ہیں تاہم پنجاب دھرتی پر بہادر خواتین کی حکمرانی کوئی نئی بات نہیں۔ مہارانی جند کور جنہیں رانی جنداں بھی کہا جاتا ہے، انہیں تو پنجاب کی تاریخ میں مزاحمت کی داستان رقم کرنے پر ہیروئن کا درجہ حاصل ہے۔ مہارانی جند کور کو لاہورشاہی قلعہ کے مینار میں قید رکھا گیا، شیخوپورہ جیل میں اسیر رہیں، پنجاب سے باہر اتر پردیش جیل میں مصائب وآلام کا ڈٹ کر مقابلہ کیا، مرزا پور کے چنار قلعہ میں قید وبند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ انگریزوں نے اس صنف آہن کو جھکانے کی ہر ممکن کوشش کی مگر اس نے حالات سے سمجھوتہ کرنے سے انکار کر دیا۔ مائیکل سنگھ جنہوں نے مہارانی جند کور کی زندگی پر ’’باغی رانی‘‘ کے نام سے دستاویزی فلم بنائی، وہ کہتے ہیں کہ پنجاب کا تخت حاصل کرنے کیلئے مہارانی شیرنی کی طرح لڑیں۔ مہارانی جند کور کے علاوہ سلطان شمس الدین التمش کی صاحبزادی رضیہ سلطانہ دہلی کے تخت پر بیٹھنے والی پہلی خاتون کا اعزاز حاصل کر چکی ہیں۔ رضیہ سلطانہ کو بڑے بھائی ولی عہد شہزادہ نصیر الدین محمود کی وفات کے بعد سلطان شمس الدین التمش نے اپنا جانشین نامزد کیا مگر درباریوں نے بغاوت کر دی۔ فرسودہ خیالات کے حامل درباریوں کا خیال تھا کہ عورت حکمراں نہیں ہو سکتی۔ سازش رچائی گئی اور رضیہ سلطانہ کے بھائی رکن الدین فیروز کو تخت پر بٹھا دیا گیا۔ رکن الدین فیروز ایک نااہل اور ظالم حکمران ثابت ہوا۔ رضیہ سلطانہ نے جدوجہد کی اور عوام کی طاقت سے اسے تخت سے الگ کرنے کے بعد اسے پھانسی دیدی۔ اگرچہ رضیہ سلطانہ کا دور بہت مختصر رہا لیکن انہوں نے خود کو ایک قابل اور مضبوط حکمراں ثابت کیا۔ اسی طرح جھانسی کی رانی، رانی لکشمی بائی کے بارے میں کون نہیں جانتا۔ 1857ء کی جنگ آزادی میں جھانسی کی رانی نے انگریز سامراج کے خلاف بہادری و شجاعت کی تاریخ رقم کی۔

لیکن اگر ہم پنجاب کی بات کریں تو ماضی قریب میں بھارتی پنجاب کو یہ اعزاز حاصل ہوا کہ 1996ء ہر چرن سنگھ برار کے استعفیٰ دینے کے بعد کانگریس پارٹی کی راجندر کور بھٹال پہلی خاتون وزیراعلیٰ منتخب ہوئیں۔ میرے خیال میں متذکرہ بالا کسی خاتون سے مریم نواز کا موازنہ کرنا درست نہیں ہو گا۔ ان سب کے حالات و واقعات، عادات و اطوار ،خوبیاں اور خامیاں مختلف و منفرد ہیں ۔میاں نواز شریف کے دونوں صاحبزادوں حسن اور حسین نواز نے دانستہ طور پر خود کو سیاست سے دور رکھا جبکہ مریم نواز شریف نے شعوری طور پر اس پرخار راستے کا انتخاب کیا۔مریم نواز شریف نے ایک شہزادی کی طرح نازو نعم سے پرورش پائی، کیپٹن (ر) صفدر سے شادی کے بعد انہوں نے اپنے سسرال میں جس طرح صبر وشکر سے وقت گزارا، اس پر خوشگوار حیرت ہوئی۔ پھر جب انہوں نے اپنے والد کی ڈھال بننے کا فیصلہ کیا اور سیاست کے میدان میں قدم رکھا تو ابتدا میں ہی انہیں ناقابل برداشت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ بستر مرگ پر دراز والدہ اور اپنے بچوں کو چھوڑ کر والد کے ساتھ پاکستان واپس آنے کا فیصلہ کرنا آسان نہ تھا۔ مگر انہوں نے بہت استقامت اور حوصلے کے ساتھ ان حالات کا سامنا کیا اور بہت بہادری سے جیل کاٹی۔ انہیں ایک ’’باغی رانی‘‘ کے طور پر یاد کیا جاتا ہے جس نے مدافعانہ طرزعمل اختیار کرنے کے بجائے جارحانہ انداز سیاست کو اپنی پہچان بنایا۔ انہوں نے مفاہمت کے بجائے مزاحمت کی راہ اختیار کی اور طاقت کے مراکز سے اقتدار کی بھیک مانگنے کے بجائے عوام کی طاقت پر انحصار کیا۔ آپ کو یاد ہو گا ایک بار عدالت میں پیشی کے بعد جب ان سے سوال کیا گیا کہ ’اب مفاہمت کا بیانیہ چلے گا یا پھر مزاحمت کا‘ تو انہوں نے کہا تھا کہ مزاحمت ہوگی تو مفاہمت ہوگی کیونکہ طاقت ہی طاقت سے بات کرتی ہے۔ انتخابات سے پہلے جب ہر طرف لیول پلینگ فیلڈ کا شور تھا تو مریم نواز نے کہا، میاں نواز شریف جیل میں تھے، ان کی شریک حیات فوت ہو گئیں، آخری وقت فون پر بات نہیں کرنے دی گئی، کیا یہ لیول پلینگ فیلڈ چاہئے؟ اس باغیانہ روش اور جارحانہ مزاج کے باعث ہی مریم نواز عوام میں مقبول ہوئیں اور مسلم لیگ (ن) کے کارکنوں نے انہیں اپنے تاحیات قائد میاں نواز شریف کا پرتو سمجھنا شروع کر دیا۔ مریم نواز کی اس کامیابی پر ان کے سیاسی اتالیق جناب پرویز رشید بھی مبارکباد کے مستحق ہیں۔ میا ں نوازشریف تو مریم نواز کے گرو اور قائد ہیں ہی مگر ان کی سیاسی تربیت اور رہنمائی کا فریضہ میاں نوازشریف نے اپنے بااعتماد اور وفادار ساتھی پرویز رشید کو سونپا تھا۔ وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف کو مشورے دینے اور نصیحت کرنے والوں کی کوئی کمی نہیں اور میرا خیال ہے کہ نوازشریف کی بیٹی کو یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ حکمرانی کیسے کرنی ہے۔ میں تو بس ایک تجویز دینا چاہوں گا۔ اگر مریم نواز شریف کا خیال ہے کہ اپنے والد کی طرح ترقیاتی کام کروا کے، شاہرائوں کا جال بچھا کے یا پھر اپنے چچا کی طرح گڈ گورننس کا جادو دکھا کے وہ اپنے آپ کو منوا سکتی ہیں تو اس مغالطے سے نکل آئیں۔ اگر ذوالفقار علی بھٹو اور میاں نواز شریف کے کارناموں کو نکال دیا جائے تو پاکستان میں کچھ نہیں بچتا۔ لیکن اس کے باوجود 8فروری 2024ء کے انتخابات میں دو تہائی اکثریت نہیں مل سکی۔ کیوں؟ اس لئے کہ یہ تلبیس اطلاعات کا زمانہ ہے۔ جب پروپیگنڈے کے زور پر ساکھ خراب ہو جائے اور ایک تاثر بنادیا جائے تو پھر ترقیاتی کاموں کی کوئی اہمیت نہیں رہ جاتی۔ آپ عوام کے مسائل حل کریں یا نہ کریں ،انہیں کسی کھوکھلے نعرے یا پرکشش بیانیے کے پیچھے لگا دیں۔ گاہے حقیقی آزادی کا منجن تھما دیں، کبھی ’ہم کوئی غلام ہیں‘ کا نعرہ دیدیں اور کچھ نہ ہو تو ’’پروغرام وڑگیا‘‘ یا پھر’’نک دا کوکا‘‘جیسے منو رنجن کا اہتمام کر دیں پھر دیکھیں لوگ کیسے داد کے ڈونگرے برساتے اور آپ کے گیت گاتے ہیں۔ کام ہویا نہ ہو، کام ہوتا نظر آنا چاہئے۔ میں یہ تو نہیں کہوں گا کہ باقی سب کام چھوڑ کر ساری توانائیاں کارکردگی کا ڈھول بجانے پر صرف کردی جائیں البتہ بیانیہ سازی کے اس کام کو غیر اہم نہ سمجھا جائے اور اس طرف بھی اہمیت دی جائے۔ ورنہ داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں۔

تازہ ترین